16 دسمبر کو اسے حکم ملا کہ آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں نے قبضہ کر کے وہاں موجود طالب علموں اور سٹاف کا قتل شروع کر دیا ہے ‘ طالب علموں اور سٹاف کی زندگیاں بچائو ۔۔۔ یہ سنتے ہی وہ بھاگتا ہوا آرمی سکول پہنچ گیا‘ جہاںدشمن کا آگ اور بارودسے دہکتا ہوا الائو اس کا منتظر تھا۔ سب نے دیکھا کہ عشق خود کش جیکٹوں کی تباہ کاری اور سب مشین گنوں کی نالیوں سے اگلتی ہوئی آگ کی بارش کی پروا کئے بغیر آتش نمرود میں کو دگیا۔ عشق نے نعرۂ تکبیر کی گونج میں جام شہا دت تو نوش کر لیا لیکن اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے آرمی پبلک سکول پشاور پر قابض خدا کے سب سے زیا دہ دھتکارے ہوئے درندوں کو جہنم کی سب سے نچلی سطح پر پھینکنے سے نہ چُوکا ۔ عشق کے ذہن میں اپنی پیاری پیاری بچیاں نہیں تھیں‘ توتلی زبان میں بابا بابا کہہ کر پکارنے والے چاند جیسے مُنے نہیں تھے‘ اس کے جھریوں بھرے چہروں والے بوڑھے والدین نہیں تھے اور اس کی راہ تکتی سہاگن بھی نہیں تھی بلکہ اس کے سامنے صرف اور صرف وطن کی آن تھی‘ وطن کی شان تھی۔ عشق نے یہ نہ دیکھا کہ اس کی بوڑھی ماں صبح اسے گھر سے جاتے ہوئے دیکھنے کے بعد اس کی واپسی کی راہ تک رہی ہوتی ہے ۔وہ جانتا تھا کہ ان درندوں کو دشمن نے خطرناک ترین اسلحہ دے کر بھیجا ہو گا‘ ان کے پاس مارٹر گنیں بھی ہوں گی‘ ان کے جسموں کے گرد خود کش جیکٹیں بھی ہوں گی اور وہ سامنے نہیں ہوں گے بلکہ کہیں چھپ کر گھات لگائے بیٹھے ہوں گے لیکن وہ عشق ہی کیا جو ڈر جائے‘ جو حوصلہ چھوڑ دے‘ جو پسپا ہو جائے ۔عشق اپنی منزل کی جانب بڑھتا گیا کیونکہ اسے ایک ہی دھن تھی کہ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس نے سبز کوٹ پہنے بچوں اور بچیوں کو بچانا ہے‘ وہاں تدریسی عمل انجام دینے والی اپنی بہنوں کو بہ حفاظت نکالنا ہے۔
اسے حکم ملا کہ مہران بیس کراچی پر وطن دشمنوں کے حملے کو ناکام بنا دو۔یہ سنتے ہی وہ چل پڑا ‘صرف یہی سوچتے ہوئے کہ اس نے وطن کے ہر اثاثے کو بچا نا ہے۔ وطن کی حفاظت کیلئے نصب بیش قیمت اور نایاب جہازوں اور ہتھیاروں کو بچانا ہے۔ عشق نے مہران بیس دشمن سے آزادکرواتے ہوئے اپنا فرض نبھا دیا لیکن خود کو بھی آتش و آہن میں کُود کرقربان کر دیا۔
سوات اور دیر میں جب پاکستان کی رٹ ختم ہو گئی‘ جب وہاں کے ایک ایک کونے سے پاکستان کا پرچم اتار دیا گیا تو عشق کو حکم ملا کہ جائو اور وہاں سبز ہلالی پرچم کو لہراتے ہوئے حکومت پاکستان کی رٹ بحال کرو‘وہاں رہنے والوں کی زندگیوں کو بھارتی درندوں کے سدھائے اور پالے ہوئے درندوں سے محفوظ بنائو۔ یہ سنتے ہی عشق وادیٔ سوات کے ایک ایک کونے میں مدد کے لیے پکارتی ہوئی بیٹیوں کی حفاظت کے لیے نکل پڑا۔ ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں جاتے ہوئے اس کے نیچے قدم قدم پر دشمن تھا‘ بارودی سرنگیں تھیں ‘وادیٔ سوات کے اندر جگہ جگہ چھپے ہوئے دشمن کے ہر کندھے پر راکٹ لانچر تھا‘ ان کی جیبیں اور جیکٹیں دستی بموں سے بھری ہوئی تھیں لیکن ہیلی کاپٹروں اور جہازوں میں ان کے اوپر اڑتا ہوا عشق بے خطر نیچے بچھائی گئی آگ میں ایک ایک کرکے کودتا رہا ۔وہ عشق ہی کیا جسے دنیا کی آگ روک دے۔ وہ عشق ہی کیا جسے گولہ بارود دہشت زدہ کر دے۔۔۔پھر ایک عالم نے دیکھا کہ یہ کیسا جنون ہے ‘یہ کیسا جذبہ ہے ‘یہ کیسی آگ ہے جو نمرود کی آگ کو بھی بھسم کئے جا رہی ہے! کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سوات کی وادیوں اور جنگلات میں بنائی گئی دشمن کی پناہ گاہیں ‘مورچے اور ٹنوں کے حساب سے ان میں جمع اسلحہ اور جاہلیت کی دی گئی وحشت کو زمین و آسمان سے بڑھنے اور اترنے والا عشاق کا کوئی قافلہ نیست و نا بود کر دے گا! سوات سمیت دیر میں نمرود کے چیلوں نے اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی جہاں فرعون اور نمرود کی اولادیں اور سرپرست گردنیں کاٹ کاٹ کریہی سمجھتے رہے کہ میسوں اور بیرکوں میں رہنے والے گوشت پوسٹ کے جوان خوف زدہ ہو کر بھاگ جائیں گے لیکن وہ بھول گیا کہ اس کا مقابلہ گوشت پوست سے نہیں بلکہ عشق سے ہے جو پہاڑوں سے دودھ کی نہریں بہا دیتا ہے‘ جو بے خطر آتش نمرود میں کود جاتا ہے ‘جو نیل کی بپھری ہوئی موجوں کو ہنستے کھیلتے پار کر جاتا ہے
اور جو لالک جان اور کرنل شیر خان کی طرح مائنس45 کے درجہ حرارت میں جا بیٹھتا ہے۔اسے حکم ملتا ہے کہ جامعہ حفصہ میں چھپے ہوئے دہشت گردوں کو باہر نکالو‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی قربانی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا ،پراپیگنڈہ اور دشمن کے جال میں جکڑے ہوئے لوگ اسے یاد بھی نہیں کریں گے لیکن یہ سوچ کرکہ جو حقیقت اور سچائی اسے معلوم ہے یہ نادان نہیں جانتے ‘کرنل ہارون اسلام کی شکل میں عشق دستی بموں کی بارشوں میں دیوانہ وار جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے میدان کارزار میں کود جاتا ہے۔یہ عشق کبھی کیپٹن علی بنا تو کبھی کیپٹن معظم بلوچ کی شکل میں سامنے آیا ‘کبھی میجر صابر کی صورت اختیار کی تو کبھی کیپٹن اسفند یار کی طرح قوس قزح کے رنگ بکھیر گیااور کبھی ابو القاسم پاکستانی کی طرح مقبوضہ کشمیر میں کولگام کی شور مچاتی ہوئی ندیوں میں جلو ہ ا فروز ہو ا۔
عشق کی خوشبو مقبوضہ کشمیر کی مٹی میں بھی سونگھی جا سکتی ہے ‘بدر اور با ٹا پور کے میدانوں اور وادیوں میںبھی محسوس کی جا سکتی ہے‘ کومیلا اور چٹاگانگ کے ندی نالوں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہے‘ فاضلکا اور کھیم کرن کے کھیتوں میںبھی دیکھی جا سکتی ہے‘ چونڈہ، ظفر وال اور چار واہ سمیت بیدیاںاور برکی کے میدانوں اور کشمیر اور سیا چن کی برف پوش چٹانوں سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان چلے جائیں‘ انگور اڈہ ،میر علی، میران شاہ اور وانا کا چکر لگا لیں ‘وادی مہران کے سنگلاخ پہاڑوں کی طرف نکل جائیں‘ میری خوشبو وہاں بھی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔میں عشق ہوں ‘میرا کوئی نام نہیں بس یہی سمجھ لیں کہ میں وہ جذبہ ہوں جسے صرف مر مٹنا آتا ہے ‘وہ بھی اپنے لئے نہیں بلکہ آپ کیلئے ‘آپ کے وطن کیلئے ‘آپ کے گھر بار کیلئے‘ آپ کے امن کیلئے ‘آپ کی عزت کیلئے ‘آپ کی آزادی کیلئے۔۔۔کبھی میں نے اپنی ٹانگیں اور بازو کٹوا دیئے، کبھی میں نے اپنی گردن کٹوا دی، کبھی میں نے اپنا سینہ چھلنی کرا دیا اور کبھی میں نے ٹینکوں کے آگے اور گولوں کے سامنے اپنے جسم کا قیمہ بنوا دیا اور کبھی میں نے ٹینکوں کے شعلوں میں خود کو کوئلے کی طرح بھسم کروا دیا اور کبھی خود کش جیکٹوں کے سامنے اپنا آپ پیش کرتے ہوئے ریزہ ریزہ کروا دیا۔
مجھے کبھی بھی تکلیف نہیں ہوئی‘ کبھی میں درد سے نہیں رویا ۔میری دونوں ٹانگیں کٹ گئیں ‘میںدونوں بازوئوں سے محروم ہو گیا‘ میرا چہرہ بگڑ گیا‘ میں دونوں آنکھوں سے نابینا ہو گیا لیکن مجھے اس کا کبھی دکھ نہیں ہوا‘ کبھی افسوس نہیں ہوا۔ جب میں دیکھ نہیں سکتا، جب میں چل نہیں سکتا‘ جب میری گردن کاٹ کر دہشت گرد میرے سر سے فٹ بال کھیلتے ‘زور زور سے سنگلاخ پہاڑوں پر اپنے جوتوں سے ٹھوکریں مارتے‘مجھے اس وقت بھی تکلیف نہیں ہوئی لیکن آسمان کی بلندیوںپر میرے جسم کے ایک ایک حصے سے‘ میرے قیمہ کئے گئے گوشت کے ذرے ذرے سے ‘میری کاٹ کر پھینکی گئی ٹانگوں اور بازئوں سے چیخیں اُبل پڑتی ہیں۔۔۔جب کہا جاتا ہے کہ ۔۔یہ فرض نہیں نبھاتا، یہ ہمارا بجٹ کھا جاتا ہے‘ یہ نہ تو ہمیں کھل کر کھانے دیتا ہے اور نہ ہی چھپانے دیتا ہے اور...یہ ''ہماری جمہوریت ‘‘ کا دشمن ہے ؟