یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ افضل خرم دنیا کا واحد چور ہے جسے ایک ہزار روپے مالیت کا دھنیا چرانے کے جرم کا اعزاز حاصل ہے۔ اب تک ہزاروں لاکھوں چور اپنے کارناموں سمیت سامنے آ چکے ہیں، لیکن یہ سب دھنیا چرانے جیسے جرم عظیم سے محروم رہے۔ جیل میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے بند افضل خرم جیسے دھنیا چورکے ساتھ جیل میں بند بڑے بڑے استاد اور گرگے بھی اسے دیکھ کر شرم سے آنکھیں نیچی کر لیتے ہوں گے کہ ''سالا ہم سب سے بازی لے گیا‘‘ کیونکہ شنید ہے کہ اس دھنیا چور کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جا رہا ہے کہ اس نے اتنی قیمتی چیز چرانے کی گستاخی کی ہے جو سب کی من پسند ہے اور جس کے بغیر کسی پولیس والے کی مٹن یا دیسی مرغ کی کڑاہی اور قورمہ تیار نہیں ہو سکتا۔ وکیل اور جج کے گھر میں گوشت اور مرغ کے علاوہ دال اور سبزی میں بھی اگر دھنیا کے نایاب پتے استعمال نہ کئے جائیں تو ان سب کھانوں میں ذائقہ ہی نہیں آتا۔
پولیس کا غصہ بجا ہے کہ اس بد بخت نے ان کے کھانوں کی سب سے پسندیدہ شے چرانے کی کوشش کی، یہ ان کے منہ کا ذائقہ اور اس سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو چھیننے کی گستاخی کا مرتکب ہوا ہے، اسے کسی صورت نہیں چھوڑا جا سکتا تھا۔ وہ تو خدا بھلا کرے سپریم کورٹ کا جس کے سامنے اس ''میگا کرائم ‘‘ کا کیس سماعت کے لئے پیش ہوا اور ہمیں بھی خبر ہو گئی ورنہ کسی کو کیسے پتا چلتا کہ ایک دھنیا چورسال سے زائد عرصہ سے پاکستان کی جیلوں میں بند پڑا ہے اور کوئی منصف اس کی ضمانت لینے کی جرأت نہیں کر رہا۔ یقینا سپریم کورٹ کا اب تک کا ریکارڈ بھی ضرور اس بات کی گواہی دے گا کہ اس کے سامنے دھنیا جیسی قیمتی اور خوش ذائقہ شے چرانے کا یہ پہلا مقدمہ پیش ہوا ہے۔ افضل خرم کے نام کی طرف دیکھیں تو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ شخص دھنیا چرانے کی قبیح حرکت کر سکتا ہے۔ دھنیا چور کے مقدمے کے جو سب سے اہم اور حیران کن حقائق سامنے آئے ہیں، ان سے اسلام آباد کے سکندر کی یاد تازہ ہو گئی ہے کیونکہ جس طرح سکندر اپنے دونوں ہاتھوں میں کلاشنکوفیں اٹھائے اسلام آباد کے بلیو ایریا میں دس گھنٹے تک سب کو بے بس بنائے ایک دائرے میں ناچتا رہا بالکل اسی طرح یہ دھنیا چور بھی ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں رائفل لئے دھنیا چراتا رہا۔ یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ جب اس کے ایک ہاتھ میں بھاری رائفل اور دوسرے میں پستول تھا تو اس نے دھنیا کیسے کاٹا ہوگا اور اسے کس طرح باندھا ہوگا؟ اور اس کی بار برداری کے لئے اس کے پاس کونسی سواری تھی جس پراس نے ہزار روپے مالیت کا نایاب دھنیا لے جانے کی کوشش کی؟
اس ملک میں ایان علی کے نام سے لوگ واقف ہیں جو اپنے ساتھ پانچ لاکھ ڈالر لئے دبئی شاپنگ کے لئے جا رہی تھی کہ ایئر پورٹ پر دھر لی گئی۔ لوگ سرے محل اور سوئس اکائونٹس کے علاوہ منی لانڈرنگ جیسے معمولی جرائم سے واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ ان میں ملوث شرفا کی چند روز بعد ہی ضمانت منظور ہو جانے کی خبر یں سامنے آ جاتی ہیں، لیکن یہ تو کسی کو پتا ہی نہ چل سکا کہ اس ملک میں دھنیا چور جیسے خطرناک ملزم بھی جیلوں میں بند پڑے ہیں۔ استاد گوگا دانشور اس بے مثال کارنامے پر پنجاب پولیس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ اسے کہتے ہیں پولیس نے دھنیا چوری جیسے نا قابل معافی جرم کے مقدمے کا چالان اس مضبوطی سے تیار کیا کہ ملک کی کسی بھی عدالت کو اس گھنائونے جرم میں ملوث ملزم کی ضمانت لینے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہ تو نجانے بات کس طرح سپریم کورٹ تک جا پہنچی کہ اس کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے افضل خرم کی ضمانت لے کر پنجاب پولیس ، ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ کی کارکردگی پر تو انگلیاں اٹھائیں ہی، اس دھنیا چور کو بھی بیس کروڑ آبادی والے اس ملک سمیت دنیا بھر میں مشہور کر دیا۔گوگا دانشور اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس ملزم کا دماغی معائنہ بھی ہو نا چاہئے، کیونکہ بجائے اس کے کہ وہ کوئی بینک لوٹتا، دوگنا تخمینے بنا کر پل اور سڑک بناتا، کسی طاقتور کی انتخابی مہم چلا کر ملک کے کسی کمزور شخص کی زمین ہتھیاتا، کسی پولیس افسر کی ٹائوٹی کرتا، لاہور یا پنجاب کی کسی بھی گلی اور سڑک یا مارکیٹ میں ڈکیتی کی کھلے عام وارداتیں کرتا، اس نے دھنیا چرا کر جرم کی دنیا کی ناک ہی کٹوا دی ہے۔
گوگا کہتا ہے وہ کم از کم کسی لانچ کی'' کپتانی‘‘ کرتے ہوئے ملک سے روزانہ کروڑوں روپے دبئی منتقل کرتا اور اگر یہ بھی نہیں تو کراچی کے ان ڈاکوئوں سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتا جو آئے روز قصاب کی دکانوں سے بڑے دھڑلے سے اپنی پسند کا گوشت چھینتے نظر آرہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مقدمے کی سماعت کے دوران حیرت سے پوچھا کہ ایک ہزار روپے کا دھنیا چھیننے والا ایک سال سے جیل میں بند ہے اور بڑے بڑے مجرموں پر کوئی ہاتھ ہی نہیں ڈالتا اور وہ سب کے سامنے آزاد گھوم رہے ہیں۔ دھنیا چور افضل خرم کے وکیل صدیق بلوچ ایڈووکیٹ میرے جاننے والوں میں سے ہیں، وہ تو شاید حیران نہ ہوئے ہوں، لیکن بتایا کہ عدالت میں اس وقت موجود تمام وکلا اور سائلین نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط کی جب یہ محیر العقول مقدمہ ضمانت کے لئے پیش ہوا۔ بات پھر میرے استاد محترم گوگا دانشور کے اندازوں اور تجزیوں کی جانب چلی جاتی ہے جو دبے لفظوں سے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ افضل خرم کا جرم توکچھ بھی نہیں تھا اور نہ ہی اس واردات میں کسی قسم کی سنگینی نظر آتی ہے، ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اس کی نیت میں کوئی خطرناک بات ہو جس نے پولیس کو مجبور کیا کہ وہ اتنا مضبوط مقدمہ بنانے میں جت گئے کہ اس کی ضمانت ہی نہ ہو سکے۔ اگر ہمارا دوست وکیل اپنے سائل کو اعتماد میں لیتے ہوئے اس سے اصل سچ کریدنے کی کوشش کرے تو بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ ملزم افضل خرم کی نیت درست نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے کسی رقیب پولیس افسر کو یا اس کے کسی کار خاص کو ایک ہزار روپے مالیت کا یہ دھنیا کسی خاص مقصد کے لئے پلانا چاہتا ہو اور اس پولیس افسر کو اس دھنیا کے پیچھے چھپی سازش کا پہلے ہی پتا چل گیا ہو؟
افضل خرم اگر اس قسم کے گھنائونے مقاصد کے لئے دھنیا چوری کر رہا تھا تو اسے اپنی ضمانت کے لئے ایان علی سے ہی کچھ سبق سیکھ لینا چاہئے تھا۔ اگر وہ پانچ لاکھ ڈالر دبئی لے جانے کے جرم میں پکڑے جانے پر اپنی ضمانت کے لئے ملک کے ایک سابق چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر اور ایک بڑے صوبے کے گورنر اور اٹارنی جنرل کو وکیل کر سکتی ہے تو اسے بھی ایک ہزار روپے مالیت کا دھنیا چوری کے مقدمے میں ضمانت کے لئے شروع سے ہی انہیں وکیل کر لینا چاہیے تھا۔ دھنیا چوری کرنے پر نہیں بلکہ ایک اچھا اور نامور وکیل نہ کرنے کے جرم میں اسے ایک سال جیل میں بند رہنا پڑا۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں، اسے آئندہ یہ بات ذہن میں رکھ لینی چاہیے کہ اگر جرم بڑا کرنا ہے تو پھر ضمانت کرانے کے لئے وکیل بھی بڑا اور زبردست قسم کا ہونا چاہیے۔