''وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کیلئے جو بھاری بیرونی قرضہ جات وصول کر رہے ہیں‘ وہ انہیں کس طرح واپس کریں گے؟‘‘ یقین جانئے وزیر بلدیات سندھ سعید غنی اور مولا بخش چانڈیو کا دکھ بھرے لہجے میں یہ بیان سنتے ہی میرا دل اندر سے رو پڑا کہ پی پی پی اور اس کے تمام لیڈران کو اس ملک سے کس قدر ہمدردی ہے کہ انہیں ہر وقت یہ خدشات سونے نہیں دیتے کہ عمران خان صاحب جو بیرونی قرضے ملک پر لاد رہے ہیں‘ وہ واپس کس طرح کئے جائیں گے؟ ان قرضوں کی ادائیگیوں کیلئے اربوں ڈالر کہاں سے حاصل کئے جائیں گے؟ سعید غنی صاحب کا یہ بیان سنتے ہی دل احساسِ ممنونیت سے پکار اٹھا کہ کاش ہماری تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈران سعید غنی اور مولا بخش چانڈیو جیسی سوچ کی حامل ہو جائیں تو اس ملک کے عوام کو اس قسم کے حالات نہ دیکھنے پڑیں جن کا آج انہیں سامنا ہے!!
پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لئے سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے دیئے گئے تین ارب ڈالرز کی بریکنگ نیوز جیسے ہی سامنے آئی تو شدید غم اور غصے سے پیپلز پارٹی کے ان انتہائی متحرک لیڈران کے چہرے سرخ ہو گئے اور آئو دیکھا نہ تائو انہوں نے عمران خان پر برستے ہوئے سوال کیا کہ یہ ڈالر‘ جو پی ٹی آئی حکومت وصول کئے جا رہی ہے‘ وہ اسے کیسے اور کہاں سے واپس کرے گی؟ ہم نے پیپلز پارٹی کے دونوں رہنمائوں کی یہی بات اپنے استاد محترم گوگا دانشور کے سامنے رکھی تو ہماری بے خبری پر اظہار افسوس کرتے اور سگریٹ کا ایک لمبا کش لگاتے ہوئے استاد محترم فرمانے لگے: بے وقوف آدمی یہ تین ارب ڈالر جو متحدہ عرب امارات سے ہمیں مل رہے ہیں‘ وہ ہمارے خرچ کرنے کیلئے نہیں ہیں‘ بلکہ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس بطور امانت رکھوانے کیلئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا غم اور غصے کی شدت میں کیا گیا یہ سوال اور گوگا دانشور کی ڈانٹ سن کر یاد آ گیا کہ جنرل مشرف کی حکومت نے اپنے 9 برسوں کے اقتدار میں 6 ارب ڈالر قرضہ لیا تھا۔ ان کے بعد پانچ سال اقتدار میں رہنے کے بعد جب پی پی پی راج ختم ہوا تو معلوم ہوا کہ ان پانچ برسوں میں زرداری راج نے قرضہ 14 ارب ڈالر تک بڑھا دیا ہے اور ان کے بعد کے پانچ سالوں میں ان کے دوست اور محسن میاں نواز شریف نے بیرونی قرضوں کی حد 34 ارب ڈالر تک پہنچا دی۔ سعید غنی اور مولا بخش چانڈیو‘ دونوں سے یہ پوچھنا یاد ہی نہیں رہا کہ حضور یہ بھاری بھرکم قرضے جو آپ لوگوں نے اس قوم پر لادے تھے‘ انہیں اتار کر کیوں نہیں گئے؟ اس ملک کی عوام کو بتا دیں کہ آپ کے لادے گئے یہ قرضے عمران خان کس طرح اتارے گا؟ کل ہی ایک ٹی وی پروگرام میں رانا ثنا اللہ آصف علی زرداری کی وکالت کرتے ہوئے فرماتے سنے گئے کہ ہم پر تین سو ارب کا الزام لگانے والے ایک نئی جے آئی ٹی بنا کر جعلی اکائونٹس کی داستانوں کے ذریعے آصف زرداری پر صرف 35 ارب روپے کی کرپشن کی کہانیاں سنا رہے ہیں‘ کہاں تین سو ارب اور اب کہاں پینتیس ارب‘ اس قدر کم رقم کی کرپشن کی بات کرتے ہوئے تحریک انصاف اور ایف آئی اے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ رانا ثنا اللہ صاحب کی زبان سے یہ الفاظ سنتے ہوئے ایسا لگا کہ جیسے ایف آئی اے نے ان پر صرف 35 ارب ڈالر جیسی معمولی رقم کی کرپشن ثابت کر کے ان کی بہت بڑی توہین کر دی ہے۔ چاہئے تو یہ کہ فاروق نائیک اور لطیف کھوسہ صاحب فوری طور پر اس توہین پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کر دیں کیونکہ اگر ایان علی کے مقدمے میں پیش ہوا جا سکتا ہے تو اس توہین پر کیوں نہیں؟۔
گوگا دانشور کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ ہوا کسی با خبر ذرائع نے انہیں یہ بتا کر حیران کر دیا تھا کہ 'آئس لینڈ کی ایک بہت بڑی گروسری چین ''ہیگ کاپ‘‘ کے 49 فیصد حصص پاکستان کی ایک انتہائی اہم سیاسی شخصیت کے مشہور و معروف فرنٹ مین نے اکتوبر 2014 میں 90 ملین ڈالر میں خرید لئے ہیں اور آئس لینڈ کی یہ سب سے بڑی مارکیٹ CHAIN خریدنے کے بعد ان صاحب کی جانب سے جو پہلا انتظامی حکم جاری ہوا‘ یہ تھا کہ ''اس چین کے پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام ملازمین کو پندرہ دنوں کا نوٹس دیتے ہوئے انہیں ان کی ملازمتوں سے فارغ کر دیا جائے‘‘۔ اس حکم کے تحت 35 پاکستانی‘ جن کی ملازمتیں ختم کر دی گئی ہیں‘ ابھی تک پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا جبکہ وہاں بھارت اور دوسرے ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی ملازمتوں کو تو قائم رکھا گیا ہے۔ سارا نزلہ غریب پاکستانیوں پر شاید اس لئے گرا دیا گیا کہ وہ ان کو کہیں آتے جاتے دیکھ نہ لیں۔
گوگا دانشور کہتے ہیں کہ سعید غنی یا مولا بخش چانڈیو سے کوئی پوچھے گا کہ جناب آئس لینڈ کا یہ سٹور خریدنے والے کے پاس 90 ملین ڈالرکہاں سے آئے ہوں گے؟ یہ سوال میرے جیسے پاکستانیوں کے ذہنوں میں تو یہ اطلاع ملنے کے بعد سے گونج ہی رہا تھا‘ بلکہ آئس لینڈ کے رہنے والے پاکستانیوں کیلئے بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی آئس لینڈ کے وزیر اعظم کا نام جب پانامہ سکینڈل میں سامنے آیا تو اسی رات دو لاکھ سے زائد افراد ان کے محل کے باہر یہ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے کہ وزیر اعظم آئس لینڈ فوری استعفیٰ دیں کیونکہ ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارا وزیر اعظم کرپٹ ہو۔ اس نے لاکھ کہا کہ پانامہ کا الزام ان پر نہیں بلکہ ان کی بیگم پر ہے لیکن ان کا یہ عذر کسی نے بھی تسلیم نہ کیا‘ اور وہ اس وقت تک اس کے گھر کے باہر رہے جب تک وزیر اعظم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ نہیں دے دیا۔ ایک جانب 35 ارب کی معمولی کرپشن ہے‘ تو دوسری طرف تھر میں 478 نوزائیدہ بچے کسی بھی قسم کی میڈیکل سہولت اور آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے صرف ایک سال میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایک جانب پاکستان کے خزانوں سے لوٹے ہوئے 90 ملین ڈالر کی آئس لینڈ میں انویسٹمنٹ ہے اور دوسری جانب غربت کے ہاتھوں فاقہ کشی سے بچنے کیلئے والدین اپنے ہی بچوں کے گلے کاٹ کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔
اگر کسی کو 90 ملین ڈالر کی حقیقت کا علم نہیں تو وہ صرف یہ بات سامنے رکھ لے کہ پاکستان میں اگر کسی کے پاس اس وقت ایک ڈالر ہو تو اسے اس کے بدلے میں بازار سے پاکستانی کرنسی کے 138 روپے ملیں گے۔ میرے ذاتی خیال میں یہ سب کرم نوازیاں اور سہولیات کی بارشیں اس 18ویں ترمیم کی بدولت ہیں‘ جس کے ذریعے چالبازوں نے ایک وار سے دو کام کئے‘ مرکز کے پاس موجود ایک سو ارب سے زیادہ فنڈ اپنے حصے کی صوبائی حکومت کے ہاتھوں میں دے دیئے اور ساتھ ہی مرکز کو کمزور کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کیلئے تعلیم کے نصاب جیسے حساس معاملات قبضے میں کر لئے۔ جس آئین کے تحت یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ اس کے ایک ایک صفحے کی حفاظت کیلئے ہم اپنی جانیں دے دیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ آئین کے ہر صفحے کے ساتھ کسی فالودے والے یا مکینک کا جعلی کائونٹ ہے جو شاہ صاحب لال سرخ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس آئین کو جلانے یا مٹانے کی کسی نے کوشش کی تو اس کے ہاتھ توڑ دیئے جائیں گے۔ کاش کہ وہ اس آئین میں عوام کو دیئے جانے والے حقوق کا کچھ حصہ اپنے آبائی شہر سکھر اور اس سے ذرا پرے تھر کے صحرائوں میں ہی دکھا دیں کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے ترس رہے ہیں۔