"MABC" (space) message & send to 7575

طلبا یونینز کی بحالی کا مطالبہ

قیامِ پاکستان کے چند برسوں بعد لبرل ازم اور ترقی پسندی کے نام پر کمیونزم اور سوشلزم کے نعرے لگاتی ہوئی مشروم کی طرح مختلف ناموں سے مزدور‘ طلبا اور اساتذہ یونینز قائم ہونے لگی تھیں۔یوں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے نامور شاعر‘ صحافی اور سیا سی میدان کے نچلے اور درمیانے درجے کے لیڈران اور وکلاء حضرات انقلابی نعروں کے ساتھ سر گرم دکھائی دئیے جانے لگے ۔
خود کو سیکولر‘ ترقی پسند اور لبرل کہلوانے والے‘ اٹھتے بیٹھتے یہی کہتے کہ کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظام کیلئے عوام کے ذہنوں میں سرخ انقلاب لایا جائے گا‘ جس سے چین‘ روس اور فرانس کی طرح سرمایہ داروں سے ان کے محل اور کارخانے ‘جبکہ جاگیرداروں اور وڈیروں سے ان کی زمینیں چھین کر سب کھیتوں کے مزارعوں اور ہاریوں میں بانٹ دی جائیں گی۔ ان تنظیموں میں جہاں مزدور‘ غریب پسے ہوئے اور نچلے درجے کے متوسط خاندانوں کے لڑکے جوق در جوق شامل ہونے لگے‘ تو حیران کن طور پر اس وقت کے امراء اور بڑے بڑے خاندانوں کے لڑکے لڑکیاں ہراول دستے کے طور پر ان جلسوں اور ریلیوں میں دکھائی دئیے جا نے لگے۔
الغرض یہ کلاس اس وقت انتہائی لبرل اور مشترکہ محفلوں کی نسبت سے بہت مشہور تھی۔ انہی میں سے کچھ افراد بعد میں بڑے بڑے نام بنے اور مغرب و امریکا کے منظورِ نظر بن کر عالمی تنظیموں کی روح رواں بن گئے۔ترقی پسندوں کی تحریروں اور تقریروں سے روس کے کمیونزم اور سوشلسٹ نظام کی اس قدر تعریف اور خواہش کی جانے لگی کہ کم وسائل اور غربت کے سائے تلے ایک ایک چیز کو ترسنے والوں کو اپنی جانب کھینچنا شروع کر دیا۔ ان کا نعرہ ہی یہ تھا کہ '' کھیت مزدوروں کو دے دو۔۔۔ ملیں لٹیروں سے لے لو‘‘۔ ان نعروں میں پسے ہوئے طبقات کیلئے کشش ہونے کے ساتھ ساتھ رئیس اور جاگیردار خاندانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندانوں کی نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اپنی نجی محفلوں میں سرمایے کی طاقت سے اس قدر رنگینی اور دلکشی کا سامان کرتے کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا نوجوان طبقہ بھاگ بھاگ کر ان کے گرد جمع ہونے لگا ‘جہاں پہلی دفعہ ان کی تنظیمی اور نظریاتی جوش کے مطا بق‘ انہیں مفت کی منشیات سے فیض یاب کیا جاتا۔
میں کسی کانام نہیں لوں گا‘ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ترقی پسندی اور سرخ انقلاب کے نعروں سے دو درجن کے قریب ان تنظیموں میں سے صرف ایک آدھ کا تعلق روس سے تھا‘ جبکہ باقی سب امریکا کیلئے کام کرتے تھے۔ اس سے امریکیوں کا مقصد یہ تھا کہ کمیونزم اور مارکس ازم کی تعلیمات اور نظریات لینن اور مائو زے تنگ کے ناموں سے پاکستان کی نوجوان نسل میں چونکہ پھیلنا شروع ہو گئے ہیں‘ قبل اس کے کہ اس کی باگ ڈور روس کے ہاتھوں میں چلی جائے‘ دولت اور کشش کے سہارے‘ روسی اور چینی انقلاب کے شیدائیوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے جذباتی قسم کے نعروں سیمینارز‘ اشتہا رات اور ہلکے پھلکے مظاہروں تک محدود رکھنے کا بندو بست کیا جانے لگا‘ تاکہ ایسے افراد کے کتھارسس کا بندوبست کیا جا سکے۔اس سلسلے میں ان کی تنظیموں کو مختلف نا موں سے مختلف ممالک کے دورے بھی کروائے جاتے تھے۔
آج بھی ہر سال جنیوا اور یورپ بھر میں جو اجلاس اور سالانہ کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں‘ ان میںترقی پسند اور لبرل ازم کے نعروں تک محدود رہنے والے انہی داعیوں کو کھلے عام مدعو کیا جاتا ہے۔ ایسے کئی صحافیوں‘ دانشوروں‘ طلبا و مزدور یونینز لیڈروں کی ایک طویل فہرست ہے‘ جو افغانستان پر روسی قبضے تک'' ایشیاء سرخ ہے‘‘ کے نعرے لگاتے تھے اور افغان جہاد کی مخالفت میں بولتے اور لکھتے تھے‘ لیکن جیسے ہی روس ٹوٹ کر بکھر گیا‘ تو یہ تمام ترقی پسند امریکی ویزوں سمیت امریکا کے کیمپوں میں چلے گئے‘ جہاں وہ ایسے ہزاروں نو جوان لڑکے اور لڑکیوں کے قصے مزے مزے لے لے کر سناتے‘ جو سرخ انقلاب کیلئے ان کے ہاتھوں کھلونا بنے۔گزشتہ دنوں ایک بار پھر پنجاب یونیورسٹی‘ کراچی ‘ کوئٹہ اور اسلام آباد میں وہی پرانے نعرے لگاتی ہوئی نو جوان نسل نظر آئی۔ اب‘ فرق صرف اتنا پڑا ہے کہ تیس چالیس برس پہلے تک ایشیا سرخ ہے‘ کے نعرے لگتے تھے تو اس دفعہ اپنا کھوج چھپانے کیلئے '' جب لال لال لہرائے گا تو سب کچھ لال ہو جائے گا‘‘ کی آڑ میں جس طرح ڈھول کی تھاپ اور تالیوں کی گونج میں نوجوان لڑکیوں نے جگہ جگہ ڈانس کرتے ہوئے گیت گائے‘ وہ حیران کن ہے۔
ایسا لگا کہ شاید یہ دائیں بازو اور بائیں بازو کی تنظیموںمیں کسی مک مکا کا نتیجہ ہے یا دونوں کے مشترکہ باس کا حکم تھا کہ ایک دوسرے کے بالمقابل اسی طرح چلتے رہنا؟ میں طلبا تنظیموں کے وجود کا مخالف نہیں ‘بلکہ اس کے حق میں ہوں‘ لیکن تعصب اورلسانیت کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی طلبایونینز اور تنظیموں کا کسی طو ربھی حامی نہیں ‘تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ بظاہر طلبا یونینز پر پابندی اس لئے لگائی گئی کہ طلبا تعلیم اور پرامن ثقافتی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کریں‘ لیکن انہیں مصروف رکھنے کیلئے یونینز کے متبادل کوئی سرگرمی مہیا نہیں کی جا سکی۔ تعلیمی انحطاط وہی کا وہی یا اس سے بھی بدتر ہے‘ کالجوں میں جو کچھ تھوڑی بہت منظم سرگرمیاں منعقد کی جاتی تھیں‘ وہ بھی دم توڑ گئیں‘ یوں یونینز پر پابندی کے باوجود کوئی بھی پاکستانی یونیورسٹی عالمی رینکنگز میں نمایاں جگہ نہ بناسکی۔ آج دنیا بھر کی ٹاپ 100 یونیورسٹیز میں سے کسی ایک کا تعلق بھی پاکستان سے نہیں ہے۔ غرضیکہ طلبا تنظیموں کے ذریعے طلبا کے درمیان جو مکالمہ ہوتا تھا ‘وہ بھی بند ہوگیا ۔
بہتر ہوتا کہ ان پر یکسر پابندی لگانے کی بجائے ضابطے بنائے جاتے اور لاگو کئے جاتے‘ تاہم اب کئی دہائیوں بعد طلبا کے جذبوں نے پھر سر اٹھایا ہے۔ گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے مظاہروں میں طلبا کی کثیر تعداد کی شمولیت بہت سے لوگوں کیلئے حیران کن تھی‘ تاہم خوش آئند امر یہ ہے کہ اس مطالبے کو حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے سیاسی رہنماؤں سے حمایت ملی ہے۔ 
ذہن نشین رہے کہ طلبا یونینز پر پابندی جنرل ضیا الحق کے دورِ اقتدار میں لگائی گئی تھی۔ ان کے مخالفین آج بھی الزام لگاتے ہیں کہ اس اقدام کا مقصد معاشرے سے ڈکٹیٹرشب کیخلاف مزاحمت کی صلاحیت ختم کرنا تھا۔ اس پابندی کے اغراض و مقاصد پر بحث کی جاسکتی ہے‘ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اس زمانے کی طلبا سیاست میں تشدد کا عنصر نمایاں ہوچکا تھا۔70ء کی دہائی کی سیاست نے معاشرے میں مختلف مکتبہ ہائے فکر کے لوگوں کے درمیان بہت بڑی خلیج پیدا کردی‘برداشت کا خاتمہ ہوا۔
آج کے بڑے بڑے سیاستدانوں نے سٹوڈنٹ لیڈری کے دور میں جو گراں مایہ معرکے انجام دئیے‘ وہ سب کے سب تاریخ میں محفوظ ہیں‘لیکن بعد ازاںنظریاتی یا سیاسی اختلافات جانی دشمنیوں میں بدلے‘ یونیورسٹیوں کا نظم و ضبط متاثر ہوا اور روزانہ کی لڑائیاں سنگین تنازعات میں بدلنے لگیں۔ تین دہائیاں قبل جو رخ طلبا سیاست نے اختیار کر لیا‘ اس پر چلنے کی اجازت دینا بھی ریاست کیلئے ممکن نہیں‘ تاہم وزیراعظم عمران خان نے تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز کی بحالی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹیاں مستقبل کے لیڈران کو پروان چڑھاتی ہیں اور طلبا یونینز مستقبل کے لیڈرز بنانے میں اہم ہوتی ہیں‘لہٰذا اس کیلئے بین الاقوامی جامعات کے تجربوں سے استفادہ کیا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں