"MABC" (space) message & send to 7575

مفکرِ پاکستان‘ تیرا اقبال ہو بلند

'' آسمان پر براق جیسا سفید کبوتر‘ فضا کی وسیع بلندیوں میں ادھر ادھر پرواز کر رہا ہے اس کبوتر کی پرواز کا انداز دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ کبھی دور آسمان کی وسعتوں میں گم ہوتا دکھائی دیتا ہے تو کبھی اس قدر نیچے کہ ابھی زمین پر آ گرے گا‘ ایک ہجوم اس سفید دودھ جیسے کبوتر کو نیچے گرتا ہوا دیکھ کر پکڑنے کیلئے لپکتا ہے مگر وہ پلک جھپکتے ہی سب کی پہنچ سے بہت دور نکل جاتا ہے‘ سب کی نظریں اور ہاتھ اس کبوتر کے شکار کیلئے بے تاب تھے کہ اتنے میں وہ سفید کبوتر اڑان بھرتے ہوئے اچانک ایک شخص کی جھولی میں خود بخود ہی آن گرتا ہے‘‘۔ یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ شاعر مشرق‘ مفکر پاکستان علامہ اقبال کے والد گرامی شیخ نور محمد تھے۔ کچھ عرصہ بعد اس خواب کی تعبیر محمد اقبال کی ولادت کی صورت میں ہوئی۔ اس خواب کی صورت میں دنیا میں آنے والے وجود اور پھر علامہ محمد اقبالؒ کے نام میں آسمانِ پر جگمگانے والے آفتاب کے مزار کی جنوبی دیوار پر قران پاک کی سورۂ ابراہیم کی ستائیسویں آیت مبارکہ اس طرح کنندہ کی گئی ہے ''ایمان لانے والوں کو اﷲ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے‘‘۔
1916ء میں جب علامہ اقبال دو قومی نظریے کی پہچان کرا رہے تھے تو اس وقت نہ تو گوشت کھانے پر قتل و غارت ہونے لگتی تھی اور نہ ہی کسی کے بازو پر 786 لکھا ہوا دیکھ کر وہ بازو کاٹ دیا جاتا تھا۔ نہ اس وقت شہریت ترمیمی بل (CAA) کی جبری تکمیل کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو ایک حقیر اور ناقابل برداشت اقلیت قرار دیتے ہوئے بنیادی حقوق سے محروم رکھاجا رہا تھا اور نہ ہی گائے کا گوشت رکھنے کے الزام میں ہجوم کسی پر پل پڑتا تھا۔ اس وقت نہ تو کوئی لکیر تھی اور نہ ہی سرحد لیکن اس عظیم انسان نے‘ جسے شاعر مشرق اور مفکر پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے‘ جسے سر کے خطاب سے نوازا گیا‘ آج سے 90 سال پہلے‘ 1930 میں الہ آباد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا '' مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں ہے کہ اس میں ایک ہی قوم آباد ہو۔ ہندوستان مختلف اقوام کا وطن ہے جن کی نسل، زبان، مذہب سب ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ اسی لیے ان میں وہ احساس پیدا نہیں ہو سکا ہے جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں ہوتا ہے۔ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، ان میں کوئی بھی قدر مشترک نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ ایک ہزار سال میں اپنی الگ حیثیت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ ایک ہی ملک میں رہنے کے باوجود ہم میں یکجہتی کی فضا اس لیے قائم نہیں ہو سکی کہ یہاں دوسرے کی نیتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ کس طرح فریق مقابل پر غلبہ اور تسلط حاصل کیا جائے‘‘۔ اس درویش اور دور اندیش شخصیت کے 90 سال پرانے خطبے اور 105 برس قبل کہے گئے اشعار نے نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی‘ جس کے حتمی نتیجے میں اگست 1947ء میں قیامِ پاکستان کی شکل میں ایک الگ نظریاتی مملکت قائم ہوئی۔
ذرا سوچئے کہ اگر مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ قائداعظم محمد علی جناحؒ کو انگلینڈ سے ہندوستان واپس بلانے کیلئے خطوط نہ لکھتے‘ انہیں مسلمانوں کی زبوں حالی کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ان کی واپسی کی راہ ہموار نہ کرتے تو پاکستان کی صورت میں ہم سب کو حاصل ہونے والے اس خطے کا قیام ممکن ہو سکتا تھا؟ ہماری ان انتہا پسند ہندوئوں کے درمیان کیا صورت حال ہوتی؟ آئے روز دہلی، میرٹھ اور گجرات، حیدر آباد اور بجنور جیسے مقتل سجائے جانا تھے اور چن چن کر مسلمانوں کو تضحیک و تحقیر کا نشانہ بنایا جانا تھا۔
اقبال اور جناح کی جوڑی نے ہی قیام پاکستان کی راہ ہموار کی تھی۔ علامہ اقبالؒ کی ہی پُرزور درخواست پر 1936ء میں قائداعظم ہندوستان لوٹ آئے جہاں انہیں متفقہ طور پر مسلم لیگ کا صدر بنا دیا گیا تھا۔ خود قائداعظمؒ نے قراردادِ پاکستان پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال کے لکھے گئے خطوط کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خطوط کی سمری یہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مستقبل میں بہت سی پریشانیوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اس لئے ضروری ہو چکا ہے کہ ہند کے مسلمانوں کو متحد کیا جائے اور سچ یہ ہے کہ23 مارچ 1940ء کو منظور کی گئی قرارداد پاکستان اقبال کے ہی لکھے جانے والے خطوط کی تعبیر تھی۔بھارت میں علامہ اقبال کی ''ترانہ ہندی‘‘ اور ''نیا شوالا‘‘ جیسی نظموں کا بہت چرچا کیا جاتا ہے اور اس سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اقبالؔ مشترکہ ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں اور ہندوئوں کو سیکولرازم کی بنیاد پر برابر کا حصے دار سمجھتے تھے‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی دور میں قائداعظم محمد علی جناح کو بھی ''ہند و مسلم اتحاد کا سفیر‘‘ کا لقب دیا گیا تھا، خود قائداعظم نے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کی لیکن جب مسلمانوں کے خلاف تعصب اور تشدد پر مبنی تحریکیں چلائی گئیں تو ان پر واضح ہو گیا کہ بنیے کو جب بھی موقع ملا‘ وہ ہندوستان میں ہندو راج قائم کریں گے جس میں مسلمان ایک تیسرے درجے کے شہری اور غلاموں جیسی بدترین زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں گے، آج کے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ آئے دن ہونے والی بربریت دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ قائداعظم کے خدشات بالکل درست تھے۔ یہی وجہ ہے کہ خود بھارت میں موجود بہت سے افراد اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ''جناح کا نظریہ ٹھیک تھا‘‘۔1918 میں علامہ اقبال کی شائع ہونے والی کتاب ''رموزِ بے خودی‘‘ میں ہندوستان کے اندر حقیقی اسلامی معاشرے کی تشکیل کیلئے ایک آزاد اسلامی ریا ست کا تصور سامنے لانے کی بھر پور کوشش کی گئی تھی‘ اس حوالے سے ان کی شکوہ، جواب شکوہ، خضر راہ، اور طلوع اسلام جیسی ولولہ انگیز نظمیں قابل ذکر ہیں۔ 
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے
یہ دو قومی نظریہ نہیں تو اور کیا ہے۔ 1916ء کا لکھنؤ پیکٹ علامہ اقبال اور قائداعظم کے غیر معمولی تدبر کی واضح مثال ہے جس میں ہندوستان میں جد اگانہ انتخابات کو منظور کرایا گیا، اسی نے مسلم قومیت کے علیحدہ تشخص کی راہ استوار کی۔علامہ اقبال نے جب دیکھا کانگریس قیادت نے 1929ء میں قائداعظم کے پیش کئے گئے چودہ نکات کو مسترد کر دیا ہے تو انہوں نے آگے بڑھ کر 1930ء میں خطبہ الہ آباد میں اسلامی قومیت کا تصور پیش کرتے ہوئے کہا ''ایک سبق تاریخ اسلام سکھاتی ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی بلکہ ہر آڑے وقت میں اسلام نے ہی مسلمانوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھا‘ جب جب ہم اسلام کو اپنی نگاہ اور دل میں جمع کریں گے تو ہمارے ذہنوں سے تمام پراگندہ قوتیں بھسم ہو کر رہ جائیں گی‘ جب جب کسی مسلم تشخص رکھنے والی ریاست نے اسلام کی حقیقی روح سے اپنی نگاہ اور دل کو پھیرا‘ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ان عظیم سلطنتوں اور بادشاہوں کے نام و نشان اس طرح مٹا دیے گئے کہ کہیں کھوپڑیوں کے مینار بنے تو کہیں جگہ جگہ کھنڈرات اور حرم وجود میں آئے۔ مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخ ساز جلسے میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے تاریخی الفاظ ادا کرتے ہوئے کہا تھا ''آج ہم نے قرارداد پاکستان کی شکل میں وہ مطالبہ کیا جو کئی دہائیوں سے علامہ محمد اقبالؒ کرتے چلے آ رہے تھے‘‘۔ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے کلمات سے یہ پیرا پڑھیں تو دل ان کی عقیدت اور آنکھیں ان کی محبت میں سرشار ہو کر رہ جاتی ہیں ''مسلمانوں اور دنیا کی دوسری قوموں میں سب سے بڑا فرق دیکھنا ہو تو وہ یہ کہ ہماری قومیت کے اصول نہ تو اشتراکِ زبان ہیں، نہ اشتراکِ وطن، نہ اشتراکِ اغراضِ معیشت اور نہ ہی جغرافیائی اور سٹریٹیجک بلکہ ہم سب کا تعلق ایک ایسی برادری سے جڑتا ہے جس کی بنیاد خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ نے رکھی ہے۔قائد اعظم نے دو قومی نظریہ واضح کرتے ہوئے کہا تھا ''مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن‘ نہ نسل بلکہ ہندوستان میں علیحدہ مسلم مملکت کا وجود تبھی عمل میں آ گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا فرد مسلمان ہوا تھا، کیونکہ اس کے بعد وہ وہاں بسنے والی قوم کا فرد نہیں بلکہ ایک الگ قوم کا فرد بن کر سامنے آیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں