"MABC" (space) message & send to 7575

عوام نے ایک موقع اور دیا ہے

30 اکتوبر 2011ء کو لاہور‘ مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں عمران خان کے جلسہ عام میں عوام کے سیلاب کی شرکت پر مسلم لیگ نواز کی صوبائی کابینہ اور مرکزی رہنمائوں نے پہلے یہ کہتے ہوئے خوشی کے شادیانے بجانا شروع کر دیے کہ عمران خان تو وہاں پڑی خالی کرسیوں کو ہی نہیں بھر سکے۔ کسی نے کہا کہ وہاں تو کرسیاں ہی صرف دس ہزار تھیں لیکن جب کرسیوں والی بیان بازی اپنا اثر کھو گئی تو پھر یہ کہا جانے لگا کہ پی ٹی آئی کا جلسہ تو مقتدرہ نے کروایا ہے اور ان کے جلسے میں تمام لوگ ادارے لے کر آئے تھے ورنہ پی ٹی آئی کو سب جانتے ہیں۔ عمران خان نے اکتوبر کے اس جلسے کے بعد 2018ء تک‘ تین جلسے اسی جگہ‘ اسی ہجوم اور کم و بیش اتنی ہی تعداد کے ساتھ کئے اور ہر جلسے پر نواز لیگ کے شور و غوغا کا ایک ہی فقرے میں جواب دیتے ہوئے ہر جلسے میں ان کو چیلنج کرنا شروع دیا کہ شریف برادران کے پاس مرکز اور پنجاب کی حکومتیں ہیں‘ ان کے پاس تمام وسائل ہیں اگر وہ اپنے تمام وسائل اور اپنی بے پناہ مقبولیت کے دعووں کی سچائی ثابت کرنے کے لئے مینارِ پاکستان کی جلسہ گاہ کا آدھ حصہ ہی بھر کر دکھا دیں تو وہ ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے گھر بیٹھ جائیں گے لیکن نواز لیگ کو مرکز اور پنجاب میں برسر اقتدار ہوتے ہوئے بھی مینارِ پاکستان جلسہ کرنے کی ہمت نہیں ہو سکی۔
عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد بے لگام مہنگائی اور ہر ادارے میں پہلے سے بھی زائد رشوت اور لوٹ مار کے طوفان کے بعد سیاسی کارکنان اور دانشور برملا کہہ رہے تھے کہ پی ڈی ایم کا لاہور کا جلسہ‘ جو تاریخی اہمیت کا حامل اور اپوزیشن احتجاج میں اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا تھا، گیم چینجر ثابت ہو گا اور ممکن ہے کہ مینار پاکستان کا وسیع دامن پاکستان بھر سے آنے والے مولانا فضل الرحمن، پی پی پی اور نواز لیگ کے کارکنان کے سامنے کم پڑ جائے لیکن جلسے والے دن‘ دوپہر تین بجے‘ گوجرانوالہ سے آنے والے نواز لیگ کے کچھ دوستوں کی شرارتوں کا سامنا کرنے کیلئے ان کی پُرزور درخواست پر جب ہم اپنے دوستوں کے ہمراہ جلسہ گاہ پہنچے تو ہمارے وہ دوست جو مجھ پر فقرے کسنے کیلئے بے چین ہوئے جا رہے تھے‘ مجھ سے نظریں چرانا شروع ہو گئے۔ جلسے سے قبل مریم نواز صاحبہ نے لاہور کے ایک ایک علاقے کا دورہ کیا اور پورا ہفتہ لاہور کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے درجنوں ریلیاں نکالیں۔ ایک ماہ سے زائد عرصہ تک اور اپنی تمام تر کوششوں اور دوسری جانب مہنگائی کی صورت میں عوامی سطح پر پائی جانے والی نفرت اور غصے کے با وجود میاں نواز شریف اور ان کی جماعت‘ لاہور کو جن کا قلعہ سمجھا جاتا ہے‘ مولانا فضل الرحمن اور پیپلز پارٹی سمیت گیارہ پارٹیوں کے اتحادکی پورے پاکستان سے افرادی قوت سمیٹنے کے باوجود مینارِ پاکستان پر عمران خان کے جلسے کے مقابلے میں جلسہ گاہ کا آدھا حصہ بھرنے میں بھی ناکام رہے۔ اس جلسے کے بعد پارٹی اجلاس میں لیگی قیادت کا غصہ اپنی انتہائوں کو چھو رہا تھا۔ ویسے تو اس پر ان کا غصہ کرنا بجا لگتا ہے لیکن بعد میں کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق‘ اپنی نا کامی اور شرمندگی کو چھپانے کیلئے اپوزیشن رہنمائوں نے وہی پرانا راگ الاپنا شروع کر دیا کہ عمران خان کا جلسہ تو اداروں نے کامیاب کرایا تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی میں بھی اتنی طاقت ہے کہ وہ کسی جلسے پر پورے شہر کو باہر لاکھڑا کرے؟ جس جس نے بھی اکتوبر کا وہ جلسہ دیکھا تھا‘ وہ گواہ ہے کہ لاہور کی مال روڈ سے مینار پاکستان تک چار سُو لوگ تحریک انصاف کے جھنڈے اٹھائے گھوم رہے تھے جن میں اپنی فیملیوں اور بچوں کے ساتھ آئے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔ جو آنکھ بھی اس روز لاہور کو دیکھ رہی تھی‘ وہ حیران تھی کہ یہ کیا ہوا ہے؟ ہر طرف ایک ہلچل سی کیوں مچی ہوئی ہے؟ وہ فیملیز جنہیں برگر کلاس، ہائی جنٹری سمیت مختلف ناموں اور القابات سے پکارا جاتا ہے‘ جو کبھی شاپنگ، سینما جانے، بیاہ شادیوں اور پارٹیوں کے علاوہ کبھی گھروں سے نہیں نکلے تھے وہ مال روڈ سے پیدل مینار پاکستان کی جانب مارچ کر رہے تھے۔ دیکھنے والے اس وقت بھی اور اس کے بعد آج تک‘ حیران ہوتے ہیں کہ یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
پی ڈی ایم اپنی کئی کئی ماہ کی لگاتار اور بھرپور کوششوں کے باوجود مہنگائی‘ لاقانونیت اور تعمیراتی کاموں میں تحریک انصاف حکومت کی عدم توجہی کے باوجود ملک کے عوام کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب نہیں ہو سکی‘ اور یہی ان کی بہت بڑی شکست ہے۔ ملتان کے بعد لاہور اور پھر مردان میں ان کی ریلیوں کا عوام نے جو حشر کیا ہے‘ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پی ڈی ایم کی ریلی نہیں بلکہ ان کی سوچوں اور خواہشوں کا جنازہ ہے‘ جسے یہ لوگ اپنے کندھوں پر اٹھائے ماتم کرتے جا رہے ہیں۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان بالخصوص حکمران جماعت تحریک انصاف اسے اپنی کامیابی سمجھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے نہ بیٹھے رہیں کہ تاک میں بیٹھی ہوئی بلی پہلے کی طرح ناکام ہو جائے گی بلکہ اب انہیں اسے عوام کی جانب سے ایک اور مینڈیٹ سمجھتے ہوئے فرنٹ فٹ پر آ کر مہنگائی اور بیڈ گورننس کے خلاف کھیلنا ہو گا۔ انہیں لاہور اور پنجاب سمیت ملک بھر کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں‘ سڑکوں‘ چوکوں اور بازاروں کی حالت درست کرنا ہو گی۔ ہسپتالوں کو انسانوں کیلئے ایک آرام گاہ کی شکل دینا ہو گی۔ انہیں کسی بھی قسم کے میڈیکل ٹیسٹوں، آپریشنز اور ادویات کیلئے ہسپتالوں میں آنے والے قسمت کے ماروں اور دنیا جہاں کی بیماریوں سے تڑپتے ہوئے مریضوں کیلئے تمام دستیاب سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں؟ ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں جب حکومت نے حکم جاری کیا تھا کہ کہ کوئی بھی دکان یا مارکیٹ کورونا کی وجہ سے نہیں کھولی جائے گی اور اس کیلئے ہر تھانے کی پولیس کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ حکومتی آرڈر کی عملداری یقینی بنائے اور پولیس نے پھر وہ ڈنڈا اٹھایا کہ لوگ دکانوں کے قریب آنے سے بھی ڈرنے لگے تھے‘ کیا ایسے ہی احکامات دیگر معاملات میں جاری نہیں ہو سکتے؟ یہ علیحدہ بات ہے کہ کالی بھیڑیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں اور میری اپنی اطلاعات کے مطابق لاہور کے قریب بیس تھانوں کی پولیس نے اس لاک ڈائون کے دوران دکانیں اور مارکیٹ کھولنے کی اجازت دینے پر روزانہ کے حساب سے بازاروں سے دو لاکھ سے زائد '' نذرانہ‘‘ وصول کیا۔ اندازہ کیجئے یہ ایک دن کی رشوت تھی‘ جو ان دکانداروں سے وصول کی جاتی رہی۔ یہی حال پنجاب سمیت ملک بھر کے بیشتر اداروں کا ہے جہا ں آپ بغیر نذرانہ دیے بغیر داخل بھی نہیں ہو سکتے۔ اکثر اداروں نے تو وہ لوٹ مار اور اودھم مچا رکھا ہے کہ لگتا ہے کہ ان پر اس ملک کا کوئی بھی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ 
رشوت اور کرپشن کی صورت میں سرکاری اور ان سے منسلک نجی اداروں اور ٹھیکیداروں نے عوام کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا ہے۔ یاد رکھیں آج پاکستان کی تمام سیاست اور واقعات اسی ''کاغذ‘‘ کی ڈیل کے زیر اثر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ یقین نہ کریں لیکن میرے ملک میں جو کچھ بھی ہوتا چلا آ رہا ہے‘ وہ اِسی 'کاغذی ڈیل‘ کا پابند ہے۔ وہ جو ''آزاد‘‘ ہوئے ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا سہارا کون ہے۔ اس سے آگے کچھ نہیں لکھوں گا لیکن غور کرنے والوں کے لیے ہر سطر پر واضح اشارے ہیں۔ بدقسمتی سے میڈیا کے کچھ بھی ایسے ہی لوگوں کا دم بھرتے دیکھے جاتے ہیں۔ مرحوم وارث میر نے 9 اگست 1983ء کو امریکی اخبارSeattle Post-Intelligencer میں ایک اہم سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا تھا:
I have been raising a very sensitive question: Who rules the Third World Media?۔ بہشت مکانی وارث میر کو آج کل کا ٹیلی وژن دیکھنے کے بعد اپنے سوال کا جواب مل گیا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں