''میرے ساتھ چودھری برادران کے ذریعے کیا گیا وعدہ ایفا نہیں کیا گیا‘ ورنہ اسلام آباد میں دیا گیا دھرنا اس وقت تک ختم نہیں کرنا تھا جب تک وزیراعظم کا استعفیٰ میری جیب میں نہ ڈال دیا جاتا‘‘۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ شکوہ چھبیس مارچ کو دیے جانے والے ممکنہ دھرنے کی کال دیتے ہوئے اسلام آباد کے میڈیا کے سامنے اس وقت کیا جب ان سے پوچھا جا رہا تھا کہ ''آپ کے رابطے جاری ہیں یا ختم ہو چکے ہیں؟‘‘ اب یہ کس سے رابطوں کا ذکر ہو رہا تھا‘ یہ کسی کو بتانے یا پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ دنیا کا دستو رہے کہ اکثر کیا گیا کوئی عمل اپنے سامنے بھی آ جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مولانا گزشتہ دو برسوں سے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کیلئے صبح و شام جو جتن کر رہے ہیں‘ ان کی ناکامی کسی ایسے ہی ہاتھ کی وجہ سے ہو جسے انہوں نے ہمیشہ تھامے رکھا یا انہوں نے کسی کے خوابوں کی منزل کبھی اپنے وعدوں اور دلاسوں کی نذر کر دی ہو۔ مولانا صاحب کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو ان کا ہر اس طاقت سے تعلق استوار چلا آ رہا ہے جس نے ان کی نگہبانی کی ہے۔ شاید یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ان کا سیاست کے دشت و بیابانی سے بھی سامنا ہو گیا۔ اسی لئے شاید پرویز مشرف کے دور میں قومی اسمبلی کے فلور پر ان کی زبان سے یہ فقرہ پھسل گیا تھا کہ کبھی کبھی فیصلے اپنے ضمیر کے مطابق نہیں بلکہ جنرل ضمیر کے مطا بق کرنا پڑتے ہیں۔ (یہاں جنرل ضمیر سے مراد جنرل احتشام ضمیر ہیں‘ جن کے مشرف حکومت بنانے سے متعلق اعترافات ریکارڈ کا حصہ ہیں) کل تک اپوززیشن جماعتوں کے مشترکہ اکٹھ کی امیدوں پر اگر مولانا کی سوچ غالب آ تی رہی تھی تو آج اس کے برعکس آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی مفاہمانہ سوچ پی ڈی ایم کی پالیسیوں میں غالب ہے۔ مولانا اور زرداری صاحب کا ایک دوسرے کے ساتھ جو تعلق ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ مولانا صاحب جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری کبھی شریف فیملی پر اعتبار نہیں کریں گے کیونکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر وہ نواز شریف کو دس مرتبہ بھی معاف کر دیں تو بھی ان کا حساب برابر نہیں ہوتا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں جب میں جنرل صفدر کی چیئرمین شپ میں وزیراعظم ہائوس میں قائم ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ میں کام کر رہا تھا تو اس وقت سے اس بات کا شاہد ہوں کہ جس قدر سابق صدر نے ان کی معاشی صورت حال کی بہتری اور اس کے پھلنے پھولنے کا خیال رکھا‘ شاید ہی کسی دوسرے نے رکھا ہو۔ اس لئے مولانا صاحب آصف زرداری سے شکوہ تو کر سکتے ہیں کہ مشن کی کامیابی کیلئے دو گز چلنے کے بعد قدم کیوں روک لیتے ہیں لیکن ناراض ہو کر ان سے منہ موڑ کر نہیں بیٹھ سکتے۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں جماعت اسلامی کی شمولیت سے انکار کی بھی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ جماعت یہ سمجھتی ہے کہ سب اپنے اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں‘ جس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں‘ جیسے ہی ان کے کسی بھی ذریعے سے معاملات طے پا گئے‘ وہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھیں گے، اسی لئے جماعت اسلامی نے اپنے راستے ان سے الگ کئے ہوئے ہیں۔ اور یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب نواز شریف اور ان کے خاندان کو قدرے ریلیف میسر آیا تو ساتھ ہی نواز شریف اور ان کی صاحبزادی خاموش ہو کر بیٹھ گئے، اس وقت طنزاً میڈیا میں بھی سوال اٹھایا جا رہا تھا کہ اب مریم نواز کا ٹویٹر اکائونٹ خاموش کیوں ہے مگر جواب ندارد جبکہ اندرونی کہانی میڈیا سے بھی ڈھکی چھپی نہیں تھی لیکن جب تھوڑی سختی ہوئی تو نواز شریف پہلے بیماری کا بہانہ کر کے جیل سے ہسپتال منتقل ہوئے اور پھر مشروط طور پر بیرونِ ملک روانہ ہو گئے جہاں جا کر نہ کوئی علاج کروایا‘ نہ کسی ہسپتال میں منتقل ہوئے اور نہ ہی اب واپس آنے کا نام لے رہے ہیں۔
مشرف دور میں جب سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری بھی معمول کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہے تھے‘ حکومت اور سپریم کورٹ کے مابین کوئی کشاکش نہیں تھی‘ ہلکی پھلکی سیاسی موسیقی کے کوئی بڑا راگ بھی نہیں گایا جا رہا تھا اور سیا سی لیڈران کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی بڑا ایشو نہیں مل رہا تھا تو اچانک ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نظر بندی کا معاملہ سامنے آ گیا ۔ کچھ اہم شخصیات کی جانب سے ایک مذہبی سیاسی جماعت سے و زارتِ عظمیٰ کے کیے گئے وعدوں کے وفا نہ ہونے پر عرصے سے دبا ہوا غصہ ایک دم سوا نیزے پر آ گیا۔ انتقامی جذبہ اس جماعت کی قیادت کے حواس پر چھا گیا اور نظریہ ضرورت کے تحت کبھی دوست کبھی دشمن بننے والوں کو کہا گیا کہ پرویز مشرف سے بدلہ لینے کا اس سے اچھا اور بڑا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ کونوں کھدروں میں بیٹھے سیاسی مسکینوں سمیت سب کی باچھیں کھل گئیں اور سیاست کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی کہ مشرف حکومت اب گئی کہ کب گئی۔
تمام اپوزیشن جماعتوں کا اسلام آباد میں ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے نام کے ساتھ مختلف کہانیاں اور کارنامے اس طرح تراشے گئے جیسے ناولوں اور فلموں میں ہیرو کا کردار تخلیق کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہماری تمام ایٹمی ریسرچ اور نیوکلیئر ہتھیاروں کا خالق صرف انہی کو سمجھا جاتا رہا۔ ڈاکٹر قدیر خان کی جبری نظر بندی کے معاملے پر مشرف حکومت کے خلاف عوام کو سڑکوں پر لانے کیلئے مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ایک گھر میں زور و شور سے مشورے شروع ہو گئے، اس قدر جوش سے دلائل دیے جا رہے تھے کہ کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے؛ تاہم ان سب آوازوں کا مطلب صرف ایک تھا کہ ڈاکٹر اے کیو خان کی نظر بندی پر جب ہم تحریک شروع کریں گے تو ایک سرے سے دوسرے سرے تک سخت غصے میں بپھرے ہوئے عوام قیادت کے ایک اشارے پر اپنی جانیں نچھاور کر دیں گے۔ فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں ڈاکٹر اے کیو خان کے گھر تک ایک ریلی نکالی جائے گی اور نظر بندی توڑتے ہوئے ڈاکٹر صاحب اپنے گھر سے باہر آکر اس ریلی میں شامل ہو جائیں گے اور پھر ان کی قیادت میں حکومت کے خلاف ملک بھر میں ایک شہر سے دوسرے شہر تک لانگ مارچ کر کے پرویز مشرف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔
اجلاس میں شریک افراد کی خوشیاں ان سب کے چہروں پر نمایاں طور پر دکھائی دے رہی تھیں۔ ملک کے اندر اور باہر ایک دوسرے کو مبارکبادیں دی جا رہی تھیں۔ اگلے دن شام کو ایک پریس کانفرنس کا انتظام کیا گیا جس میں ریلی کے روٹ اور وقت کا اعلان کرنا تھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کو فون پر جدہ میں بیٹھا ایک شخص کچھ ہدایات دے رہا تھا۔ اس پریس کانفرنس بارے جب میڈیا کو اطلاعات دی جا رہی تھیں تو مولانا فضل الرحمن نے کھڑے ہو کر کہا ''برات میں جانے سے پہلے دُلہا سے پوچھ لو کہ وہ گھوڑے پر بیٹھنے کو تیار ہے‘‘ ان کا اشارہ ڈاکٹر قدیر خان کی طرف تھا، جواب ملا کہ یقین دہانی کرا دی گئی ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ کا ساتھ دیں گے لیکن مو لانا نے پھر کہا کہ جب تک ڈاکٹر قدیر خود بات نہیں کریں گے‘ ہمیں تحریک کی کال نہیں دیں گے‘ ریلی نہیں نکلے گی۔ اس پر اپوزیشن اتحاد نے شدید برا منایا کہ سارے پلان کو کیوں برباد کیا جا رہا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ لندن میں جب اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا تو میاں نواز شریف نے سب سے ہاتھ کھڑے کراتے ہوئے وعدہ لیا تھا کہ آج کے بعد کوئی بھی ان پر نہ توا عتماد کرے گا اور نہ ہی انہیں اپنے ساتھ لے کر چلے گا۔ پریس کانفرنس کیلئے میڈیا کا ہجوم اکٹھا ہو گیا اور سیا سی جماعتوں کے لیڈران کرسیوں پر بیٹھے جوش جذبات سے سرخ ہو رہے تھے تو قاضی صاحب کا انتظار تھا۔ جونہی وہ اجلاس میں پہنچے اور سب کی نظریں ان کی طرف اٹھیں لیکن چاروں طرف عجیب طرح کی خاموشی تھی کیونکہ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے کندھے پر بندوق رکھ کر جنرل مشرف پر فائر کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ مولانا اور میاں نواز شریف کا 26 مارچ کا لانگ مارچ یا دھرنا کس کے خواب بکھیرتا ہے‘ جلد ہی پتا چل جائے گا۔