سوشل میڈیا پر ہی نہیں‘ دنیا بھر کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی جانے والی وہ تصویر نجانے میں کب سے مسلسل دیکھے جا رہا ہوں جو میری اور پوری امت مسلمہ کی غیرت کو للکار رہی ہے، جو ہماری کمزوری‘ بزدلی اور مصلحت کو تماشا بنا کر دنیا بھر کے سامنے ہمارا ٹھٹھا اڑا رہی ہے۔ وہ تصویر ان نوجوان یہودی لڑکے لڑکیوں کی ہے جنہوں نےKhaybar was your Last Chance کا پوسٹر اٹھا کر امت مسلمہ کو چیلنج دیا ہے۔ یہودی خیبر کی شکست کو آج تک نہیں بھلا سکے۔ انہیں خیبر کی فتح چین نہیں لینے دیتی اور وہ اس شکست کا دکھ اور غم اپنے سینے سے لگائے روتے رہتے ہیں لیکن کمال دیکھئے کہ ایک طرف وہ اپنی نئی نسل کے ذریعے ہمیں چیلنج کرتے ہیں کہ خیبر کی فتح کے بعد اب تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو دوسری طرف انہوں نے ہمارے اندر اس قدر تفرقہ بازی پیدا کر دی ہے کہ ہمارے ہی کچھ لوگ فتحِ خیبر کو متنازع بنانے میں دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرتے نہیں تھکتے۔
غزوہ خیبر کی فتح کی سچائی روزِ روشن کی طرح سب پر عیاں ہے کہ جب اس جنگ میں دشمن سے لڑتے ہوئے حضرت علیؓ کی ڈھال ٹوٹ گئی تو انہوں نے خیبر کا دروازہ‘ جو اپنے ہاتھوں سے اکھاڑ کر انہوں نے دور پھینک دیا تھا اور یہ دروازہ اس قدر بھاری تھا کہ بعد میں چالیس افراد مل کر بھی بمشکل اسے اٹھا سکے تھے‘ پکڑ کر اپنی ڈھال بنا لیا۔ یہ سب یقینا فقط اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا کردہ خاص طاقت تھی جیسے غزوہ بدر میں فرشتے کفار کے مقابلے میں جوق در جوق اترے تھے جس کا قرآن حکیم میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ غور کیجئے کہ یہودی اپنے بچوں کے ہاتھوں میں خیبر کے حوالے سے لکھے پوسٹر دے کر اس شکست کا ماتم آج تک زندہ کئے ہوئے ہیں جبکہ مسلمان اس فتح کو مشکوک بنانے میں دن رات ایک کئے جا رہے ہیں، بس یہی فرق ہے ہم میں اور ان میں۔ وہ آج بھی اپنی اس شکست کو نہیں بھولے اور بدلہ لینے کی کوششوں میں مشغول ہیں لیکن ساتھ ہی ہمیں وہ فاتح خیبر کے نام پر ہی متفق نہیں ہونے دے رہے۔
کشمیر اور فلسطین میں غلامی کے طوق پہنے دودھ پیتے بچوں سے لے کر دودھ کے دانت والے بچوں تک‘ عالم اسلام کے مشترکہ دشمنوں اسرائیل اور بھارت کی چنگیزیت، وحشت، بربریت اور سفاکی کے آئے روز دیکھے جانے والے منا ظر یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے؟ اپنا ملک کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے اور اپنے ملک کی مضبوط فوج کس قدر ضروری ہوتی ہے؟ اپنے ملک کی فوج کے پاس جدید اسلحہ‘ جس میں توپیں، ٹینک، فائٹر جہاز اور وار شپ بحری بیڑوں کے علاوہ آبدوزیں بھی شامل ہوں‘ کی کتنی اہمیت ہے۔ مقبوضہ کشمیر بھارتی فوجیوں اور فلسطین میں اسرائیلی فورسز کی جانب سے چار‘ پانچ برس کے بچوں کو اپنے بھاری بھرکم فوجی بوٹوں اور گھٹنوں کے نیچے دبا کر بچوں کی سانسوں کی ڈور کو ان کے جسم سے الگ کرنے کے مناظر سبھی نے دیکھ رکھے ہوں گے، ان بچوں کی ناک سے بہتا ہوا خون بھی سب کو دکھائی دیتا ہو گا، اس وقت سب کو احساس ہوتا ہو گا کہ آزادی کیسی بیش قیمت نعمت ہے۔ اس وقت یہ خیال بھی آتا ہو گا کہ آزادی کیلئے مضبوط فوج کس قدر ضروری ہے۔ یہ خیال اس وقت مزید گہرا ہو جاتا ہے جب نظر مشرقِ وسطیٰ کے کھنڈر بنے ممالک کی طرف پڑتی ہے۔ ایسے میں سوچتا ہوں کہ وہ کون لوگ ہیں جو پاکستان کے دفاعی اداروں کے خلاف ہمارے دلوں میں نفرت کے بیج بونے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ اس وقت لازمی آپ سب کے سامنے ان مانے تانے لوگوں کے چہرے آتے ہوں گے جو عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کیلئے الف لیلوی کہانیاں سنانے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مشغول رہتے ہیں۔
جب آپ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر کے پانچ سے پندرہ برس کے بچوں کو‘ جن کی آنکھیں بھارتی فوجیوں نے پیلٹ گنوں کی بوچھاڑ سے چھین لی ہیں‘ کو چھڑی کے سہارے چلتے دیکھتے ہوں گے تو وطن کی آزادی اور اس کی قدر و قیمت کا احساس ستاتا ہو گا۔ زندگی بھر کیلئے چھینی گئی بینائی کے بعد نوجوانوں اور بچوں کو کسی کے سہارے کے ساتھ‘ سیاہ عینک لگائے کہیں آتے جاتے دیکھتے ہوں گے تو اس وقت ایک آزاد ملک کے شہری ہونے کا احساس تو لازماً اجاگر ہوتا ہو گا۔ جب لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کے اسلحہ خانے سے امریکا و اسرائیل کی دی گئی توپوں سے آزاد کشمیر کے گھروں، سکولوں اور بازاروں میں کی جانے والی گولہ باری کی بارش کا جواب دینے کیلئے پاکستانی فوجی اپنی توپوں کے لیور کھینچتے ہوں گے‘ جب دشمن کے مورچوں سے شہری آبادیوں پر برسائی جانے والی مشین گنوں کی بوچھاڑ کو پاکستانی فوجی خاموش کراتے ہوں گے تو اس وقت ایک مضبوط اور جدید اسلحے سے لیس فوج کا خیال تو آتا ہو گا۔ جب دریائے نیلم کے اس پار سے مقبوضہ وادیٔ کشمیر کے چپے چپے سے کشمیری بیٹیوں کے بھارتی فوجیوں کے سیاہ اور مکروہ ہاتھوں سے بدن نوچے جانے کی خبریں موصول ہوتی ہوں گی ان سن کر بھی آزادی کا احساس ہوتا ہو گا۔
یہ سارے مناظر دیکھنے کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستان کے اداروں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرنے والوں پر بھی غصہ آتا ہو گا۔ اس وقت حماس کے لیڈر کی وہ فریاد اور پکار یاد آتی ہو گی کہ جب اس نے اسلامی دنیا سے ہاتھ پھیلا کر کہا تھا کہ تم سب ہمیں اپنے پاس موجود اسلحے کا صرف دس فیصد دے دو‘ پھر دیکھو قبلہ اول تم سب کیلئے کس طرح اپنے دروازے کھولتا ہے۔ اس وقت احساس تو ہوتا ہو گا کہ مقام شکر ہے کہ ہمارے ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ اس وقت آپ کو اُس دفاعی بجٹ کی اہمیت کا بھی احساس ہوتا ہو گا جس کے حوالے سے آسمان جتنا بڑا پروپیگنڈا چوبیس گھنٹے اور سال کے تین سو پینسٹھ دن جاری رہتا ہے‘ جس کو ہدفِ تنقید بنانے کے لیے پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے میڈیا سیل دن رات کام کر رہے ہیں۔
کشمیری ہوں یا فلسطینی‘ یا دنیا کی اور محکوم اقوام، ان کے گھروں میں اناج کی کوئی کمی نہیں، ان کے پاس دودھ اور سبزیوں سمیت گوشت بھی ضرورت کے مطابق موجود ہے۔ ان کے پاس لباس بھی ہے‘ رہنے کو گھر بھی ہیں‘ ان کے پاس اچھی سواریاں بھی ہیں لیکن جب قابض و غاصب فوجی انہیں اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتے ہیں‘ جب وہ انہیں اپنی گردنیں نیچی کرنے کا حکم دیتے ہیں‘ جب وہ ان کے سامنے ان کی خواتین کو اٹھا کر زمین پر پٹختے ہیں‘ جب وہ ان کی مائوں کی گردنیں دبوچتے ہیں‘ جب وہ ان کے بچوں کی گردنوں کو اپنے بوٹوں سے مسلتے ہیں تو اپنے پیاروں کو دبوچنے والوں کو بزورِ طاقت روکنے کیلئے ان کے پاس اسلحہ نہیں ہوتا‘ ان ظالم فوجیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے‘ ان کے بازئوں کی گرفت سے اپنے پیاروں کو نکالنے کے لیے‘ ان کی مدد کرنے کرنے کیلئے ان کی اپنی فوج نہیں ہوتی‘ اپنے دشمن کے مقابلے میں ان کے پاس ہیلی کاپٹر اور جنگی جہاز نہیں ہوتے‘ اس وقت انہیں احساس ہوتا ہے کہ کاش ہمیں ایک وقت کی روٹی کے بدلے‘ گوشت اور گھی کے بدلے‘ آرام دہ کپڑوں کے بدلے کہیں سے ٹینک اور توپیں مل جائیں‘ کچھ فائٹر جہاز مل جائیں تاکہ ہم پیلٹ گنوں سے اپنے بچوں کو اندھا کرنے والوں سے انتقام لے سکیں، ہم اپنے دشمن کے ایک میزائل کے مقابلے میں اس پر دس میزائل داغ کر بدلہ لے سکیں۔ یہ نہتے لوگ بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے لازمی یہ کہتے ہوں گے کہ کاش ان کے پاس بھی مشین گنیں ہوتیں‘ ان کے پاس بھی راکٹ اور میزائلوں کے ڈھیر ہوتے‘ ان کے پاس بھی بوفورس توپیں ہوتیں‘ کاش ہمارا وطن بھی آزادی ہوتا‘ کاش ہماری بھی کوئی فوج ہوتی۔
چند روز قبل جب قبلہ اوّل کو لگائی گئی آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے تو اس وقت اس کے عقب میں موجود اسرائیلیوں کا ہجوم جس طرح اچھل اچھل کر خوشی سے ناچ رہا تھا‘ وہ منظر دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا۔ مسلمانوں کو یاد ہونا چاہئے کہ القدس یا یروشلم فقط زمین کے ایک ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ یہ ہمارے ایمان اور اعتقاد کا مرکز ہے۔ یہ قبلہ اول ہے‘ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام۔ یہ قبۃ الصخرہ ہے جو شبِ معراج نبی کریمﷺ کا پڑائو اور آسمانوں کی سیر کا نقطۂ آغاز تھا، یہ مقدس زمین انبیائے سابقین کا مرکز و مرقد ہے۔