"MABC" (space) message & send to 7575

رحمت للعا لمینﷺ

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح و قلم تیرے ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: بے شک اللہ نے اہلِ ایمان پر بڑا احسان کیا اور ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان کو آیاتِ الٰہی پڑھ کر سناتا ہے‘ انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ (آل عمران: 164)
تصور کیجئے کہ وہ کامل و اکمل اور بزرگ و برتر ہستی کتنی عالی مقام ہو گی اور اندازہ کیجئے کی اس کی سیرت و اخلاق کتنے ارفع اور حسین جمیل ہوں گے جن پر آسمانوں سے تحسین و آفرین نازل کی جاتی ہے، خود خالقِ کون و مکاں جن کی تعریف بیان کرتا ہے۔ ہم سب اگر آج سے‘ اسی لمحے سے محبوبِ خداﷺ کی پیروی شروع کر دیں‘ ان سے حقیقی لو لگا لیں تو یقین کیجئے ہمارے سارے دکھ‘ درد، ہماری ساری تکلیفیں، رنجشیں دور ہو جائیں گی۔ ہمیں نہ تو مہنگائی کے عفریت کا ڈر لگے گا، نہ بازاروں میں آتے جاتے کسی قسم کا ڈر اور خوف ہمیں ستائے گا۔ ہم محبوبِ خداﷺ کی ولادت کی خوشیاں تو مناتے ہیں لیکن اپنی زندگیوں کو اسوۂ رسولﷺ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتے اور یہی ہماری تکالیف اور سماجی مسائل کی وجہ بن رہی ہے۔
ہمیں آج جن مسائل کا سامنا ہے‘ دنیا کے سامنے مسلمان جس طرح سر نگوں ہو تے جا رہے ہیں‘ ان کا حل فقط محمد مصطفیﷺ کی اتباع اور قرآنِ پاک کے ایک ایک حرف پر عمل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ آج کی جدید اور تیز ترین دنیا اور عالمی معاشرے کے خیالات اور ماحول سے ہم آہنگ نہ ہونا ہمیں بہت سی مشکل میں ڈال دے گا کیونکہ تمام دولت اور ہر قسم کے وسائل تو امریکا اور مغرب کے پاس ہیں‘ جدید اور نئے اسلحے کے بغیر دشمن کا کیسے مقابلہ کر پائیں گے‘ وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب بھارت اور اسرائیل جیسے دشمن ہمیشہ ہمارے سر پر کھڑے رہتے ہیں‘ یہ سوچیں اور خدشات اپنی جگہ پر درست لیکن اگر ہم اپنے اندر یہ ایمان نہیں رکھتے کہ زندگی اور موت، کشادگی اور تنگی، ذلت اور عزت سب کچھ اُسی ذاتِ واحد رب کریم کے قبضۂ قدرت میں ہے تو پھر ہمارا ایمان ہی مکمل نہیں ہے۔ اگر ہم صدقِ دل سے اللہ سے مدد مانگ کر اس کی راہ میں نکل کھڑے ہوں گے تو پھر ہر تکلیف اور آفت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اب تو افغانستان کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ کس طرح سوکھی روٹی کھانے والے اور ننگے پائوں پتھروں پر چلنے والوں نے وقت کی سپر پاور کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے اپنی حیثیت تسلیم کرنے پر نہ صرف مجبور کیا بلکہ وہ ان سے معاہدہ کرکے افغانستان سے نکلنے پر مجبور بھی ہو گئی۔
کیا ہم سب بھول چکے ہیں کہ رسول اللہﷺ اور ان کے اصحاب کا جب مقاطعہ کیا گیا تھا تو رسول اللہﷺ سمیت ان کے اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ بیابان صحرا اور کڑ کتی دھوپ میں نہایت ہی سخت ترین حالات میں تقریباً تین برس شعب ابی طالب میں محصور رہے جہاں انہیں درختوں کے پتے تک کھانا پڑے۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ کے پاس جو کاروبار اور مال ومتاع تھا‘ وہ نزولِ وحی کے بعد سے مکہ کے غلاموں، مسکینوں،معذوروں اور غربا کی دیکھ بھال اور اللہ کی راہ میں خرچ ہو رہا تھا، اس میں سے جو کچھ بھی بچا تھا‘ اس میں بجائے کسی اضافے کے‘ کمی واقع ہونا شروع ہو چکی تھی۔ ام المومنینؓ اُس زمانے میں شط العرب کی امیر ترین خواتین میں شمار ہوتی تھیں اور ساری زندگی انہوں نے عیش و آرام میں گزاری تھی لیکن بائیکاٹ کے ان برسوں میں قریشِ مکہ کی جانب سے جس جبر اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کے باوجود سیدہ خدیجہؓ کی زبان سے اُف تک نہیں نکلا لیکن کفارِ مکہ کے اس جبر اور مقاطعہ کے باعث آپؓ بیمار رہنے لگیںاور اس کے بعد کبھی صحت یاب نہ ہو سکیں اور بالآخر اللہ کی جنتوں کو لوٹ گئیں۔ شط العب کی امیر ترین خاتون، رحمۃ للعالمین کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہؓ نے مالی اورجسمانی قربانی دے کر اسلام کی بنیاد رکھنے میں عظیم کردار ادا کیا۔ ایک ہی شخصیت کی جانب سے اسلام کے ابتدائی دنوں میں اپنی دولت اور جان کی قربانیوں کی شاید ہی کوئی اور مثال موجود ہو۔
شعب ابی طالب کے کٹھن ترین برسوں کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے، ایسے میں مومن کا کردار کیا ہونا چاہیے، اس حوالے سے سیرتِ رسولﷺ میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی موجود ہے۔اگر آج ہم مخالف قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیں‘ ان کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے سر اٹھا کر بات کریں اور اس کے نتیجے میں اگر ان کے ظلم و جبر کا شکار ہو جائیں تو پھر محض غریب ہی نہیں‘ صرف سفید پوش ہی نہیں‘ اوپر سے نیچے تک ‘مزدور سے چیف انجینئر تک‘ حکومت سے عوام تک‘ سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر دل و جان سے حالات کا مقابلہ کریں تو یقین جانیں کہ کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کم ہمت واقع ہوا ہے، وہ دائمی آرام کو عارضی مشکلات پر قربان کر دیتا ہے۔ وقتی پریشانیوں سے گھبرا کر وہ کوئی بڑا اقدام کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔
رب کریم قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: '' (اے محمدﷺ) ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ میں جب بھی مذکورہ آیت پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ جب سارے جہانوں کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد وہ تمام کائنات ہے‘ جو نجانے کتنے جہانوں پہ محیط ہے، ہمارے پیارے نبی تاجدارِ ختم نبوت حضرت محمد مصطفیﷺ اُن تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ دنیا کی کوئی ایسا الہامی مذہب نہیں‘ کوئی آسمانی کتاب اور صحیفہ نہیں جس میں محمد مصطفیﷺ کی آمد کا اور ان کی نبوت و رسالت کا کسی نہ کسی پیرائے میں ذکر موجود نہیں اور اس بات کی گواہی خود اللہ تعالیٰ کی ذات نے ان آیات میں دی ہے کہ ''اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت (نبوت) عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہو گا، اور ضرور اس کی مدد کرنا ہو گی اور (یہ عہد لینے کے بعد اللہ نے پوچھا) بھلا تم نے اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا تو انہوں نے کہا: (ہاں) ہم نے اقرار کیا۔ (سورہ آل عمران: 81)
تاجدارِ ختم نبوت محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ کو جیسے ہی اللہ کے بھیجے گئے عالی مرتبت فرشتے جبرائیل علیہ اسلام کے ذریعے نبوت کا فریضہ سونپا گیا تو ابتدا کے کٹھن ترین مرحلے میں مکہ کے اکھڑ اور بدمزاج سرداروں کے مقابلے میں دعوتِ نبوت پر ایمان لانے اور اس پر لبیک کہنے والے مٹھی بھر لوگ تھے۔ تب کون کہہ سکتا تھا کہ غارِ حرا سے بلند ہونے والی یہ آواز چند ہی برسوں میں دنیا کے ایک سرے سے دو سرے سرے تک گونجنے لگے گی۔ محمد مصطفیﷺ کی سچائی اور ایمانداری کا یقین تو مکہ والوں کو بھی تھا لیکن وہ اپنی اَنا اور قبائلی عصبیت کی قربانی دینے اور اپنے آبا ئو اجداد کے نصب کیے گئے بتوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اگرہم اس وقت کے مکہ کے حالات اور پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شروع شروع میں جو لوگ مسلمان ہوئے تھے‘ ان میں سوائے چند کے باقی تمام غیر تعلیم یافتہ‘ غلام اور مساکین تھے جن پر سب سے پہلے خود رسول اللہﷺ اور سیدہ خدیجہؓ نے اپنی دولت خرچ کی اور جس قدر ممکن ہو سکا‘ کلمہ توحید پڑھنے اور ایک خداکی وحدانیت کے سامنے سر جھکانے والے ان مسلمانوں کو کسمپرسی کی حالت میں نہ رہنے دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں