27اکتوبر1947ء تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جب بھارت نے سری نگر میں اپنی فوجیں اتار کر کشمیر پر قبضہ کیا۔ انگریز نے1947ء میں تقسیم ہند کیلئے پاکستان اور بھارت پر مشتمل دو علیحدہ اور آزاد حکومتوں کے قیام کے وقت یہ قانون وضع کیا تھا کہ جہاں مسلم اکثریت ہو گی وہ علاقے پاکستان اور جہاں ہندو اکثریت ہو گی وہ علاقے ہندوستان کا حصہ ہو ں گے۔ انگریز نے جب بر صغیر کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا تو اُس وقت560 ریاستیں اندرونی طور پر خود مختار تو تھیں لیکن ان کا دفاع اور خارجہ امور انگریز کے سپرد تھے۔1946ء میں برطانوی کیبنٹ مشن نے ایک مراسلہ جاری کیا جس کے پیراگراف نمبر14 میں واضح طور پر لکھاتھا کہ ان ریاستوں کی حاکمیت اعلیٰ نہ تو حکومت برطانیہ کے تحت ہو گی اور نہ ہی انگریزی راج کی جگہ نئی بننے والی کسی حکومت کو منتقل ہو گی‘ لیکن چند دنوں بعد ہندوستان کی آزادی سے متعلق1947ء کے ایکٹ کے آرٹیکل7 کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب ان ریاستوں کے کسی بھی معاملے میں برطانیہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا اور یہ ریا ستیں اپنے معاملات میں آزاد ہوں گی اور ہندوستان یا پاکستان کی نئی حکومتیں ان کے معاملات میں مداخلت کی مجاز نہیں ہوں گی اور نہ ہی کوئی ان ریاستوں کو اپنے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کر سکے گا۔ لیکن اس فیصلے کے بعد سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ہندوستان نے برطانوی ہائوس آف لارڈز میں کھڑے ہو کر واشگاف طور پر اعلان کیا کہ برطانوی حکومت کسی بھی صورت میں کسی ریاست کے علیحدہ تشخص کی اجازت نہیں دے گی اس پر وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے تاج برطانیہ کی ہدایت پر فیصلہ کیا کسی بھی ریا ست کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کیلئے دو چیزوں کو مد نظر رکھنا ہو گا اول ‘اس کا جغرافیائی محل وقوع اور دوم‘ اس کی آبادی کی مرضی معلوم کی جائے گی جس کی روشنی میں15 اگست1947 ء کو سوائے کشمیر‘ حیدر آباد اور جونا گڑھ کے باقی سب ریاستیں انگریز ی حکومت کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں اپنے اپنے طور پر ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل ہو ئیں۔
ریاست جونا گڑھ کا حکمران مسلمان تھا۔ ریاست کا رقبہ4000 مربع میل اور آبادی80 ہزارافراد پر مشتمل تھی اور وہ ریاست پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتی تھی لیکن ہندوچونکہ یہاں اکثریت میں تھے اور لارڈ مائونٹ بیٹن جو ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل مقرر ہو چکا تھا اس نے قائد اعظم کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا جونا گڑھ کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا یہ قدم تقسیم ہند کے اس فارمولے کی صریحاًخلاف ورزی ہے جس کے تحت متفقہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر ریا ست کا کسی ملک کے ساتھ شامل ہونے کا دارو مدار اِس پر ہو گا کہ اس کا جغرافیائی محل وقوع کس سے منسلک ہے اور اس ریا ست کی آبادی کی واضح اکثریت ہندو ہے یا مسلمان۔ اور یہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ جونا گڑھ کے لوگ کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں اس ریا ست میں رائے شماری کرا لی جائے ۔مائونٹ بیٹن کے حکم پر بغیر کسی نوٹس کے17 ستمبر47 ء کو ہندوستانی فوجیوں نے ریا ست جونا گڑھ کی سکیورٹی کو درپیش خطرات اور کاٹھیا واڑ میں کسی گڑ بڑ کی آڑ میں جونا گڑھ پر بھارت کا قبضہ کرا دیا۔
ریاست حیدرآباد کے حکمران نظام بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے لیکن یہاں بھی وہی مسئلہ تھا کہ ریا ست حیدر آباد کی 85 فیصد آبادی ہندوئوں پر مشتمل تھی اور وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے نظام حیدر آباد کو خبردار کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ شامل ہونے کی تاکید کی لیکن نظام حیدر آباد نے اُس کی بات ماننے سے انکار کر دیا جس پر سردار پٹیل اور سیکرٹری آف سٹیٹ وی پی مینن نے انہیں دھمکی دی کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی صورت میں بھارت حیدر آباد کے خلاف طاقت کاا ستعمال کرے گا۔ اس دھمکی پر نظام حیدر آباد نے24 اگست47ء کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے رابطہ کیا لیکن قبل اس کے کہ سکیورٹی کونسل نظام کی اس درخواست پر کوئی کارروائی کرتی بھارتی فوجیوں نے حیدر آباد پر جبری قبضہ کرکے اسے بھارت میں شامل کر لیا۔
جودھپور کا راجہ بھی اپنی ریاست کو پاکستان کے ساتھ شامل کرنے کا خواہش مند تھا لیکن لارڈ مائونٹ بیٹن کی دھمکی پر جودھ پور کے راجہ نے بھی ہتھیار ڈالتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ شامل ہونے کی حامی بھر لی ۔یوں تین ریاستیں ‘جونا گڑھ‘ حیدر آباد اور جو دھ پور کے حکمران جو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے تھے صرف اس لیے نا کام رہے کہ جغرافیائی طور پر وہ پاکستان سے منسلک نہیں تھے اور دوسرا وہاں کی غالب آبادی ہندوئوں پر مشتمل تھی جوتقسیم ہند کے طے شدہ فارمولے کے تحت قانونی طور پر بھارت کے ساتھ ہی شامل ہو سکتے تھے ۔ انگریز جو خود کو قانون اور آئین کا سب سے بڑا محافظ سمجھتے ہیں ‘ان کے یہ اصول اور قانون کشمیر میں آکر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ کشمیر کیلئے ڈاک اور ٹیلی گراف کا سارا رابطہ پاکستان سے منسلک ہے ۔پٹرول‘ چینی‘ نمک ‘ پھل اور اشیائے ضروریات کی تمام اشیا کی فراہمی بھی وادی جہلم سے ہوتی ہے‘ اسے بھارت کے قبضہ میں جانے دیا گیا۔
کشمیر بھی انگریزی راج سے آزاد ہونے والی ان560 ریاستوں میں سے ایک ریا ست تھی جس نے تاج برطانیہ کے طے شدہ اصول کے مطابق آبادی کی مرضی اور جغرافیائی محل وقوع کے تحت فیصلہ کرنا تھا کہ اس نے کس کے ساتھ شامل ہوناہے لیکن تمام طے شدہ اصول ایک طرف رکھتے ہوئے سب سے پہلے مئی47ء میں انڈین کانگریس کے صدر اچاریہ کرپلانی کو مہاراجہ کشمیر گلاب سنگھ سے مذاکرات کے خفیہ مشن پر بھیجا گیا جس نے راجہ کو مجبور کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا اعلان کریں لیکن راجہ گلاب سنگھ نے صاف انکار کر دیا۔ جب کرپلانی مشن نا کام ہو گیا تو ریاست فرید پور‘ کپور تھلہ‘ پٹیالہ اور پنجاب کے پہاڑی علا قوں کے راجائوں کومشترکہ طور پر گلاب سنگھ کے پاس بھیجا گیا جنہوں نے اسے بھارت کے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی لیکن گلاب سنگھ نے انہیں بھی انکار کر دیااور پھر وہی انگریز جو اپنے قانون کی پاسداری کے ڈھول بجاتے نہیں تھکتے ان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تمام ریاستوں کیلئے یہ واضح طریقہ منظور کرتے ہوئے کہا:"Normally geographical situation and communal interests and so forth will be the factors to be considered ۔انگریز کے وضع کردہ اس قانون کو انہی کی زبان میں اس لئے پیش کیا ہے کہ وہ اور ان کے ہمنوا اپنے بنائے گئے‘ اپنے لکھے گئے قانون کو ایک بار پھر دیکھنے کے بعد فیصلہ کر یں کہ ان کی قانون کی عملداری کی کہانیوں اور دعوؤں میں کس قدر صداقت ہے ۔
کرپلانی مشن نا کام ہو نے کے بعدجون 1947ء میں وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن نے گاندھی کے کہنے پر مہاراجہ گلاب سنگھ کو بھارت کے ساتھ شامل ہونے پر مجبور کیا ۔کہا جاتا ہے کہ وہیں پر گاندھی اور مائونٹ بیٹن نے اسے ایک دستاویز دی جس پر اس نے دستخط کر دیے جس میں کشمیر میں قبائلی لشکر کے خلاف مدد کے نام پر فوج بھیجنے کی درخواست کی گئی۔ جب یہ سب ہو گیا تو انگریز نے ایک چال اور چلی اور 27 اکتوبر1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن نے بھارت کو کشمیر میں فوجی مداخلت کی اجازت دیتے ہوئے مہاراجہ کشمیر کولکھا : اس وقت آپ کے بھارت کے ساتھ شامل ہونے کے فیصلے کو اس شرط کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں کہ حالات بہتر ہوتے ہی کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی تاکہ فیصلہ ہو سکے کہ کشمیری کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ماؤنٹ بیٹن کے اس خط کی روشنی میں بھارتی فوج کے سری نگر اترنے پر پہلی پاک بھارت جنگ چھڑ گئی جس پر پنڈت نہرو نے یکم جنوری1948ء کو جنگ بندی کیلئے اقوام متحدہ سے کی گئی درخواست میں پاکستان پر کشمیر میں ''جارحیت ‘‘یا ''مداخلت‘‘ کا الزام لگانے کی بجائے اقوام متحدہ کے آرٹیکل 35کی کلاز6 کا حوالہ دیتے ہوئے ''Dispute‘‘ کا لفظ استعمال کیا ۔