کوئلے اور بھاپ سے چلنے والا ریلوے انجن ٹرین کی سات بوگیوں کو کھینچتا ہوا‘ چھک چھک کرتا اپنی مخصوص رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ یہ ٹرین کہیں ہلکی تو کہیں تیز رفتاری سے چلنے لگتی۔ مسافروں کو ان کی منزلوں پر اتارتی ہوئی ٹرین آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ کسی جگہ اداس اور رونی صورت والے مسافروں کو سمیٹنا تو کسی سٹیشن پر بوگی کی کھڑکیوں اور دروازوں سے اپنے پیاروں اور دوستوں کو اترتا دیکھ کر چہروں پر مسکراہٹیں اور خوشیاں بکھرنے کا منظر دکھائی پڑنا۔ ٹرین کے انجن کی طرح‘ اس کا ہر اہلکار اپنے اپنے فرائض میں مگن تھا جبکہ مسافر اپنی اپنی مصروفیات میں کہیں ایک دوسرے سے باہم گفت و شنید تھے تو کہیں زبان درازی اور کہیں نشستوں پر ٹانگیں پسارنے پر اپنے ہم سفروں کی قبضہ گیری کے خلاف شور مچاتے ہوئے ایک دوسرے پر جھپٹنے کے مناظر پیش کر رہے تھے۔ کچھ مسافر سونے کی ناکام کوششوں میں مصروف تھے کہ اچانک ٹرین کے ایک زنانہ ڈبے کے باہر ٹکٹ چیکر کی آواز سنائی دی۔ جیسے ہی یہ آواز اس بوگی کے اندر بیٹھے ہوئے مسافروں کو سنائی دی تو ہر کوئی اپنی اپنی جیبوں کی جانب ہاتھ بڑھانے لگا۔ ایسے میں یہ منظر بھی سامنے آیا کہ ایک بارہ‘ تیرہ سالہ لڑکی اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا کر جلدی سے بوگی کی ایک نشست کے نیچے جا گھسی۔ اسی بوگی میں چند فٹ کے فاصلے پر بیٹھی ہوئی ایک باوقار خاتون جو یہ پورا منظر دیکھ رہی تھی‘ ایک لمحے کیلئے اس کے چہرے پر ناگواری اور پھر حیرانی کے تاثرات ابھرنا شروع ہو گئے۔ وہ ابھی اس لڑکی سے متعلق کچھ کہنے ہی والی تھی کی ٹکٹ چیکر نے اس بوگی میں داخل ہو کر ہر ایک مسافرکی نشست کے پاس جا کر ان کے ٹکٹ چیک کرنا شروع کر دیے۔
اپنے معمول کے مطابق ممبئی سے بنگلور جا نے والی ٹرین کی اس بوگی میں ٹکٹ چیکر کی نظریں اچانک دائیں جانب کی ایک نشست کے نیچے چھپی ہوئی اس لڑکی پر پڑ گئیں‘ جس پر اس نے رعب دار آواز میں اسے باہر آنے کو کہا لیکن لڑکی اسی طرح نشست کے نیچے گھسی رہی جس پر ٹی ٹی نے اسے سختی سے باہر نکلنے کا کہا۔ اب وہ تھرتھر کانپتی ہوئی باہر نکلی اور رونے لگی۔ جب اس سے ٹکٹ دکھانے کو کہا گیا تو اس نے کہا کہ اس کے پاس ٹکٹ نہیں ہے جس پر ٹی ٹی نے اسے بازو سے پکڑ کرڈبے سے باہر نکالتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے اور اسے اگلے سٹیشن پر ٹرین سے اتار کر اسے پولیس کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ابھی وہ لڑکی کو ساتھ لے کر جانے ہی لگا تھا کہ ٹی ٹی کے عقب سے وہی باوقار خاتون انتہائی مہذب لہجے سے بول اٹھیں کہ وہ اس لڑکی کے لیے مطلوبہ ٹکٹ جرمانے کے ساتھ خریدنے کو تیار ہیں‘ براہِ کرم اسے چھوڑ دیا جائے۔ ٹکٹ چیکر نے لڑکی کا بازو چھوڑا اور بنگلور تک کا ٹکٹ بنا دیا۔ اس خاتون نے مطلوبہ رقم اپنے پرس میں سے نکال کر ٹکٹ چیکر کے حوالے کر دی اور وہ رقم لے کر آگے بڑھ گیا۔
لڑکی کے لیے ٹرین کا ٹکٹ خریدنے والی وہ باوقار خاتون مسز بھٹہ چاریہ تھیں جو بنگلور کے ایک مقامی کالج میں لیکچرار کے فرائض سرانجام دے رہی تھیں۔ مسز بھٹہ چاریہ نے ٹی ٹی کا دیا ہوا وہ ٹکٹ اس بچی کو دیا اور اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے انتہائی ملائمت اور مہربان لہجے میں پوچھا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آئی ہے؟ اس کا نام کیا ہے اور وہ کہاں جا رہی ہے؟ لڑکی کا خوف کچھ دور ہوا تو آ ہستہ آہستہ اس نے مسز بھٹہ چاریہ سے بات چیت شروع کر دی۔ اس نے بتایا کہ اس کا نام چترا ہے اور ا سے کچھ پتا نہیں کہ اس نے کہاں جانا ہے کیونکہ اس کا کوئی ٹھکانا نہیں ہے۔ لڑکی کی داستان سننے کے بعد مسز بھٹہ چاریہ نے اس سے پوچھا کہ اگر وہ چاہے تو ان کے ساتھ آ سکتی ہے‘ وہ اس کیلئے کوئی مناسب بندوبست کرنے کی کوشش کریں گی۔ لڑکی اثبات میں سر ہلا کر خاموش ہو گئی۔
ٹرین جب بنگلور پہنچی تو مسز بھٹہ چاریہ اس لڑکی کو اپنے ساتھ لے کر ایک این جی او کے دفتر پہنچیں اور بچی کو ان کے حوالے کرتے ہوئے تمام مطلوبہ کاغذات پر دستخط کر دیے اور اس طرح وہ چترا نامی لڑکی اس این جی او کے رہائشی مرکز میں رہنے لگی، اس دوران مسز بھٹہ چاریہ اسے ملنے کیلئے آتی رہیں۔ جب بھی وہ چترا سے ملنے کیلئے جاتیں تو اس کیلئے چند تحائف اور نئے کپڑے وغیرہ ضرور لے کر جاتیں۔ وقت گزرتا رہا‘ دو سال بعد مسز بھٹہ چاریہ دہلی منتقل ہو گئیں اور اس طرح ان کا چترا سے رابطہ منقطع ہو گیا لیکن وہ اکثر اس کے بارے میں سوچا کرتیں۔ اگلے بیس برس کا طویل عرصہ ایسے گزرا کہ پتا ہی نہیں چلا۔ مسز بھٹہ چاریہ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ریٹائر ہو کر معاشرے میں ایک قابلِ احترام حیثیت اختیار چکی تھیں۔ ایک دن اچانک انہیں امریکی ریاست سان فرانسسکو کی یونیورسٹی کی جانب سے لیکچرز دینے کیلئے مدعو کیا گیا جسے انہوں نے انتہائی مسرت سے قبول کرتے ہوئے یونیورسٹی انتظامیہ کو امریکہ آنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ ضروری کاغذی کارروائیوں کے بعد وہ چند ہفتوں میں سان فرانسسکو پہنچ گئیں۔
امریکہ میں اپنے قیام کے دوران ایک رات وہ ایک مشہور ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کیلئے پہنچیں اور اپنی پسند کے کھانوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد انہوں نے ویٹر کو جب بل لانے کا کہا تو اس نے یہ بتا کر انہیں حیران کر دیا کہ ان کے بل کی ادائیگی کر دی گئی ہے۔ مسز بھٹہ چاریہ کیلئے یہ انتہائی چونکا دینے والی بات تھی کہ سان فرانسسکو میں ان کا جاننے والا کون ہو سکتا ہے جس نے بغیر پوچھے ان کے کھانے کے بل کی ادائیگی کر دی۔ ان کے استفسار پر ویٹر نے ان کے عقب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ ان لوگوں نے آپ کے بل کی ادائیگی کی ہے۔ مسز بھٹہ چاریہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک خاتون اپنے دونوں ہاتھ انتہائی عقیدت اور محبت سے جوڑے‘ اپنے شوہر کے ساتھ کھڑی مسلسل ان کی جانب دیکھے جا رہی تھی۔ مسز بھٹہ چاریہ نے اس خاتون سے پوچھا کہ اس نے ان کے کھانے کے بل کی ادائیگی کیوں کی ہے‘ وہ وہ تو اسے جانتی ہی نہیں تو سامنے کھڑی خاتون نے ممنونیت سے لبریز مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے کہا: انتہائی قابلِ احترام میڈیم! جس بل کی میں نے ادائیگی کی ہے وہ تو آپ کے ان احسانات اور شفقت کے مقابلے میں انتہائی معمولی ہے جو آپ نے مجھ جیسی غریب اور لاوارث پر کیے۔ خاتون نے مسز بھٹہ چاریہ کے ہاتھوں کو اپنی آنسوئوں سے لبریز آنکھوں سے لگایا اور انہیں چومتے ہوئے کہا کہ زندگی کا کوئی ایسا لمحہ نہیں تھا جب میں نے ممبئی سے بنگلور تک کے اُس سفر کو یاد نہ کیا ہو جب ایک دیوی سمان عورت نے مجھے کیچڑ سے اٹھا کر پھولوں پر بٹھا دیا تھا۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں‘ یہ سب آپ کی اس عنایت اور ہمدردی کی وجہ سے ہے ورنہ میرے جیسی لاوارث لڑکی درندوں کے اس جنگل میں نجانے کب کی نوچ کھسوٹ لی جاتی۔ میرا تو ہر سانس آپ کے لیے پراتھنا کرتے گزرتا ہے۔ یہ سنتے ہی مسز بھٹہ چاریہ نے بے ساختگی اور مسرت سے اچھلتے ہوئے کہا: او مائی گاڈ! تم چترا ہو۔ چترا نے مسکراتے ہوئے کہا: میڈم میں اب چترا نہیں بلکہ سُدھا مورتی ہوں اور میرے ساتھ میرے شوہر نارائن مورتی ہیں۔ جی ہاں! وہی سدھا مورتی جو انفوسس لمیٹڈ جیسی ملٹی ملین کمپنی کے مالک ہیں۔ سدھا مورتی جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلی خاتون انجینئر تھیں‘ جسے ٹاٹا گروپ نے ہائر کیا تھا‘ اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے بھارت کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ''پدم شری‘‘ بھی حاصل کر چکی ہیں۔ وہ تکنیکی مہارت، ناولز اور نان فکشن سمیت متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں اور بھارت میں تعلیم کے شعبے میں ان کی کافی خدمات ہیں۔
چند روز قبل ''بھوک اور دودھ کا گلاس‘‘ کے عنوان سے جو کالم لکھا تھا‘ ابھی اس کے اثرات سے باہر نہیں نکلا تھا کہ چترا اور مسز بھٹہ چاریہ کی کہانی سامنے آ گئی جس پر یقین کرنا تب مزید مشکل ہو جاتا ہے جب یہ علم ہو کہ سدھا مورتی کی بیٹی اکشتا مورتی رشی سوناک کی بیوی ہے‘ وہی سوناک جو اس وقت برطانیہ کا وزیراعظم ہے۔