ٹی وی سکرین پر ابھرنے والے ایک نیوز ٹِکر نے مجھے چونکا کے رکھ دیا۔ خبر تھی کہ ستاون ہزار کی خورد برد کرنے پر ایک ادارے کے سات ملازمین کو محکمہ انسدادِ بدعنوانی نے گرفتار کر لیا۔ بات ہی ایسی تھی کہ چونک جانا لازمی تھا کہ سات ملازمین کا یہ ٹولہ ملک و قوم کے ''ستاون ہزار روپے‘‘ خورد برد کر گیا۔ یہ رقم اُن سب میں تقریباً آٹھ ہزار 145روپے فی کس کے حساب سے تقسیم ہوئی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے اس خبر میں حیران ہونے والی کوئی بات نہ ہو کہ آج کل ہر چند گھنٹوں بعد ایسی خبریں سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ مگر دوسری طرف جب ایسی خبریں سننے کو مل رہی ہوں کہ اربوں روپے خورد برد کرنے والوں کی ضمانتیں منظور ہو رہی ہیں تو یقینا یہ خبر حیران کن ہی لگے گی۔ آئے روز ایسی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں کہ کسی ایک کا دس ارب تو کسی دوسرے کا سولہ ارب روپے کی کرپشن کا کیس بند ہو گیا ہے۔ ایسی خبریں سننے کے بعد یقینا یہ سوال ذہن میں اُبھر سکتا ہے کہ اگر ستاون ہزار روپے کی ہیرا پھیری کے سات مجرموں کو گرفتار کیا جا سکتا ہے تو پھر اربوں روپے کے ہیر پھیر کرنے والوں کے لیے قانون نرم کیوں ہو جاتا ہے؟ یہ دو واقعات دیکھنے کے بعد کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ملکِ عزیز میں 1973ء کے آئین کے تنا ظر میں غریب کے لیے کوئی اور قانون موجود ہے اور امیر کے لیے کوئی اور قانون؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہاں غریب کے لیے قانون سخت کیوں ہے کہ وہ معمولی جرم پر بھی فوراً دھر لیا جاتا ہے جبکہ امیر کے لیے قانون اتنا نرم کیوں ہے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے‘ جس قدر چاہے لوٹ مار کرے‘ اسے ہر قسم کی آزادی کیوں حاصل ہے؟
گزشتہ چار‘ پانچ برسوں سے مسلم لیگی حلقوں کی جانب سے اس بات کی اس قدر تکرارکی جا رہی ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ یہ سفید جھوٹ اور پروپیگنڈا ایک عام اور بے خبر انسان‘ اندھی سیاسی تقلید کرنے والوں یا اپنا سیاسی مستقبل مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جوڑنے والوں کے لیے تو کارآمد ہو سکتا ہے، ان کو تو اس میں سیاسی پناہ مل سکتی ہے مگر سچ کیا ہے‘ یہ بات دنیا کے ہر ذی شعور کو نوشتۂ دیوار کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔ یہ نجانے گلوبل وارمنگ کا نتیجہ تھا یا کوئی اور وجہ کہ اچانک 2016ء میں شمالی امریکہ میں ساحلی علاقوں پر مشتمل‘ 40 لاکھ سے کچھ زائد آبادی کے چھوٹے سے ملک پاناما نے اپنے راز اُگلنا شروع کر دیے جس سے ہر طرف ایک شور مچ گیا اور جب یہ شور ملکِ عزیز تک پہنچا تو پھر یہ معاملہ اعلیٰ عدلیہ میں جائے بغیر حل نہ ہو سکا۔ اپریل 2016ء میں سامنے آنے والے اس معاملے کے عدالت میں جا نے میں سات ماہ کا عرصہ لگا ۔نومبر 2016ء میں اس کیس کی سماعت سے قبل عالمی سطح پر اس سکینڈل کی زد میں آئے کتنے حکمرانوں نے استعفیٰ دیا‘ اور کتنوں نے اعترافِ جرم کیا، یہ ایک الگ داستان ہے۔ عدالت میں پہنچنے کے بعد 18 ہفتوں تک اس کیس کی سماعت جاری رہی اور ہر بار منی ٹریل اور ذرائع آمدن سے متعلق مخصوص سوالات کیے گئے مگر کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس پر عدلیہ نے کیس کا فیصلہ سنانے کے بجائے مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا اور اس معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی گئی۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی کے اراکین کا اعلان کیا۔
یہ جے آئی ٹی جب تشکیل دی گئی تو کسی کے وجدان و گمان میں بھی اُن کٹھن مراحل کا تصور نہیں تھا جس کا جے آئی ٹی کے اراکین اور ان کے اہلِ خانہ نے سامنا کیا۔ یہاں تک کہ جے آئی ٹی میں شامل اراکین نے جب یہ دیکھا کہ خطرات شدید تر ہو گئے ہیں تو انہیں اپنے اہلِ خانہ کو محفوظ رکھنے کے لیے بیرونِ ملک بھجوانا پڑا۔ جے آئی ٹی میں شامل اراکین کو کس قسم کے خطرات اور کن کن دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا‘ یہ ایک طویل داستان ہے لیکن چونکہ اُن اراکین نے حلف اٹھایا تھا کہ وہ ایمانداری سے تحقیقات کریں گے اور وطن کو لوٹنے والوں کو قانون کے سامنے لا کر رہیں گے‘ اس لیے وہ ملک لوٹنے والوں کے گرد شہادتوں کا شکنجہ کسنے کے لیے کانٹوں بھری راہ پر چلتے رہے۔
عدالت کے حکم پر تشکیل پانے والی اس چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جن سوالات کا جواب درکار تھا اور جو متعلقہ خاندان سے بار بار پوچھے گئے‘ اُن میں سے چند ایک یہ تھے۔ میاں محمد شریف کی ملکیتی گلف سٹیل مل کیسے وجود میں آئی؟ یہ ادارہ کیوں فروخت کیا گیا؟ اس کے ذمہ واجبات کا کیا بنا اور اس کی فروخت سے ملنے والی رقم کہاں استعمال ہوئی؟ یہ رقم جدہ‘ قطر اور پھر برطانیہ کیسے منتقل کی گئی؟ کیا نوے کی دہائی کے اوائل میں حسن نواز اور حسین نواز اپنی کم عمری کے باوجود اس قابل تھے کہ وہ فلیٹس خریدتے یا ان کے مالک بنتے؟ غیر ملکی اہم شخصیت کے خطوط اور بیان میں کس قدر حقیقت ہے؟ حصص بازار میں موجود شیئرز فلیٹس میں کیسے تبدیل ہوئے؟ نیلسن اور نیسکول نامی کمپنیوں کے اصل مالکان کون ہیں؟ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ نامی کمپنی کیسے وجود میں آئی؟ حسن نواز کی زیرِ ملکیت فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور دیگر کمپنیوں کے قیام کے لیے رقم اور ان کمپنیوں کو چلانے کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ حسین نواز نے اپنے والد میاں محمد نواز شریف کو جو کروڑوں روپے تحفتاً دیے‘ وہ کہاں سے آئے؟ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو تشکیل کے بعد اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے دو ماہ کی مہلت دی تھی جبکہ میاں نواز شریف اور اُن کے بیٹوں کو تحقیقاتی عمل کا حصہ بننے کا پابند بھی بنایا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے متعلقہ خاندان سے 14 سوالات بار بار پوچھے مگر جواب ندارد۔ بالآخر اپنی تحقیقات کے بعد جے آئی ٹی نے اعلیٰ عدلیہ کے تین رکنی بنچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کر دی جس پر معزز عدلیہ نے اس رپورٹ پر اعتراضات کی سماعت کی اور پھر باقاعدہ سماعت کے بعد فیصلہ سنا یا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ایک ایسی تفتیش تھی جو تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ اور دنیا بھر کی سیاست اور وکالت میں زندہ رہے گی۔ اعلیٰ عدلیہ کی ہدایات کے مطابق جے آئی ٹی ہر پندرہ دنوں کے بعد اپنی تحقیقات سے عدلیہ کو آگاہ کرتی تھی۔ جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ گواہان کے بیانات اور ان کے تجزیے‘ گلف سٹیل مل‘ ہل میٹل کے قیام اور تحائف‘ فلیگ شپ انویسٹمنٹ لمیٹڈ اور دیگر کمپنیوں‘ نیب اور ایف آئی اے کے مقدمات‘ حدیبیہ پیپر ملز کیس‘ اعلانیہ ذرائع آمد ن سے زائد اثاثوں‘دیگر مدعا علیہان کے بیانات اور آخر میں دسویں جلد پر مشتمل تھی‘ جسے مدعا علیہ کی درخواست پر پڑھنے کی اجا زت بھی دی گئی لیکن اس میں نجانے ایسا کیا تھا کہ مذکورہ وکیل صاحب تین صفحات پڑھنے کے بعد ہی خاموشی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کہا گیا تھا کہ میاں نواز شریف کی طرف سے بڑی رقوم کو قرض یا تحفے کی صورت میں دینے سے متعلق کئی بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔ اس رقم سے میاں صاحب کے علاوہ ان کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز مستفید ہوئے‘ اس لیے اس معاملے کو قومی احتساب بیورو میں بھیجا جائے۔رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ اس ضمن میں جب حسن نواز اور حسین نواز سے ان رقوم کے بارے میں دریافت کیا گیا تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ان شخصیات کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی لیکن اس کارروائی کا جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ رہی سہی کسر حال ہی میں کی جانے والی نیب ترامیم سے پوری ہو چکی ہے۔ ان ترامیم کے بعد نہ صرف یہ چند افراد بلکہ کئی دیگر کئی شخصیات‘ جومبینہ طور پر اربوں کے گھپلوں میں ملوث ہیں‘ قانون کے شکنجے سے نکل چکی ہیں اور دوسری طرف ستاون ہزار کی خورد برد کرنے والے دھرے جا رہے ہیں۔ کیا یہ صورتحال اس گمان کو تقویت نہیں دیتی کہ ملک میں امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قانون موجود ہے؟