گھریلو معاملات ہوں یا کاروباری اور دنیاوی تعلقات‘ ملکی معاملات ہوں یا عالمی سیاسیات‘ دیکھا یہی گیا ہے کہ سب سے زیادہ اس وقت جس کا ڈنکا بج رہا ہے وہ جھوٹ اور محض جھوٹ ہے۔ جھوٹ بولتے ہوئے ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس میں رتی بر ابر بھی سچائی نہیں اور اس کا ایک لفظ بھی حقیقت اور حقانیت سے تعلق نہیں رکھتا لیکن پھر بھی نجانے وہ کون سی خوشی اور اطمینان ہے جو ہمیں مسلسل اور متواتر بولے جانے والے جھوٹوں پر فخر کا احساس دلاتا ہے۔ جھوٹ بولنا چھوٹے‘ بڑے کسی بھی رتبے اور حیثیت کے حامل فرد کیلئے اچھا اور فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتا مگر کچھ لوگوں کو شاید کوئی ہلہ شیری مل چکی ہے کہ اسی کام میں مگن رہو کیونکہ جنگ اور محبت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ بات جب محبت کی آتی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ محبت کسی انسان ہی سے ہو بلکہ کرسی اور اقتدار سے محبت کی جنگ میں بھی جھوٹ بولنا جائز بلکہ ضروری سمجھ لیا گیا ہے کیونکہ اس میں محبت اور جنگ‘ بیک وقت کارفرما ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں جھوٹ کے لیے کوئی حد بھی مقرر نہیں۔ اچھے بھلے سنجیدہ فکر لوگ‘ جن میں ہمارے تقریر نویس اور دانشوران بھی شامل ہیں‘ جانتے بوجھتے اپنے موقف کو عوام میں راسخ کرنے کے لیے حقائق کو قصداً توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ کچھ ایسے افراد بھی ہیں‘ جو کئی نسلوں کے استاد رہے ہیں‘ ان سے متعلق تو یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حقیقت کو نہیں جانتے ہوں گے یا لاعلمی کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہوں گے مگر کیا کریں‘ اس کارزارِ سیاست میں اب جھوٹ کو ہی سچ کا درجہ دے دیا گیا ہے یا پھر حقائق سے اعراض کو ہی سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ضروری اور ناگزیر سمجھ لیا گیا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ جب دامن حقائق اور دلیل سے عاری ہو جائے تو پھر ایسے ہی حربے اپنانا پڑتے ہیں مگر یہ اشراف کا طریقہ نہیں ہوتا۔ عقل و خرد کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر کبھی انسان کو یہ محسوس ہو کہ وہ غلط سمت پر کھڑا ہے تو بہتر یہی ہے کہ راستہ تبدیل کر لے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو گوشہ نشینی سو طرح کی آلودگی سے محفوظ رکھتی ہے۔ ایسے میں انسان کو خواہ مخواہ کیچڑ سے اپنا دامن داغدار کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
تمہید کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی‘ بات ہو رہی تھی میدانِ سیاست میں بولے جانے والے جھوٹوں کی‘ اس میں ایک تازہ اضافہ یہ ہے کہ اگر آپ کسی ملک کے صدر یا سربراہ ہیں‘ آپ کسی ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں تو دنیا کا کون سا قانون آپ کو اس بات سے روکتا ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں رکھ سکتے یا وہاں کسی بھی حیثیت سے نوکری نہیں کر سکتے؟ آج کل ایک طبقے کی تان اسی ایک بات پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ نواز شریف صاحب کو بیٹے سے تنخواہ لینے کے جرم پر فارغ کیا گیا اور تنخواہ بھی وہ‘ جو انہوں نے کبھی وصول ہی نہیں کی۔ اس حوالے سے اُس وقت کی سپریم کورٹ کے ججز کے متعلق جو زبان استعمال کی گئی‘ اس میں اور کسی گلی‘ محلے کے تھڑے پر استعمال کی جانے والی زبان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ علم و فضل‘ یہ لفظوں کا چنائو اور ایسا طرزِ تخاطب۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ کچھ عرصہ قبل خود ہی کہا کہ بے ڈھب اور ناتراشیدہ القابات اور خطابات اس ذہنی خلجان اور جذباتی ہیجان سے جنم لیتے ہیں جو دلیل کے فقدان سے پیدا ہوتا ہے اور ایسے میں آشوب میں مبتلا ہونے والے کا ہاتھ سیدھا مدمقابل کے گریبان پر پڑتا ہے۔ بہرکیف‘ اعتراض کرنے والوں کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر کوئی بندہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لے رہا تو اس میں جرم کیا ہے؟ لیکن بات اتنی سادہ نہیں جتنا بنائی جا رہی ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر ایک اچھی بھلی چلتی پھرتی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ 7 اگست 2006ء کو میاں نواز شریف نے ایمپلائمنٹ کنٹریکٹ ایگریمنٹ کرتے ہوئے ایک اماراتی کمپنی میں بطور چیئرمین کام کا آغاز کیا جہاں انہیں دس ہزار درہم ماہانہ تنخواہ ملتی۔ کمپنی کی دستاویزات کے مطابق یہ منصب 20 اپریل 2014ء تک ان کے پاس رہا حالانکہ جون 2013ء کو جب وہ وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے تھے تو قانون اور ضابطے کے مطابق انہیں چاہئے تھا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم کا حلف اٹھانے سے پہلے کسی بھی بیرونی ملک یا کسی بھی ادارے کا‘ خواہ وہ ان کے بیٹے یا خاندان کی ملکیتی کوئی کمپنی ہو‘ کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا جبکہ اسی ملازمت کی بنا کر 5 جون 2012ء کو انہیں دبئی ریزیڈنس ویزا یعنی اقامہ جاری کیا گیا۔ اب جو اٹھتے بیٹھتے کہا جا رہا ہے کہ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں نکالا گیا تو اس حوالے سے کسی دوسرے پر انگلی اٹھانے سے قبل مرکزی لیڈرشپ کو خود جواب دیتے ہوئے بتانا چاہئے کہ اماراتی کمپنی‘ جس کے میاں صاحب چیئرمین تھے‘ سے پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر کام کرتے ہوئے ''اوور دی کائونٹر‘‘ (OTC) میتھڈکے ذریعے تنخواہیں وصول نہیں کی گئیں؟ یہ وہ ریکارڈ ہے جسے کوئی بھی جھٹلانے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ ہمارے یہاں تو سب کچھ ممکن ہے کہ ریکارڈ کے ساتھ جو دل چاہے سلوک کیا جائے اور پھر مقدمات بھی اسی رخ پر چلنا شروع کر دیتے ہیں‘ مگر متحدہ عرب امارات کا ریکارڈ تو اس کا گواہ ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کمپنی نے معاہدے کے مطابق تنخواہ ادا نہیں کی تو دبئی کا قانون اس بارے کیا کہتا ہے‘ سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا اس کو کس طرح جھٹلایا جائے گا؟ اگر کوئی گلی محلے کا کونسلر لیول شخص اس قسم کی بات کرے کہ میاں صاحب کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا تو شاید جواب دینے کی نوبت ہی نہ آئے لیکن اگر پارٹی کے ''دماغ‘‘ اس سطح پر آ جائیں کہ حقائق کو چھپانے لگیں اور جھوٹ عام کرنے لگیں تو پھر ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ لازم ہو جاتا ہے کیونکہ بڑے بڑے لوگوں کی باتیں بھی بڑی ہوتی ہیں اور ان پر ہر کوئی یقین بھی کر لیتا ہے‘ اس لیے ایسے مواقع پر جواب لازم ہو جاتا ہے۔
گزشتہ چند برس سے لندن فلیٹس اور پاناما سکینڈل کے جواب میں یہی ایک بات کی جاتی رہی ہے اور اب عدالت سے بریت کے بعد اس بیانیے میں تیزی آ چکی ہے حالانکہ عدالتی بریت تکنیکی بنیاد پر ہے کہ جب مدعی یعنی احتسابی ادارہ ہی مقدمہ چلانے سے انکاری ہو جائے تو عدالت کیا کر سکتی ہے مگر مقدمہ ختم ہونے سے سوالات ختم نہیں ہو جاتے۔ سوال اب بھی وہی ہے کہ 2016ء میں شمالی امریکہ میں ساحلی علاقوں پر مشتمل 40 لاکھ سے کچھ زائد آبادی کے چھوٹے سے ملک پاناما سے اٹھنے والے سیکنڈل کی وجہ سے عالمی سطح پر متعدد حکمرانوں نے استعفیٰ نہیں دیا؟ کیا دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں اس سیکنڈل کی تحقیقات نہیں کی گئیں؟ کیا برطانوی وزیراعظم اور آئس لینڈ کے وزیراعظم سمیت متعدد عالمی شخصیات کو اس سکینڈل کی وجہ سے اپنا عہدہ نہیں چھوڑنا پڑا؟ دوم‘ پاناما میں موساک فونسکا کی دستاویزات کے مطابق نواز شریف صاحب کے اہلِ خانہ نے چار غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعے لندن میں پُرتعیش جائیدادیں خریدی تھیں‘ پاناما کاغذات کی رو سے ان کمپنیوں نے مذکورہ جائیداد کو ایک کروڑ اڑتیس لاکھ ڈالر کے قرض کے لیے بطور ضمانت پیش کیا تھا‘ کیا یہ الزامات رد ہو چکے؟ کیا ان کا جواب دیا گیا؟ جے آئی ٹی نے مذکورہ خاندان سے جو 14 سوالات بار بار پوچھے کیا ان کا تسلی بخش جواب دیا گیا؟ اور جو دس جلدوں پر مشتمل تحقیقات ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جمع کرائی گئی تھیں‘ کیا وہ جھوٹ پر مبنی تھیں؟