سحر کی اذاں ہوگئی اب تو جاگ

علامہ اقبال کی شاعری کے دوسرے مجموعہ (بالِ جبریل) کی نظم نمبر158 میں اقبالؔ پنجاب کے دہقان سے مخاطب ہوئے۔ سات اشعار کی ایک مختصر مگر کمال کی نظم۔ پہلے دو اشعار پڑھ لیں تو ہم آگے بڑھیں ؎
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تو خاک باز
اِسی خاک میں دب گئی تیری آگ
سحر کی اذاں ہو گئی اب تو جاگ
اس نظم کے دُوسرے شعر کا دُوسرا مصرعہ آج کے کالم کا عنوان بنا۔ اقبالؔ نے پنجاب کے دہقان (کوئی وجہ تو ہوگی وہ سارے ہندوستان کو نظر انداز کر کے صرف پنجاب کے کسانوں سے مخاطب ہوئے) کو یاد دلایا کہ اب تو سحر کی اذاں ہوگئی ہے‘ دُنیا میں تبدیلی آچکی ہے۔ معروضی حالات بدل چکے ہیں۔ طویل اندھیری رات گزر چکی ہے۔ صبح کا سویرا اب کوئی دم کی بات ہے کہ اُفق پر نمودار ہوگا۔ پُوپھٹنے والی ہے۔ فصلِ خزاں شجر سے ٹوٹ جانے والی ڈالی سحابِ بہار سے پھر ہری بھری ہوگئی ہے۔ نہ صرف یہ کرشمہ رُونما ہوا بلکہ اُس پر کلیاں کھلنے والی ہیں۔ فیضؔ صاحب کے الفاظ میں: صحرا میں پھر ہولے سے بادِ نسیم چلنے والی ہے۔ ایک عرصہ سے بیمار‘شدید بیمار اور جاں بلب مریض کو قرار آنے والا ہے۔ مشرق سے سورج پھر اُبھر کر کائنات کو منور کرنے والا ہے۔ سنگلاخ پتھروں کا دل چیر دینے والی تند و تیز‘ سرکش‘ طوفانی اور برفانی ندی ہر رُکاوٹ کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر پھر (انسانی تاریخ کے ) بہتے ہوئے دریا کا حصہ بن جانے کے قریب جا پہنچی ہے۔
یہ تو تھا ایک منظر‘ ایک سچائی اور ایک حقیقت۔ دُوسری طرف وہ دہقان ہے جس نے (بقول اقبالؔ) اچھے موسم‘ زرخیز زمین اور وافر پانی کے باوجود اپنا کھیت نہ سینچا۔ سنہری موقع گنوا دیا۔ اقبالؔ بجا طور پر سوال کرتے ہیں کہ تو کس طرح کا دہقان ہے؟ گہری نیند سویا پڑا ہے۔ سحر کی اذاں ہو گئی ہے مگر تو ہے کہ جاگتا نہیں۔ آنکھیں بند کیے خوابِ خرگوش کے مزے لے رہا ہے۔ (جلد یا بدیر) جب تُو جاگے گا تو یہ دیکھ کر کہ چڑیاں کھیت چُگ چکی ہیں‘ کفِ افسوس ملے گا۔ ممکن ہے کہ زار و قطار روئے اور سینہ کوبی کرے مگر اس سے نقصان کی تلافی نہ ہوگی۔ گزرے ہوئے سانپ کی لکیر پیٹی جائے یا اپنا سر‘ غفلت کی سخت سزا مل کر رہتی ہے۔ صدیوں کی محرومیوں اور عذابوں کی صورت میں۔
ہمیں اللہ تعالیٰ نے پہلے دُنیا کی سب سے بڑی نعمت یعنی آزادی دی اور پھر اس آزادی سے فائدہ اُٹھا کر مملکتِ خداداد کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے ایک‘ دو سال نہیں بلکہ پورے 76 برس دیے۔ بکمال فیاضی تین چوتھائی صدی سے بھی ایک سال زیادہ۔ ہم نے مگر تمام مواقع یکے بعد دیگرے ضائع کیے۔ 1971 ء کے سانحہ سے بھی کوئی سبق نہ سیکھا۔ سالہا سال‘ پے در پے خسارے کے بجٹ بنائے اور اربوں ڈالروں کے قرض لے کر اس مستقل خسارے سے پیدا ہونے والے مالی بحران پر قابو پانے کی ویسی ہی کوشش کرتے رہے جو خودکش دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔ اب داخلی اور غیر ملکی قرض (جو کئی سو ارب ڈالر ہیں) اتنا بلند و بالا پہاڑ بن چکے ہیں جو آسمان سے باتیں کرتا ہے اور ہم سر اُٹھا کر اُس کی چوٹی دیکھنے کی کوشش کریں تو سر پر رکھی ہوئی ٹوپی یا ہماری دستار اُس خاک پر گر پڑے گی جہاں سے صرف سات سال (1940-47ء) قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت چلنے والی عوامی تحریک ہمیں فرش سے اُٹھا کر عرش تک لے گئی تھی۔ آئیے! ہم ہمت کر کے تسلیم کریں کہ ہم کفرانِ نعمت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے 22 کروڑ ہوں یا 24 کروڑ‘ عوام دُشمن اس نظام میں ہانکے جانے والے مویشی ہیں یا پیروں کے نیچے کچل دیے جانے والے کیڑے مکوڑے۔ اقبال ؔ کی چیونٹی کی طرح خاکِ راہ میں نسل در نسل رزق ڈھونڈنے والے۔ بے بس و لاچار۔ لاوارث اور بے آواز۔ ہماری کم و بیش دو تہائی آبادی خطِ افلاس کے آس پاس زندگی کا عذاب برداشت کرتی ہے۔ ایک تہائی یا ایک چوتھائی آبادی کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے۔ اب رہا حکمران طبقہ‘ جو ایک فیصد ( 24 لاکھ) کا بھی ایک فیصد (یعنی 24 ہزار) ہے۔ یہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں‘ اس تکرار کو در گزر فرمایئے گا۔ کالم نگار نجومی نہیں کہ آپ کو مستقبل کا حال احوال بتاسکے مگر سماجی علوم (بالخصوص تاریخ) کے سات دہائیوں پر پھیلے مطالعہ اور پندرہ برس کے تدریسی تجربے (جن میں برطانیہ میں پڑھانے کے دس برس بھی شامل ہیں) کے بعد یہ تلخ حقیقت وثوق سے بیان کر سکتا ہے کہ ہم نے 76 برس (مختلف حادثات اور امریکی عنایات کی وجہ سے) جس گاڑی پر اُفتان خزاں سفر کر لیا‘ اب وہ زیادہ دیر نہ چل سکے گی۔ اس کا انجن جواب دے چکا ہے۔ ڈھانچہ بے حد خستہ اور ناقابلِ استعمال ہو چکا ہے۔ موجودہ عوام دشمن نظام اس وقت حالتِ نزع میں ہے۔ یہ مصنوعی تنفس کے سہارے زندہ ہے۔ کوئی مریض انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں غیر متعین عرصہ کے لیے نہیں رہ سکتا۔ یا تو وہ صحت یاب ہو کر گھر واپس آجاتا ہے یا اُس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جاتی ہے اور اس کا جسدِ خاکی مٹی میں دفن ہوجاتا ہے۔ اب حکمران طبقہ کی چالاکیوں‘ پھرتیوں اور کرتبوں سے 24 کروڑ لوگوں کے سنگین اور فوری حل طلب مسائل حل نہیں کیے جا سکتے۔
آپ نے اپنی آنکھوں سے یا کم از کم ٹیلی ویژن پر مداری کا وہ تماشا ضرور دیکھا ہوگا جس میں وہ سات پلیٹوں کو اپنے ہاتھ پہ اس طرح تیزی سے گھماتا ہے کہ پلیٹیں ہوا میں دائرہ کی شکل میں پرواز کرتی ہیں اور ہر لمحہ اُس کے ہاتھ میں صرف ایک پلیٹ ہوتی ہے جسے وہ گردش میں لا کر چھو ڑ دیتا ہے اور اگلی پلیٹ کو پکڑ لیتا ہے۔ مصیبت اُس وقت آتی ہے جب اُس کے ہاتھ سے ایک پلیٹ گر جائے تو پھر سارا تماشا درہم برہم ہو جاتا ہے۔ باقی پلٹیں بھی باری باری گرنے لگتی ہیں۔ ہمارے ہاتھوں سے (مطلب وزارتِ خزانہ کے ہاتھوں سے) ایک پلیٹ دو ماہ پہلے گر جانے والی تھی کہ ہم ڈیفالٹ سے بال بال بچے۔ مگر شاید یہ کرشمہ بار بار نہ ہو سکے۔ دیوالیہ ہو جانے کا مطلب ہے بہت بڑی تباہی اور شدید معاشی بحران۔ حکمران طبقے کو کیا فکر‘ وہ تو پہلے کی طرح چین کی بانسری بجاتا رہے گا۔ متوسط طبقہ بھی کسی نہ کسی طرح اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرے گا (چاہے رشوت ستانی کابازار مزید گرم کرنا پڑے) مگر باقی کے دو تہائی افراد کا کیا بنے گا؟
تعلیم اور علاج کوتو چھوڑیں‘ وہ گندم‘ دال اور چاول کس طرح خریدیں گے؟ بجلی (دُنیا میں سب سے مہنگی بجلی) اور گیس کا بل کس طرح ادا کریں گے؟ جسم و جان کو اکٹھا کس طرح رکھ پائیں گے؟ وہ باوجود اپنی بے گناہی (اربوں ڈالروں کی غیر ملکی امداد سے ایک ڈالر بھی وصول نہ کرنے کے باوجود) اتنی سخت سزا بھگتیں گے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ خدا کرے کالم نگار کا تجزیہ‘ تبصرہ اور اندازہ بالکل غلط ثابت ہو۔ مجھے اپنی پیش گوئی کے غلط نکلنے کی نہ کوئی پروا ہے اور نہ ملال۔ کالم نگار سیالکوٹ اور سرگودھا کے کاشتکاروں کا پوتا ہے۔ اُس کی تمام تر دلی ہمدردی اور وابستگی کروڑوں کسانوں‘مزارعین‘ صنعتی مزدوروں اور کم آمدنی والے افراد سے ہے۔ یگانگت اُن سے جو Frantz Fanon کے الفاظ میں اُفتادگانِ خاک ہیں اور انجیل مقدس کی زبان میں زمین کا نمک۔
کالم نگار اس کالم کو اِس دُعا پر ختم کرتا ہے کہ یارب! 24 ہزار (نالائق اور کم اندیش) حکمرانوں کے جرائم کی سزا ان 24 کروڑ رعایا (جو 75 سالوں میں عوام نہ بن سکے) کو نہ دینا۔ وہ سزا جو سری لنکا‘ لبنان‘ شام اور لیبیا کے عوام کو ملی اور بدستور مل رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں