کہا جا رہا ہے کہ عدلیہ نجات دہندہ کی حیثیت سے ابھری ہے۔ آئیڈیل عدلیہ وہ ہے جو انصاف دہندہ ہو۔ نجات دہندہ سیاسی اور قومی لیڈروں کی صورت میں نمودار ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی ان کی حیثیت نعروں تک محدود ہوتی ہے اور کبھی وہ حقیقی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتے ہیں۔ نجات دہندہ لیڈروں میں‘ قائد اعظمؒ ایک درخشندہ مثال ہیں۔ انہوں نے نہ صرف دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کو وجود پذیر کیا بلکہ ایک مظلوم اور اقلیتی مذہبی کمیونٹی کو‘ ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے اقوام عالم کی صف میں کھڑا کر دیا۔ خدانخواستہ اگر ایسا نہ ہوتا‘ تو بھاری ہندو اکثریت‘ مسلمانوں کو کبھی سماجی اور معاشی انصاف سے فیض یاب نہ ہونے دیتی۔ اس کا تجربہ برصغیر میں صدیوں سے ہو رہا تھا۔ مسلمانوں نے ہر دور میں یہ کوشش کی کہ امن اور انصاف کی بنیاد پر انہیں معاشی حقوق حاصل ہو جائیں لیکن ہندوئوں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ ہر قیمت پر مسلمانوں کو شودروں کے درجے پر لا کر رکھیں گے۔ مجھے اس دور کا سماجی برتائو یاد ہے کہ ہوٹلوں اور مسافر خانوں میں مسلمانوں کے لیے برتن الگ ہوا کرتے تھے۔ عوامی مقامات پر انہیں کھانا پتوں پر رکھ کر دیا جاتا اور ہوٹلوں میں مخصوص برتنوں میں ڈال کر۔ خود قائد اعظمؒ کا تجربہ ہے کہ ان کا ایک سرمایہ دار ہندو دوست جب انہیں دعوت پر بلاتا تو ڈائننگ ٹیبل پر جو برتن قائد اعظمؒ کے استعمال میں آ جاتے انہیں دھلوانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ غرض یہ کہ ہر سطح پر ہندو اپنی نسلی اور تہذیبی برتری کے زعم میں مبتلا رہتے تھے اور مسلمانوں کو انتہائی حقارت کے ساتھ نچلے درجے پر رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ معاشی اور تجارتی امور میں مسلمانوں کو ایک منصوبے کے تحت ترقی سے روکا جاتا۔ ان کے ساتھ تجارت کرتے ہوئے خاص منصوبہ بندی کی جاتی اور ہندو تاجر اور صنعتکار انہیں کاروباری طور پر ہر طریقے سے دبا کر رکھنے کی کوشش کرتے اور جہاں مسلمان کسی خاص صنعت میں آگے بڑھتے ہوئے نظر آنے لگتے تو اچانک فسادات برپا کر کے ان کے کاروباری مراکز کو تباہ کر دیا جاتا تھا۔ آزادی کے بعد مراد آباد اور سورت میں ہونے والے فسادات مذہبی نہیں‘ خالص معاشی بنیادوں پر ہوتے رہے ہیں۔ مراد آباد میں مسلمان‘ دھات کے برتنوں کی صنعت میں کافی ترقی کر گئے تھے اور ان کا مال برآمد ہونے لگا تھا۔ ہندو سرمایہ داروں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے انتہاپسند ہندو تنظیموں کو بھڑکایا اور مراد آباد کے ان صنعتی علاقوں میں فسادات پھیلا دیئے جہاں مسلمانوں کی فیکٹریاں تھیں۔ انہیں باقاعدہ نشانہ بنا کر تباہ و برباد کیا گیا۔ یہ فسادات تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد اس طریقے سے ہوئے کہ مسلمانوں کی وہ صنعت تباہ و برباد ہو کر رہ گئی۔ اسی طرح سورت (گجرات) میں ہیرا تراشنے کا کام عالمی معیار کا ہوا کرتا تھا اور مسلمان کاریگروں کے تراشے ہوئے ہیرے عالمی منڈی میں امتیازی مقام رکھتے تھے لیکن نریندر مودی نے پورے گجرات میں مسلمانوں کو کاروباری اعتبار سے تباہ و برباد کرنے کی ایک مہم چلائی جس میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ وحشت و بربریت کے وہ مظاہرے ہوئے کہ دنیا میں مودی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور آج محض اس لیے اس کے وزیر اعظم بننے کی باتیں ہو رہی ہیں کہ اس نے دیدہ دلیری سے مسلم کشی کے عمل میں شہرت حاصل کی ہے۔ اگر پاکستان وجود میں نہ آتا تو آج ہماری حالت بھی بھارتی مسلمانوں جیسی ہو چکی ہوتی۔ یہ تھا وہ بھیانک مستقبل جس سے ہمیں قائد اعظمؒ نے بچایا۔ مشرقی پاکستان بے شک ہم سے جدا ہو چکا ہے لیکن بنگلہ دیش کے مسلمان اس آزادی سے آج بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں جو انہوں نے تحریک پاکستان کے نتیجے میں حاصل کی تھی۔ مجھے اپنی بات واضح کرنے کے لیے تفصیل میں جانا پڑا تا کہ آپ اندازہ کر سکیں کہ نجات دہندہ کون ہوتا ہے؟ آج پاکستانی قوم اللہ کے فضل و کرم سے آزاد اور خودمختار بھی ہے اور اپنی قسمت بنانے کے مواقع بھی اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ بے شک ہمارے حکمرانوں نے اپنی آزادی گروی رکھی ہوئی ہے لیکن پاکستانی عوام جب چاہیں‘ اپنی مرضی کی حکومت بنا کر‘ اپنی آزادی اور خود مختاری کو مکمل طور سے بحال کر سکتے ہیں۔ یہاں کوئی غیر مسلم اکثریت ہم پر مسلط نہیں۔ ہم کسی غیر کے کاروباری شکنجے میں جکڑے نہیں ہوئے اور نہ ہی عراق اور افغانستان کی طرح غیر ملکی فوجیں ہم پر مسلط ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں کسی نجات دہندہ کی نہیں‘ قوم کو تعمیروترقی کے راستوں پر چلانے والے ایسے عوامی رہنما درکار ہیں‘ جو بیرونی اثرات اور مقامی مفاد پرستوں کی مزاحمت کر کے‘ عوام کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ یہ کام صرف ایک نمائندہ حکومت ہی کر سکتی ہے۔ جو لوگ عدلیہ کو نجات دہندہ کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ نہ صرف بطور ادارہ‘ عدلیہ کے کردار کا صحیح تصور نہیں رکھتے بلکہ وہ اس کے اصل آئینی کردار کو بھی نظرانداز کر رہے ہیں۔ عدلیہ کا اصل کردار انصاف دہندہ کا ہے‘ نہ کہ نجات دہندہ کا۔ کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش میں طاقتور عناصر نے‘ عدلیہ کو بطور نجات دہندہ آگے کر کے‘ اپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی جسے یہاں بنگلہ دیش ماڈل کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن وہ ماڈل جس بری طرح سے فیل ہوا‘ باخبر لوگ اس سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر اس ماڈل کی ابتدائی شکلیں دیکھنا ہوں‘ تو ان دنوں جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے‘ اس کا ایک سرسری سا جائزہ لے کر دیکھ لیں۔ ہرچند پاکستان میں عام انتخابات کا ریکارڈ قابل فخر نہیں۔ الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام جتنے بھی انتخابات منعقد ہوئے‘ ان میں دھاندلی اور بدعنوانیاں کثرت سے کی گئیں مگر ان کا علاج یہ نہیں تھا کہ الیکشن کمیشن کے ہاتھ پائوں باندھ کر ‘اس آئینی ادارے کو کسی دوسرے ادارے کا تابع مہمل بنا کر رکھ دیا جائے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ کیسے ہوا کہ الیکشن کمیشن انتخابات سے پہلے ہی عملی طور پر عدلیہ کا ایک ماتحت ادارہ بن کر رہ گیا۔ جس کا ثبوت الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کا یہ اظہار بے بسی ہے کہ ’’ہم ریٹرننگ افسر کے کام میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کر سکتے کیونکہ اس کا تعلق عدلیہ سے ہے۔‘‘ اصولی اور آئینی طور سے‘ ریٹرننگ افسر الیکشن کمیشن کی ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔ ماضی میں ریٹرننگ افسر‘ انتظامیہ سے لیے جاتے تھے۔ لیکن جب تک وہ الیکشن ڈیوٹی پر ہوتے‘ انہیں الیکشن کمیشن کے ڈسپلن میں رہنا پڑتا تھا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ ریٹرننگ افسر‘ الیکشن کمیشن کے کنٹرول میں نہیں ہیں اور ان کی جو شاندار کارکردگی سامنے آ رہی ہے‘ اس پر میں کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ لیکن اگر نجات دہندگی اسی کا نام ہے کہ ووٹروں کے حق رائے دہی استعمال کرنے سے پہلے ہی امیدواروں کی چھانٹی کر کے ریٹرننگ افسروں کے چنے ہوئے امیدواروں کو میدان میں رہنے کی اجازت دی جائے تو ووٹر کا حق رائے دہی کہاں گیا؟ اصل انتخاب تو ریٹرننگ افسر کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز میاں نوازشریف نے بہت ہی معنی خیز بات کی۔ انہوں نے کہا ’’حکومتوں کے احتساب کا حق صرف عوام کو ہوتا ہے‘‘۔ شاید وہ آتش فشاں پھٹنے کے اس خطرے سے آگاہ ہیں جو پاکستان کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ انہیں خود بھی پرویز مشرف پر بہت غصہ ہے لیکن سیاستدان‘ سیاستدان ہوتا ہے۔ اس کی ذاتی انا‘ اجتماعی انا کا حصہ بن کر تحلیل ہو جاتی ہے۔ کل پیر کو ایک ایسا مقدمہ شروع ہونے والا ہے جس کے نتائج خوفناک بھی ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں جس پہلے ریٹائرڈ چیف آف آرمی سٹاف پر سپریم کورٹ نے فرد جرم عائد کی وہ اردو سپیکنگ ہیں۔ دوسرے ریٹائرڈ آرمی چیف کا تعلق بھی اسی کمیونٹی سے ہے۔ ممکن ہے یہ مماثلت اتفاقیہ ہو۔ لیکن حساس سیاسی فضا میں خصوصاً جب انتخابی مہم زور پکڑ رہی ہو‘ اس طرح کا اتفاقی واقعہ بھی بھس میں چنگاری کا کام کر سکتا ہے۔ میں اس بات کی زیادہ وضاحت نہیں کروں گا۔ مگر اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ریاستی اداروں کو بالادستی کی کشمکش سے بچنا چاہیے۔ نجات دہندہ کا کردار تاریخی طور پر سیاسی رہنمائوں اور منتخب اداروں کے ذمے ہوتا ہے۔ یہ انہی کے پاس رہے تو اچھا ہے۔ عدلیہ‘ آئین کے تحفظ اور انصاف کی فراہمی کی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے اور اسی کردار میں اس کی عظمت ہے۔