1988ء میں محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت بن چکی تھی اور اس میں جہانگیربدر پٹرولیم اور قدرتی وسائل کے وزیرتھے۔ سرور بٹ نے اسلام آباد جانے کا پروگرام بنایا‘ تو مجھے بھی کہا کہ اکٹھے چلتے ہیں۔ ہم فرصت کے اوقات اکٹھے گزارتے تھے۔ سوچا ‘ اسلام آباد ہو آتے ہیں۔بٹ صاحب کی پجارو‘ جسے وہ تاریخی پجارو کہا کرتے تھے‘ اس میں ہم اسلام آباد پہنچے اور ہمیشہ کی طرح میں نے اسلام آباد ہوٹل میں قیام کیا۔ بٹ صاحب کو بھی اسی ہوٹل میں قیام کرنا پڑا۔صبح 9بجے بٹ صاحب کو جہانگیربدر کے گھر ناشتے پر جانا تھا۔ جب ہم وزیرصاحب کی کوٹھی کے قریب پہنچے‘ تو گیٹ کے باہر ہی عوام کا ہجوم دکھائی دیا۔ اندر داخل ہوئے‘ تو اور بھی ہجوم تھا۔ ناشتے کی میز پر گئے‘ تو وہاں بھی ہجوم تھا۔ واپسی پر میں نے بٹ صاحب سے کہا کہ ’’جہانگیربدر بہت ہی عوام دوست وزیر ہے‘ اس کے گھر پہ اتنا ہجوم دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگوں کے کتنے کام کرتا ہو گا؟‘‘ بٹ صاحب نے قہقہ لگایا اور بولے ’’اگر کسی کا کام ہوتا ہو‘ تو اسے یہاں بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کو ایک راز کی بات بتائوں؟ جو وزیرلوگوں کے کام کرتا ہے‘ اس کے گھر پہ رش نہیں رہتا۔ لوگوں کے کام ہو جاتے ہیں اور وہ آرام سے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ رش اس وجہ سے ہے کہ کسی کا بھی کام نہیں ہوتا اور وہ بیچارا دوسرے‘ تیسرے‘ چوتھے‘ پانچویں‘ چھٹے دن تک چکر لگاتا ہے اور جب اسلام آباد میں رہنے کا خرچ ختم ہو جاتا ہے‘ تو روتا دھوتا گھر چلا جاتا ہے۔ بدر صاحب نہ کسی کا کام کرتے ہیں اور نہ کسی کو جواب دیتے ہیں۔ اگلے دن بلاتے رہتے ہیں اور لوگ آتے رہتے ہیں۔ ہمت جواب دے جاتی ہے‘ تو گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ رونق جو آپ نے دیکھی ہے‘ انہی بدنصیبوں کی ہے‘ جو کام ہو جانے کی امید میں اسلام آباد میں رکے ہوئے ہیں۔ جس جس کی جیب خالی ہوتی جائے گی‘ واپس گھر کو روانہ ہوتا جائے گا۔‘‘ جہانگیربدر کے وزیربننے کے بعد‘ ان کی شاندار کارکردگی کا یہ میرا پہلا مشاہدہ تھا۔ جہانگیر بدر کو میں تب سے جانتا ہوں‘ جب وہ ہیلی کالج آف کامرس کے طالب علم اور سٹوڈنٹ لیڈر تھے اور پھر لاکالج میں چلے گئے۔ ان کی وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ جن نامور لوگوں سے الیکشن ہارے‘ ان میں حفیظ خان اور جاوید ہاشمی کے نام بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ہر مشہور آدمی سے شکست کھائی۔ اس زمانے میں وہ اصغر خان کی تحریک استقلال سے وابستہ تھے۔ 1970ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت‘ جہانگیربدرنامی شخص کو نہیں جانتی تھی۔ یعنی مصطفی کھر‘ ڈاکٹر مبشرحسن‘ شیخ محمد رشید ‘ عبدالحفیظ پیرزادہ اور اس درجے کے دوسرے تمام لیڈر جہانگیربدر کے نام سے واقف نہیں تھے۔ اب میں کبھی بدر صاحب کے انٹرویوز سنتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ تو بھٹو صاحب کے بہت ہی قریبی دوست تھے۔بھٹو صاحب سے میری ملاقاتیں روز تو نہیں‘ہفتے دس دن میں ایک دو بار ہو جایا کرتی تھیں۔ لیکن اسلم گورداسپوری تو پورے ملک میں ان کے ساتھ گھوما کرتے تھے۔ شاید وہ بہتر بتا سکیں کہ جہانگیربدر کی بھٹو صاحب سے شناسائی تھی‘ دوستی تھی یا ہمہ وقت رفاقت تھی؟ جہانگیربدر کا دوسرا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے ہمیشہ وفادار رہے ہیں۔ اس ’’وفا‘‘ کا تھوڑا سا مشاہدہ مجھے بھی ہے۔ مولانا کوثر نیازی‘ بھٹو صاحب کی گرفتاری کے بعد پیپلزپارٹی کے انتخابی فنڈ کے انچارج بنا دیئے گئے تھے۔ ضیاء الحق نے انتخابات ملتوی کئے‘ تو مولانا پیپلزپارٹی سے کنی کترانے لگے۔ جب ان سے الیکشن فنڈ کا حساب مانگا گیا‘ تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو خرچ ہو گیا۔ پوچھا گیا کہ کہاں خرچ ہوا؟ تو فرمایا کہ روزنامہ ’’حیات‘‘ پر تھوڑا خرچ ہوتا ہے؟ اتفاق سے روزنامہ ’’حیات‘‘ میں اپنے وسائل سے شائع کیا کرتا تھا۔ جس کا اس دور کی ساری اخباری برادری کو علم ہے۔ دروغ برگردن راوی‘ مجھے تو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مولانا بیگم نصرت بھٹو سے ’’حیات‘‘ کے نام پر فنڈ بھی وصول کرتے رہے ہیں۔ یہ باتیں مجھے کافی عرصے کے بعد معلوم ہوئیں۔ مگر جب مولانا اپنی پیپلزپارٹی بنانے کی تیاریاں کر رہے تھے‘ تو میرا ان سے اختلاف ہو گیا اور میں نے اپنے اخبار میں یہ اعلان کر دیا کہ روزنامہ ’’حیات‘‘ کا مولانا سے مالی امور میں نہ کبھی کوئی تعلق تھا اور نہ ہے۔ یہ ایک کارکن صحافی کی ایک غریبانہ کوشش ہے‘ جس کی اکانومی اخبار کی اشاعت پر منحصر ہے۔ صبح کو اخبار بیچتے تھے اور شام کو اس کے پیسوں سے کاغذ خرید لیا کرتے تھے اور تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر ساتھیوں کی تنخواہوں کے لئے جمع کیا کر تے تھے۔ لیکن یہ تب کا واقعہ ہے‘ جب مولانا اپنی پارٹی بنانے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا۔ ایک روز ہم رانا تاج احمد نون کے گھر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ باہر سے اطلاع آئی ‘ جہانگیربدر مولانا سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے حیرت سے مولانا کی طرف دیکھا۔ انہوں نے مسکرا کر کہا ’’یہ میرے ساتھ آنا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے اسی وقت رخصت لی اور باہر نکل آیا۔ گھر کے خارجی دروازے سے نکل کر دیکھا تو لان میں جہانگیربدر مولانا سے ملاقات کے منتظر تھے۔ مجھے اس وقت ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ ایک دن پیپلزپارٹی کے انتہائی وفادار کارکن ثابت ہوں گے۔ ان کے کوڑوں کی کہانی میں جیل میں سن چکا ہوں۔ ضیاء الحق نے 1978ء کے آغاز میں ہی مجھ پر آنکھ دھر لی تھی۔ انہیں ’’حیات‘‘ کی سرخیاں اور اداریئے سخت تکلیف پہنچاتے تھے۔ اس تکلیف کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی کی عمارت میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ انہوں نے فرمایا تھا ’’نذیرناجی میرے پاس آ کے معافیاں مانگتا ہے اور پھر میرے خلاف گندی گندی سرخیاں لگاتا ہے۔ میں اسے درخت سے الٹا لٹکائوں گا۔‘‘ یہ دھمکی سن کر میں روپوش ہو گیا۔ جب دبائو بڑھا‘ تو میں ان دنوں راولپنڈی میں پروفیسر نذیر کی بیگم کے سکول میں پناہ گزین تھا۔ میں نے لاہور آ کر گرفتاری دینے کا فیصلہ کر لیا۔ سردار سلیم سے کہا کہ وہ میرے ساتھ چل کر مجھے پولیس کے حوالے کریں۔ میں نے ایک ویگن کرائے پر لی اور سردار صاحب کے ساتھ گرفتاری دینے کے لئے لاہور پہنچ گیا۔ آگے کا قصہ وہی ہے کہ میں نے پولیس کو اپنے دفتر بلایا اور گرفتاری دے دی۔ پولیس نے مجھے جیل پہنچا دیا۔ وہیں پر جہانگیر بدر رہ کر گئے تھے۔ میرے کمرے کے عین سامنے والے گرائونڈ میں قیدیوں کو کوڑے لگا کرتے تھے۔ میں نے جتنے بھی قیدیوں کو کوڑے لگتے ہوئے دیکھے‘ ان سب کو سٹریچر پر لے جایا جاتا تھا۔ لیکن جیل کے ساتھیوں نے بتایا کہ جہانگیربدر کو جب کوڑے لگے‘ تو نہ ان کی چیخ نکلی اور نہ انہیں سٹریچرپر لے جایا گیا۔ وہ اطمینان کے ساتھ ٹکٹکی سے اترے اور ٹہلتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جہانگیربدر کے اس شاندار ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے‘ جب میں نے یہ پڑھا کہ وہ بیٹے کو ٹکٹ نہ ملنے پر انتخابی مہم کی قیادت نہیں کر رہے‘ تو واقعی مجھے ہنسی آ گئی۔ کیونکہ انہوں نے پنجاب میں جتنی انتخابی مہمات کی قیادت کی ہے‘ ان میں پیپلزپارٹی کو منہ کی کھانا پڑی۔ جب سے پنجاب کی قیادت جہانگیربدر کے ہاتھ آئی ہے‘ پیپلزپارٹی اس صوبے میں حکومت بنانے کا خواب پورا نہیں کر سکی۔ آج ممکن ہے بدر صاحب اپنے حق میں بہت سے دلائل سامنے لے آئیں۔ لیکن جہانگیربدر صاحب کے دور قیادت میں پیپلزپارٹی کے عروج و زوال کا جائزہ لیا جائے‘ تو دوسرا لفظ غالب نظر آتا ہے۔ وہ پیپلزپارٹی‘ جس نے لاہور کی تمام نشستیں جیتی تھیں‘ آج اپنی ایک پکی نشست کے سوا باقی ہر جگہ شکست کے خطرے سے دوچار ہے۔ میں نے بدر صاحب کے مال و دولت کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ لاہور کا ہر شہری سب کچھ جانتا ہے اور لاہور سے باہر والے بدرصاحب کو جانتے ہی نہیں‘ تو ان کے لئے لکھوں کیا؟ سہیل ضیابٹ مجھے عزیز ہیں۔ ان کے ساجھے دار کے بارے میں بعض سچی باتیں لکھنے پر معذرت چاہتا ہوں۔مسلم لیگ نواز کو بدر صاحب کا احسان مند ہونا چاہیے کہ آج وہ موجودہ مقام پر کھڑی ہے۔