"NNC" (space) message & send to 7575

نوازشریف۔ تیسرے دور کی ابتدا

11 مئی کے انتخابات کئی حوالوں سے یاد رکھے جائیں گے۔ پاکستانی سوسائٹی نے جس پختگی اور وارفتگی سے انتخابی عمل میں حصہ لیا‘ اسے دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ قوم اپنی آزادی کا نصف کے قریب عرصہ‘ جمہوریت سے محرومی اور ابتدائی 9 سال کے سوا‘ سارا عرصہ‘ غیرجمہوری طاقتوں کے زیراقتدار گزارچکی ہے۔ گزشتہ 5 سال کو بھی میں اسی میں شمار کرتا ہوں۔ اس عرصے میں بھی اپنی اپنی طاقتیں واپس لینے والے اداروں نے‘ نئی نئی جوانیوں کی طرح پٹھوں کا استعمال کیا‘ جس کا دبائو سیاسی اور سکیورٹی کے اداروں کے علاوہ تھا۔فیصلہ کن مینڈیٹ نہ ہونے کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حکومت ‘ اتحادیوں کی محتاج تھی۔ انہوں نے اپنی حمایت کے عوض جتنی بے تحاشہ وصولیاں کیں‘ انہیں دیکھ کر پیپلزپارٹی کے کمزور اور لالچی عہدیدار اور وزراء بھی کھل کھیلے اور یہ سارا بوجھ صدر زرداری کو برداشت کرنا پڑا۔ بے نظیرشہید کے خلاف جو کارروائیاں کی گئیں‘ شوہر کی حیثیت میں آصف زرداری کو ان کا بھی نشانہ بننا پڑا اور اس دور کے مقدمات سے مخالفین نے خوب فائدہ اٹھایا اور ایک کیس تو مستقل ان کے پائوں کی زنجیر بنا رہا‘ جس میں اہم کردار‘ ان کے اپنے وزیراعظم کا تھا۔ان تمام مشکلات کے باوجود‘ صدر ز رداری نے جمہوری نظام کو کسی نہ کسی حالت میں برقرار رکھا۔وہ ایسا نہ کر پاتے اگرانہیں اپوزیشن لیڈر نوازشریف کی مضبوط حمایت حاصل نہ ہوتی۔ صدر زرداری کی طرح‘ نوازشریف بھی مشکل پوزیشن میں تھے۔ انہیں ایک طرف بے اختیار اور کرپشن کے الزامات میں گھری ہوئی حکومت کو بچانا تھا اور دوسری طرف اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنی ساکھ بھی قائم رکھنا تھی۔ وہ یہ دہری ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے رہے۔ حالیہ انتخابات کا کریڈٹ انہی دو لیڈروں کو جاتا ہے۔ ہرچند نوعیت مختلف ہے لیکن قربانیاں انہی دونوں کو دینا پڑیں۔ باقی زیادہ تر دودھ پینے والے مجنوں تھے۔ حالیہ انتخابات کو پررونق اور بامعنی بنانے میں 2011ء میں‘ ایک دھماکہ خیز جلسے کے ساتھ از سرنو نمودار ہونے والے سیاستدان‘ عمران خان نے ایک نئے رحجان کی بنیاد رکھی۔ اس ایک جلسے نے قومی سیاست پر اتنے گہرے اثرات ڈالے کہ اس کا رخ ہی بدل گیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے ان اثرات کوایک حساس سیاستدان کی طرح فوراً ہی قبول کرتے ہوئے اپنا ردعمل ظاہر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عمران نے نوجوانوں کے لئے جو نعرہ لگایا تھا‘ اس پر قبضہ جمانے کے لئے پے درپے اقدامات کئے اور جس نئی نسل پر عمران خان کا انحصار تھا‘ اس کے بڑے حصے کو شہبازشریف نے اپنی پارٹی کی طرف مائل کر لیا۔ انتخابی نتائج سے ظاہر ہوا کہ شہبازشریف کی بروقت کوشش اتنی موثر ثابت ہوئی کہ الیکشن میں 35فیصد نوجوانوں کے ووٹ ‘مسلم لیگ (ن) کے حق میں گئے۔ شریف برادران نے انتخابی مہم بھی شاندار منصوبہ بندی کے تحت چلائی اور نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ پیپلزپارٹی کو پورا الیکشن ہی دفاعی پوزیشن میں رہ کر لڑنا پڑا۔ پنجاب میں انتخابی مہم چلانے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔ جس کشتی کو چلانے والے میاں منظوروٹو اور ان جیسے لوگ ہوں‘ اس کا پار لگنا ممکن ہی نہیں تھا۔ سندھ میں ان کے لیڈروں کی بڑی تعداد نے‘ عوام کے ساتھ رسمی طور پر رابطے بہرطور برقرار رکھے لیکن جہاں تک مسائل حل کرنے کا سوال تھا‘ وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ کرپشن کے گہرے سایوں نے‘ اچھے اچھوں کی کارکردگی‘ اگر کوئی تھی‘ تو اس پر بھی پانی پھیر دیا۔ خصوصاً دو سیلابوں کے مارے ہوئے آفت زدہ عوام کی جو بری حالت بنی‘ الیکشن پر اس کے گہرے اثرات پڑے۔ وہ حلقے‘ جہاں کبھی پیپلزپارٹی کو چیلنج درپیش نہیں تھا‘ وہاں بھی یہ مشکلات کا شکار ہوئی اور کئی ایسے حلقے جہاں پیپلزپارٹی کی جیت یقینی ہوا کرتی تھی‘ یا تو ہاتھ سے نکل گئے یا بڑی مشکل سے نشستیں بچائی گئیں۔ ایم کیو ایم انتخابی عمل کی ابتدا میں ہی دبائو کا شکار ہو گئی‘ جب اس کے شدید احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ حلقہ بندیوں میں ردوبدل کیا گیا اور ایم کیو ایم کے استدلال پر کوئی توجہ نہ دی گئی کہ یہ ردوبدل نئی مردم شماری کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کئی متوقع نشستوں سے محروم رہی۔ جس پر فوری ردعمل بڑا شدید تھا اور الطاف حسین نے 12 مئی کی تقریر میں خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ ہرچند یہ ایک اضطراری ردعمل تھا لیکن کئی بار اشتعال کی حالت میں کہی گئی باتیں بھی سچی ہوتی ہیں۔ جب کوئی خیال سیاسی زندگی میں داخل ہو جائے‘ تو اس کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ شروع میں یہ ایک کیچوے کی طرح ہوتا ہے‘ نظرانداز کرنے پر سانپ بنتا جاتا ہے اور اگر اسے کچلنے کی کوشش کی جائے‘ تو اژدہا بن جاتا ہے۔ بعض لوگوں کو مشرقی پاکستان کی مثال دینے پر بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن مشرقی پاکستان ہمارے مشترکہ ماضی کا حصہ ہے اور مشرقی پاکستانیوں کی شکایت بھی طاقت کے اسی مرکز سے تھی‘ جو آج بھی اپنی جگہ موجود ہے اور جو علاقے طاقت کے مرکز سے دور ہیں‘ وہ تاریخی طور پر حساس ہوتے ہیں اور اگر ان میں یہ تاثر پیدا ہو جائے کہ انہیں نظرانداز کیا جا رہا ہے‘ تو پھر ان کے اندر احساس محرومی کا پرو ان چڑھنا یقینی ہو جاتا ہے۔ دہشت گردوں نے جس طرح انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی دھمکی دی تھی‘ ہرچند مجموعی طور پر وہ اس میں ناکام رہے۔ لیکن اس دھمکی کے اثرات سے پنجاب نسبتاً محفوظ رہا‘ جس پر دیگر صوبوں میں یہ آواز اٹھی کہ الیکشن صرف پنجاب میں ہو رہا ہے۔ حالانکہ دہشت گردوں نے جو کارروائیاں کیں‘ ان کی وجہ صرف دستیاب سہولتیں تھیں۔ کراچی اور خیبرپختونخوا کے اندر دہشت گردوں کے مراکز موجود ہیں۔ وہ آسانی سے اپنے اہداف تک پہنچتے رہے۔ جبکہ پنجاب تک پہنچنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کو ان کا مقصد پورا کرنے سے بڑی محنت اور تیاریوں کے ساتھ روکا اور وہ کوئی بھی اتنی بڑی کارروائی نہ کر سکے‘ جس سے وہ الیکشن ملتوی کرا سکتے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سیاسی زندگی میں کوئی بھی خیال داخل ہو جائے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش نہ ہو‘ تو پھر وہ سانپ بنتا جاتا ہے اور کچلنے کی کوشش پر اژدہا بن جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں جگتوفرنٹ کی منتخب صوبائی حکومت توڑنے پر احساس محرومی کا جو خیال پیدا ہوا‘ وہ 70ء کے الیکشن میں سانپ بن کر پھنکارا‘ جسے تاریخ میں 6نکات سے یاد کیا جاتا ہے اور جب اسے کچلنے کی کوشش کی گئی‘ تو یہ اژدہا بن گیا۔نوازشریف بطور ایک پنجابی وزیراعظم دونوں مرتبہ اس معاملے پر خصوصی توجہ دیتے رہے اور چھوٹے صوبوں کا اعتماد حاصل کرنے میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔اس بار انہیں زیادہ توجہ دینا پڑے گی۔ انہوں نے اپنے دوسرے دوراقتدار میں خوداعتمادی کا کچھ زیادہ ہی مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اپنے ساتھ ایوان صدر میں بھی پنجاب کی ایک شخصیت کو لا بٹھایا تھا۔ اس بار احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ مناسب ہو گا کہ وہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی‘ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور گورنروں کا انتخاب کرتے ہوئے چھوٹے صوبوں کے اطمینان کا خیال رکھیں۔ وفاقی وزارت تشکیل دیتے ہوئے بھی اسی چیز کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ یہاں ایک پرانی یاد دہرائوں گا۔ نوازشریف نے 2008ء میں انتخابی مہم شروع کرنے سے کچھ پہلے رائیونڈ میں سینئر اخبارنویسوں کو غیررسمی بات چیت کے لئے جمع کیا تھا۔ حاضرین کو دعوت کلام دینے کی ذمہ داری جگنو محسن کے پاس تھی۔ اچانک انہوں نے مجھے اظہارخیال کی دعوت دی۔ جس پر میں نے واضح طور سے کہا کہ اس مرتبہ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں نہیں مل سکیں گی۔ لیکن جب امریکہ افغانستان سے رخت سفر باندھے گا‘ تو ان کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔ تب ان کا وزیراعظم بننا ناگزیر ہو گا۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب کو یہ بات یاد ہو۔ بہرحال مجھے اپنا اندازہ درست نکلنے پر یقینا خوشی ہے۔ ایسے مواقع ایک صحافی کی زندگی میں کم ہی آتے ہیں۔ اس سے پہلے‘ نوازشریف نے دونوں مرتبہ‘ جب وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا‘ تو میں ان کے ساتھ تھا۔ اب کے ایسا نہیں ہو سکے گا۔ میں طبی وجوہ کی بنا پر بڑی تقریبات میں جانا ہی چھوڑ چکا ہوں۔ آخر میں ایک دلچسپ حقیقت کہ نوازشریف کی کامیابی کا سندیسہ سب سے پہلے کراچی سٹاک ایکسچینج نے دے دیا تھا اور ان پر اعتماد کا اشارہ آج دے دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں