وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد‘ اپنے پہلے خطاب میں نوازشریف نے کہا کہ ’’میں خیالی جنت نہیں دکھائوں گا۔ مسائل کاچیلنج قبول کرتا ہوں۔ ڈرون حملوں کا باب بند ہونا چاہیے۔ ‘‘ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کے پاس خیالی جنت دکھانے کی گنجائش ہی نہیں۔امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان جینیفرساکی نے وزیراعظم کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ’’پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی استعداد بڑھانے پر بات چیت جاری رہے گی۔ ‘‘ وزیراعظم کی تقریر کا بنیادی نکتہ یعنی ڈرون حملے بند کرانے کی کوشش اور امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لئے استعداد بڑھانے کا مطالبہ دو متضاد چیزیں ہیں۔اسی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے لئے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹیں موجود ہیں؟ پاکستان اپنی موجودہ بحرانی حالت میں امریکہ پر کتنا دبائو ڈال سکتا ہے؟ یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ پرانی کہاوت ہی دہرانا پڑے گی’’تنخواہ بڑھائو‘ ورنہ … اسی تنخواہ پر کام کروں گا۔‘‘ ڈرون حملے بند کرانے کا مسئلہ نوازشریف کی انتخابی مہم میں سرفہرست تھا۔ مگر جیسے ہی انہیں بھاری کامیابی ملی اور ان کا وزیراعظم بننا یقینی ہو گیا‘ تو امریکہ کی طرف سے جواب سامنے آ گیا۔ وہ تھا ایک اور ڈرون حملہ‘ جس میں تحریک طالبان پاکستان کا ایک بڑا لیڈر اور اس کے دو قریبی ساتھی ہلاک ہوئے۔ اس عملی جواب کے بعد یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ اگر ہم نے ڈرون حملوں پر امریکہ کے ساتھ بات کی‘ تو اس کا جواب کیا ہو گا؟ دوسری طرف عمران خان یہ ٹھان کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا‘ وہ نوازحکومت پر ڈرون حملے رکوانے کے لئے دبائو بڑھاتے جائیں گے۔ امریکہ کی سردمہری اور گھریلو محاذ پر شدید دبائو‘ آئندہ کے منظر میں شدید حدت پیدا کرے گا۔ مسائل کی طرف دیکھیں تو وہ بھیانک نظر آ رہے ہیں۔ ملک کی مالی حالت مزید سبسڈیز دینے کے قابل نہیں اور عوام میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ بڑا دھچکا یا جھٹکا بجلی سے لگنے والا ہے۔ جب اس کے ریٹ بڑھانا پڑیں گے اور بجلی کے بلوں میں صارفین بھاری رقوم دے کر بھی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا رہیں گے‘ تو بے چینی کی لہر کو روکنا آسان نہیں ہو گا۔ موجودہ صورتحال میں ہی پرتشدد مظاہرے ہوتے آ رہے ہیں۔ انتخابات کے بعد عوام نے کچھ آسانیاں پیدا ہونے کی جو امیدیں لگا رکھی ہیں‘ وہ چند روز سے زیادہ ساتھ نہیں دے پائیں گی اور جب ایک ایک کر کے امیدیں دم توڑیں گی‘ تو مایوسی میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔ یہ مایوسی سیاست میں کس انداز کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے؟ اس کے بارے میں اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ حکومت کے پاس آمدنی میں اضافہ کرنے کے ذرائع موجود ہیں مگر انہیں بروئے کار لانا مشکل نظر آتا ہے۔ اس وقت صرف 7لاکھ 68ہزار پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ 18کروڑ کی آبادی میں اعشاریہ57فیصد ہے۔ اول تو یہی لوگ پورا ٹیکس نہیں دیتے اور جو ممکنہ ٹیکس دہندگان گزشتہ حکومت نے تلاش کئے تھے‘ وہ انہیں کوشش کے باوجود ٹیکس کے دائرے میں نہیں لا سکی۔ نوازشریف خود بھی صنعتکار ہیں اور ان کی جماعت بھی تاجروں اور صنعتکاروں کی حمایت پر انحصار کرتی ہے۔ جب وہ ٹیکس کا دائرہ بڑھائے گی‘ تو یقینی طور پر مسلم لیگ (ن) پر دبائو پڑنے کا امکان ہے۔ اگر حکومت ٹیکس کا دائرہ بڑھاتی ہے‘ تو اسے اپنی حمایت کرنے والے ایک طاقتور حلقے کی طرف سے دبائو کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ایسا نہیں کرتی‘ تو ٹیکس کی آمدنی میں اضافے کا ہدف پورا نہیں ہو گا اوریہی حالت رہی‘ تو آئی ایم ایف سے کسی طرح کی ریلیف نہیں مل سکے گی۔حالات کا تقاضا ہے کہ پاکستان فوری طور پر بیرونی ذرائع سے قرضوں کی صورت میں زرمبادلہ حاصل کرے۔ کوئی دوسرا مالیاتی ادارہ ہمیں قرض دینے پر تیار نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس کی کڑی شرائط پوری کرنا پاکستانی معیشت کے لئے ممکن نہیں۔ بحرانوں میں گھرے ہوئے ملکوں کو صرف آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور وہ جو شرائط لگاتا ہے‘ انہیں پورا کر کے‘ بحرانوں میں گھرے ملک‘ مزید بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نوازشریف اس مشکل صورتحال میں اپنے لئے کیسے راستہ نکالتے ہیں؟ یہ بھی ان کا امتحان ہو گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر اب صرف 7ہفتے کے درآمدی بل کے برابر رہ گئے ہیں۔ گویا ہمیں انہی چند دنوں کے دوران مزید زرمبادلہ حاصل کرنے کے ذرائع ڈھونڈنا ہوں گے۔ اگر کہیںسے قرض بھی مانگا جائے‘ تو چند مہینوں کا عرصہ معاملہ طے کرنے کے لئے درکار ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اتنے دن بھی نہیں ہوں گے۔ اتنی جلدی صرف آئی ایم ایف ہی فنڈز فراہم کر سکتا ہے۔ یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔ فوج اور نوازشریف کے مابین ماضی کی یادیں زیادہ خوشگوار نہیں۔ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز‘ایک بہت بڑا سیاسی بوجھ ہے۔ بدقسمت ہیں پاکستانی عوام ‘ جن میں اپنے ہی قاتلوں کے خلاف اتفاق نہیں پایا جاتا۔ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا حصہ‘ ان قاتلوں سے ہمدردی رکھتا ہے۔ حیلے بہانے سے ان کے حق میں کوئی نہ کوئی حجت ڈھونڈ لی جاتی ہے۔ ڈرون حملوں کی حجت سے تو ہمارے دو بڑے قومی لیڈر بھی متاثر ہیں۔ ڈرون حملوں کے خلاف عوام کا ردعمل اس قدر شدید نہیں جتنا اسے بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دہشت گردی ‘ ڈرون حملوں کے جواب میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے ‘ جو صرف پاکستان میں ہی بولا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی اس وقت سے موجود ہے‘ جب ڈرون کی پروازیں ہی اس خطے میں شروع نہیں ہوئی تھیں۔ ابتدا میں ان حملوں کی خود قبائلیوں نے تائید کی تھی۔ کیونکہ جو دہشت گرد ان حملوں کا نشانہ بن رہے تھے‘ قبائلی خود ان سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ وہ زبردستی ان کے علاقوں میں پناہ لیتے اور احتجاج کرنے پر‘ انہیں بھی تشدد کا نشانہ بناتے۔لیکن دہشت گردوں سے ہمدردی رکھنے والے سنگ دل لوگوں نے بھولے بھالے قبائلیوں پر بھی دبائو ڈال دیا۔ اب وہ دہشت گردوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ نوازشریف نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز دے کر ‘ اسے انتخابی مہم کا حصہ تو بنا دیا لیکن نوازشریف کی کامیابی کا اعلان ہوتے ہی دہشت گردوں نے مزید کارروائیاں کر کے جواب بھی پیش کر دیا اور ڈرون حملے کے فوراً ہی بعد مذاکرات کی پیش کش بھی واپس لے لی گئی۔ اب ان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں جو یکطرفہ سرگرمیاں شروع کی گئی تھیں‘ اب وہ بھی دم توڑ چکی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مولانا سمیع الحق کے بارے میں‘ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ وہ طالبان کی نئی نسل کے ساتھ خاص روابط نہیں رکھتے۔ وقت نے ثابت کیا کہ میرا خیال درست تھا۔ مولانا سمیع الحق مذاکرات کے سلسلے میں معمولی پیش رفت بھی نہیں کر سکے۔ اول تو اب مذاکرات کے معاملے کو ختم ہی جانیے۔ لیکن اگر نوازشریف نے اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے اس سمت میں سکیورٹی فورسز کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی قدم اٹھایا‘ تو مشکل پیدا ہو جائے گی۔ وزارت عظمیٰ کا چارج لینے کے بعد ویسے بھی ان کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اس نازک مسئلے پر پاک فوج کی رائے ضرور لیں۔ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی بھی معاملہ فوج کو شامل کئے بغیر سرے نہیں چڑھ سکتا۔ پرویزمشرف کا مسئلہ بھی دشواریاں پیدا کر سکتا ہے۔ بہتر ہوتا اگر نوازشریف کے وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے پرویزمشرف کو بیرون ملک بھیج دیا جاتا۔ وقت گزر چکا ہے۔ اب پرویزمشرف کی موجودگی‘ نوازشریف کے لئے مسئلہ پیدا کرے گی۔ اس معاملے میں فوج کے 70 کے قریب اعلیٰ افسران احتجاج ریکارڈ کرا چکے ہیں۔ اپنے سابق چیف آف آرمی سٹاف کو عدلیہ کے ہاتھوں سزا یافتہ کی حیثیت میں دیکھنا‘فوج کو پسند نہیں آئے گا۔ ہرچند آئین کچھ اور کہتا ہے لیکن اداروں کا اپنا بھی ایک مزاج ہوا کرتا ہے۔ محمود اچکزئی کی بات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ جو بات انہوں نے کی ہے‘ ان کے مزاج کے مطابق نہیں۔انہیں یہ کہنا پڑا ‘ تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی کوئی اہم وجہ ضرور ہے۔