"NNC" (space) message & send to 7575

دکھ بھرے لمحوں میں مسرتیں

ایک7 سالہ بچی بسرابعہ نے تہمینہ درانی کو جو کچھ سکھایا‘ وہ انہوں نے اپنے نئے انگریزی ناول\"Happy Things in Sorrow Times\" میں خوبصورتی سے لکھ کر ہمیں دکھی لمحوں میں دمکتی مسرتوں کا حصے دار بنایا ہے۔ یہ عنوان صرف تہمینہ درانی ہی تخلیق کر سکتی ہیں۔ ان کی اپنی زندگی دکھوں سے عبارت ہے اور دکھی رہ کر‘ مسرتوں کے پھول کھلانا‘ ان کی جیون کتھاکا حسن ہے۔ انہیں جب بھی دکھ جھیلنا پڑے‘ انہوں نے جواب میں رنگ بکھیر کے اور اپنے گھر کو سجاوٹوں اور خوبصورتی کے رنگوں سے خوش زیب بنا کر‘ دکھوں کو شکست دی۔ غلام مصطفی کھر کے ساتھ ان کی شادی نے‘ جس عظیم المیے کو تخلیق کی نمو سے‘ ایک فنی شاہکار کی صورت میں تیار کیا‘ وہ آج بھی ’’مائی فیوڈل لارڈ‘‘ کے عنوان سے دنیا بھر میں مقبول ہے۔یہ ایک ایسی دلگداز خودنوشت ہے جس کا 39زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ ہمارے جاگیردارانہ طرززندگی کا وہ نمونہ پیش کرتی ہے‘ جس میں عورت کو انسانی وقار کے اہل تصور نہیں کیا جاتا۔ اسے ایک کمترمخلوق سمجھا جاتا ہے اور یہی حال بچوں کا بھی ہے۔ جب کسی بھی شادی شدہ جوڑے میں باہمی کشیدگی پیدا ہوتی ہے‘ تو اس کشمکش کا اصل شکار بچے بنتے ہیں۔ تہمینہ درانی نے یہ المیہ اپنی ذات پر جھیلا ہوا ہے اور پھر اسی المیے کو ایک وسیع کینوس پر انہوں نے افغانستان میں دیکھا۔ اس بار ہیروئن خود تہمینہ کی بجائے 7سالہ بچی بسرابعہ ہے۔ یہ بے سہارا بچی‘ دیکھ بھال کے لئے چند ماہ ان کی سپردگی میں رہی۔ تہمینہ کی ذات میں لازوال محبت کے خزانوں میں بسرابعہ کو جو حصہ ملا‘ جواب میں اس نے تہمینہ کو پشتو زبان سکھانے کے علاوہ‘ ایک خوبصورت ناول کا تحفہ بھی دے دیا۔ لیکن تہمینہ کو یہ ناول بنا بنایا نہیں ملا۔ برسوں تک تہمینہ کے شعور و جذبات کے بطن میں‘ یہ خاموشی سے پروان چڑھتا رہا۔ اس دوران تہمینہ اپنی زندگی کے ان گنت حزن و مسرت کے برسوں سے گزرتی رہی۔ اس دوران جلاوطنی کا طویل عرصہ بھی ان پر گزرا۔ یہ ناول بے موسمی بارش کی طرح‘ کبھی کبھار گرنے والی بوندوں کی شکل میں‘ صفحہ قرطاس پر گرتا رہا۔ کبھی عنوان کی شکل میں ایک نوٹ بک پر درج ہوا۔ کبھی کوئی یادداشت ‘ لفظوںکا روپ ملنے پر کاغذ کے دامن میں جاگزین ہو گئی اور کبھی کوئی منظر تصویر بن کر رنگوں کے لباس میں کاغذ پر براجمان ہو گیا۔ اس دوران تہمینہ نے تین کتابیں لکھ ڈالیں۔ ان میں ’’عبدالستار ایدھی کی آپ بیتی‘‘، ’’اے مررٹو دی بلائنڈ‘‘ اور تیسری کتاب \"Blasphemy\" شامل ہیں۔ آخری کتاب میں جعلی پیروں اور مذہب کا استحصال کرنے والے مافیا کو ذریعہ اظہار بناکر ‘ معاشرے کی کڑوی سچائیاں دکھائی گئی ہیں۔ یہ خوبصورت کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ مکمل ہوتی رہیں۔ منظرعام پر آتی رہیں۔ دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی رہیں۔ لوگ پڑھتے رہے۔ تہمینہ دادوتحسین کے پھول جمع کر کے‘ اپنے لئے خوشگوار یادوں کے گلدستے بناتی رہیں۔ لیکن بسرابعہ کی کہانی‘ شعور کی نچلی تہوں میںسرکتی سرسراتی‘ اپنے وجود کا تانا بانا تیار کرتی رہی۔ یہ کہانی تہمینہ کے وجود میں اتنی گہرائی میں جا کر ‘ وجود پذیر کیوں ہوئی؟ اس کا ایک پس منظر ہے۔ تہمینہ کا تعلق پٹھان خاندان سے ہے۔ ان کے والد شاکراللہ درانی سٹیٹ بنک کے گورنر تھے۔ شاکر اللہ درانی کا سلسلہ نسب تھوڑا آگے جا کر احمد شاہ ابدالی سے جا ملتا ہے اور احمد شاہ ابدالی کے والد محمد زمان درانی کے نام پر‘ شاکر اللہ درانی کی والدہ کے دادا کا نام رکھا گیا تھا۔ ناول میں مصنفہ نے اپنے خاندان کا ذکر تفصیل سے اس لئے کیا کہ ناول کا جغرافیائی ‘ تہذیبی‘ تاریخی اور نسلی جغرافیہ‘ قارئین کے ذہن نشین رہے۔ افغانستان ‘ تہمینہ کے خون میں ہے۔ وہاں کے رہنے والے ‘ اس کی نسلی برادری ہیں۔ افغانستان کی ایک بیٹی‘ اپنے وطن اور ہم وطنوں کے دکھوں اور سکھوں کو کس طرح دیکھتی ہے؟ ناول میں جابجا اس کا احساس ابھرتا ہے۔ تہمینہ کے لئے افغانستان اسی طرح ہے‘ جس طرح ایک بیٹی کے لئے اس کا میکہ۔ وہ اسی طرح اپنے گھر یعنی افغانستان اور اپنے خاندان یعنی اہل افغانستان کی طرف دیکھتی ہے‘ جیسے گھرسے رخصت ہو جانے والی بچی اپنے میکے کو یاد کرتی ہے۔ یہ ناول خوشی‘ غم‘ جوش و جذبے‘ حوصلے‘ ہارجیت اور بچھڑنے کے دکھ اپنے لفظوں میں سمیٹے ہوئے ہے۔ ناول کا بنیادی موضوع بچے ہیں‘ جنہیں 30سالہ سوویت افغان جنگ‘ خانہ جنگی اور پھر اتحادی جارحیت کے دوران ان گنت مصائب اور تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ اس دوران علاقے میں انتہاپسندی کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ اپنے ناول میں تہمینہ درانی جو نتیجہ اخذ کرتی ہیں‘ وہ یہ ہے کہ طویل مدتی جنگیں کسی ملک یا فوج کے خلاف نہیں لڑی جاتیں۔ یہ سب سے زیادہ بچوں کی زندگی اور ان کے مستقبل کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ بسرابعہ کے علاوہ ناول کا دوسرا مرکزی کردار شیرخان ہے‘ جو آخر میں اپنے والدین کے ساتھ پاکستان چلا جاتا ہے۔ کہانی کا مرکزی حصہ سوویت قبضے کے دوران ہونے والی جنگ کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد طالبان آتے ہیں‘ جب یہ بدنصیب ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس خانہ جنگی میں تیسرا کردار حور ‘جو بسرابعہ کی طرح ہی ایک بچی ہے‘ اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہے۔ مصنفہ کا تخلیقی ذہن اور حساس دل ‘ افغانستان میں خونریزی کے المیے کو کسی تاریخ دان‘ مبصر یا تجزیہ کار کی طرح نہیں دیکھتا‘ جو برسرجنگ فریقوں کی فتح وشکست پر نظر رکھتے ہیں۔ وہ جنگ کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہیں مگرصرف ان تباہ کاریوں کو‘ جو شہروں کی عمارتیں‘ جلنے اور مسمار ہونے کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ لڑنے والوں کی لاشوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں یا پھر جنگی سازوسامان کے ناکارہ ہونے پر تصاویر کی شکل میں محفوظ کی جاتی ہیں۔ اتنے طیارے گر گئے۔ اتنے ہیلی کاپٹر تباہ ہو گئے۔ اسلحہ کا ذخیرہ فلاں علاقہ فتح کرنے والے کے قبضے میں آ گیا۔ عام آدمی سے لے کر‘ بڑے سے بڑے تجزیہ کار کے لئے جنگ یہی ہوتی ہے۔ لیکن بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کی مالک تہمینہ درانی‘جنگ کو روسیوں‘ افغان مجاہدین یا طالبان کے نفع و نقصان کی صورت میں نہیں دیکھتیں۔وہ کہتی ہیں کہ اس جنگ نے سب سے زیادہ بچوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔افغان بچوں کے دلوں کو زخمی کیا ہے اور جب امریکی آئے‘ تو انہوں نے بھی تباہ حال بچوں کی حالت بہتر بنانے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ سب نے افغان بچوں کو لاوارث چھوڑے رکھا۔ تہمینہ اپنے دیباچے میں ناول لکھنے کا مقصد یوں بیان کرتی ہیں’’دنیا بھر کے لیڈروں نے جنگ زدہ افغان بچوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔ جبکہ مدرسہ سسٹم نے انہیں پناہ دی‘ کھانا دیا اور کپڑے دیئے۔ لہٰذا ملا کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ اس نے خالی جوتوں میں پیر ڈال دیئے۔ اسی طرح پہلے ہی سے ستم زدہ اور بے یارومددگار بچے کو الزام دینا بھی ممکن نہیں۔ جس کی برین واشنگ کر کے‘ اسے ہتھیار پکڑا دیئے گئے۔ ‘‘ ناول بتاتا ہے کہ سپرپاور اور ملا‘ دونوں نے مل کر اپنے اپنے انداز سے افغانستان میں‘ انتہاپسندی کو فروغ دیا اور بچوں کے ہاتھوں میں بندوق دے دی۔ مذہب اور بندوق کا اشتراک تباہ کن ثابت ہوا۔ مصنفہ کا خیال ہے کہ ڈرون حملے جاری رہے‘ تو وہ صرف شعلوں کو ہوا دیں گے۔ وہ جنگ کی آگ کبھی نہیں بجھا سکتے۔ تہمینہ یہ بھی سمجھتی ہیں کہ عالمی رہنمائوں نے طویل مدتی جنگ کے نتائج کو نہیں دیکھا۔ طویل جنگ کی وجہ سے ‘ افغانستان میں وارلارڈز‘ انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی نئی نسل پیدا ہو گئی۔ جنگ سے تباہ حال افغانستان میں ہیروئن بسرابعہ کا سفر جاری رہتا ہے۔ اسے شیرخان مل چکا۔ لیکن اب وہ طالبان میں شامل ہے۔ بسرابعہ اب بھی امن پسند افغانستان کی منتظر ہے‘ جہاں سبھی پیار اور محبت سے زندگی گزاریں گے۔تہمینہ کی اپنی زندگی میں ‘ ان کی نسلی خصوصیات کے باعث جو تنوع اور نشیب و فراز آئے‘ ان سب کی جھلکیاں واقعات اور کرداروں میں جابجا نظر آتی ہیں۔ جرات‘ بہادری‘ استقامت اور اختیارکردہ راستے پر گامزن رہنے کا عمل۔ یہ سب کچھ اس ناول میں جابجا نظر آتا ہے۔افغانستان‘ تہمینہ کے وجود میں ہے اور تہمینہ کا وجود ‘ افغانستان میں ہے۔اس نئے ناول کی رونمائی کل 29جون کو اسلام آباد میں ہو رہی ہے۔ میں اس تقریب میں شامل ہونا چاہتا تھا۔لیکن پیشہ ورانہ اور طبی مجبوریوں کی بنا پر مجھے کافی عرصے تک لاہور ہی میں رہنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں