"NNC" (space) message & send to 7575

جھلا گلی گلی رُلدا پھرے

پاکستان میں ایک مجذوب شخص‘ اپنی قوم کو آنے والی صدیوں میں توانائی کی دولت سے مالامال کرنے کے خبط میں‘ دردر بھٹکتا پھر رہا ہے۔ کوئی اس کی نہیں سنتا۔ کوئی اسے اپنے نیک مشن میں آگے بڑھنے کے وسائل مہیا نہیں کرتا۔ کبھی وہ وزیراعظم سے ملتا ہے۔ کبھی محکمے کے وزیر کے دفتر میں حاضری دیتا ہے۔کبھی قومی اسمبلی کے اراکین سے ملتا ہے۔ کبھی بیوروکریٹس کو ان کے پیشہ ورانہ فرائض یاد دلاتا ہے۔ گزشتہ روز وہ اپنا دکھڑا لے کر سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہوا۔وہاں بھی اپنی فریاد سنائی۔ لیکن اس کا واسطہ بہرے کانوں‘ اندھی آنکھوں‘ مردہ ضمیروں‘ بکے ہوئے ذہنوںاور بیرونی مافیائوں کے شکنجے میں آئے ہوئے اداروں سے پڑتا ہے۔ اس شخص کا نام ڈاکٹرثمرمبارک مند ہے۔ جس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو حقیقت کا رنگ دیا۔ اس کی اپنی کوئی فیکٹری نہیں‘ جس کی خاطر وہ توانائی کا محتاج ہو۔ اس کے کھیت نہیں‘ جن کے لئے اسے ٹیوب ویل چلانے کی ضرورت پڑے۔ وہ سرمایہ دار نہیں‘ جو بجلی کے کارخانے لگانے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اس کی ضروریات محدود ہیں۔ خواہشات بے لگام نہیں۔ اس نے کالج ہی کے زمانے میں طے کر لیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اسی مقصد کے لئے اس نے مطلوبہ مضامین پڑھے‘ سائنس کے اسی شعبے میں ڈگری لی اور اسی شعبے سے وابستہ ہوا۔ سائنس کے علم میں آگے بڑھتے بڑھتے‘ وہ ایٹمی توانائی کے خزانوں تک پہنچ گیا اور توانائی کی سائنس میں اس نے دیگر ذرائع کے بارے میں بھی بہت کچھ جان لیا۔ ان میں سے ایک شعبہ انڈرگرائونڈ کول گیسیفکیشن کا ہے۔ جب پاکستان کے اوقات کار کا نصف سے زیادہ حصہ تاریکیوں میں ڈوبتا نظر آیا‘ تو اسے اپنی معیشت خطرے میں دکھائی دی۔ اس نے جائزہ لیاکہ اگر پاکستان اسی طرح اپنے مقامی وسائل کو چھوڑتے ہوئے‘ توانائی کے لئے درآمدی تیل پر انحصار بڑھاتا گیا‘ تو ایک دن وہ بجلی خریدنے کے قابل نہیں رہ جائے گا اور اس کا ملک تاریکیوں میں ڈوب کر اپنی معیشت کو تباہ کر بیٹھے گا۔ کارخانے بند ہو جائیں گے۔ مارکیٹیںویران ہو جائیں گی۔ پہیے رک جائیں گے۔ غذائیں کھیتوں سے گھروں تک نہیں پہنچیں گی۔ زندگی جامد ہو کر رہ جائے گی اور ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔ ہمارے پاس ایک لاکھ میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے آبی ذرائع موجود ہیں۔ مگر ہماری انتظامیہ کے اندر بیٹھے ہوئے آئل کمپنیوں کے غلام‘ کوئی منصوبہ پروان نہیں چڑھنے دیتے۔ جب بھی کوئی بڑا ڈیم بنانے کی کوشش کی جاتی ہے‘ تو وہ اسے سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کا مستقبل بیچ کر‘ ذاتی دولت میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں اور ہماری معیشت کی رگوں کو ملنے والے خون یعنی توانائی کی قلت پیدا کر رہے ہیں اور جتنی توانائی میسر آتی ہے‘ اسے اتنا مہنگا کر رہے ہیں کہ ہمارے گھروں کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی اور کارخانوں کی مصنوعات اتنی مہنگی ہوتی جا رہی ہیں کہ ہم نہ تو اپنے بازاروں میں بیرونی مصنوعات کا مقابلہ کرنے کے قابل رہیں گے اور نہ بیرونی منڈیوں میں ہماری مصنوعات کوئی خریدے گا۔ آبی منصوبے زیرتعمیر ضرور ہیں لیکن آنے والے 10سالوں میں وہ ملک میں بجلی کی تمام ضرورتیں پوری نہیں کر سکیں گے۔ تھرمل بجلی پھر بھی پیدا کرنی پڑے گی اور بجلی کا بندوبست کرنے والے ادارے‘ ہماری آبی بجلی کو بھی تھرمل کی مہنگی پیداوار بیچنے کے لئے مزید مہنگا کرتے رہیں گے۔ اس وقت بھی ہمارے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری‘ آج بھی جب بجلی کا بل ادا کرتا ہے‘ تو وہ نیلم جہلم پراجیکٹ کی تعمیر کے لئے ہر مہینے اچھی خاصی رقم ادا کرتا ہے۔ ایک لحاظ سے پاکستان میں بجلی کا بل دینے والا ہر صارف نیلم جہلم منصوبے کی تعمیر کے لئے پیسہ دے کر اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ لیکن اسے شیئر نہیں ملیں گے اور بجلی پیدا ہو گی‘ تو اس کی وہ پوری قیمت ادا کرے گا اور اس پر ستم یہ کہ انتظامیہ کے کرپٹ لوگوں کی طرف سے مہنگی کی گئی یہ بجلی خریدے گا۔ پاکستان کا بھلا اور بچائو‘ اسی میں ہے کہ اپنی ضروریات کی تمام بجلی ملکی ذرائع سے پیدا کرے اور اس کے پیداواری اخراجات کے مطابق بجلی خریدے۔ مگر ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا جا رہا۔ ہماری انتظامیہ کے اندر بیٹھے ہوئے‘ بیرونی سرمائے کے ایجنٹ‘ ہمیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں۔ ہماری حکومتیں‘ ہمارے منتخب نمائندے‘ اس مجذوب کی بات سننے‘ سمجھنے اور ماننے پر تیار نہیں ہوتے‘ جو اپنے ملک کو اندھیروں سے بچانے کا خواہش مند ہے۔ میں ڈاکٹر ثمرمبارک مند کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ وہ 3برس سے دیواروں کے ساتھ باتیں کر رہے ہیں اور تھکنے میں نہیں آتے۔ جہاں سے بھی انہیں امید ہوتی ہے کہ ان کی بات کو سنا اور سمجھا جائے گا‘ وہ وہیں پر جا پہنچتے ہیں۔ مگر آگے پھر ایک دیوار ہوتی ہے۔ وہ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک بھٹکتے پھر رہے ہیں مگر ان کی سننے والا کوئی نہیں۔ وہ بتاتے پھر رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں تھر کا کوئلہ‘ بجلی پیدا کرنے کے لئے دنیا میں بہترین ہے۔ وہ التجائیں کر رہے ہیں کہ خدا کے لئے اپنے ملک کو سستی اور وافر بجلی سے مت محروم کرو۔ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے اپنے عوام کو محروم مت رکھو۔ وہ ڈاکوئوں اور لٹیروں کی پھیلائی ہوئی ‘اس کہانی کو مثالوں اور دلائل سے جھٹلاتے ہیں کہ تھر کا کوئلہ‘ بجلی بنانے کے قابل نہیں ۔ بیرونی کمپنیاں بھاری رقوم دے کر ’’ماہرین‘‘ سے مخالفانہ بیانات دلواتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اپنا مقدمہ لے کر میڈیا میں جاتے ہیں۔ دانشوروں سے بات کرتے ہیں۔ طمع اور حرص میں پتھر بنے ہوئے لوگوں کے سامنے دلائل دیتے ہیںکہ دنیا کے 40ملک جن میںروس‘ چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں گزشتہ 30برس سے انڈرگرائونڈ کول گیسیفکیشن کر رہے ہیں۔ انہیں 9سینٹ فی واٹ بجلی مل رہی ہے۔ جبکہ کوئلے کے پلانٹوں سے چلنے والے بجلی گھر سے ایک ڈالر 6سینٹ فی واٹ بجلی ملتی ہے۔ سولر انرجی 3ڈالر فی واٹ پڑتی ہے۔تھرکول سے بنائی گئی ہماری بجلی 4روپے فی یونٹ پڑے گی۔ جبکہ تھرمل بجلی گھروں سے 18سے 19 روپے فی یونٹ پڑتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب عملی مظاہرہ کر کے انڈرگرائونڈ گیسیفکیشن کر کے دکھا چکے ہیں۔ برطانیہ اور چین کے ماہرین نے‘ ڈاکٹر صاحب کے بنائے ہوئے پراجیکٹ کا ڈیزائن اور اس کی کارکردگی دیکھنے کے بعد ‘ ان کے دعوئوں کی تصدیق کی ہے۔ چینی ماہرین نے 2ہفتے پراجیکٹ کے مقام پر قیام کر کے‘ یہ رائے دی کہ پاکستان ہزاروں میگاواٹ بجلی تھرکول سے پیدا کر سکتا ہے۔ ایک دوسرے چینی پروفیسر نے تبصرہ کیا کہ یہاں دنیا کی سستی ترین بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ انڈرگرائونڈ گیسیفکیشن سے ہم بجلی ہی نہیں‘ بہت سی مصنوعات پیدا کر سکتے ہیں۔ جن میں ہوائی جہازوں کا تیل‘ ڈیزل‘ موم‘ کار کا فیول‘ فرٹیلائزر‘ گھریلواستعمال کی گیس ‘ خوراک کو محفوظ کرنے والے پلانٹس کا ایندھن‘ ریانز اور بے شمار دیگر کیمیکلز بنائے جا سکتے ہیں۔ شہروں کو فراہم ہونے والی گیس کی قیمت سوئی گیس کی موجودہ قیمت سے آدھی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب کو پاور پراجیکٹ لگانے کے لئے صرف 8.8ارب روپے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس سے ایک سو میگاواٹ بجلی کی پیداوار ہونا تھی۔ یہ رقم 2010ء میں منظور ہوئی۔ اگر انہیں پروگرام کے مطابق ادائی ہوتی رہتی‘ تو اس وقت 100میگاواٹ کا پاور پراجیکٹ پیداوار دے رہا ہوتا۔ لیکن اگر ایسا ہو جاتا‘ تو ان تیل کمپنیوں کا کیا بنتا؟ جو ہم سے اربوں ڈالر کما رہی ہیں۔ ان بجلی کمپنیوں کا کیا بنتا؟ جو ہم سے کھربوں ڈالر اینٹھ رہی ہیں۔ اور انتظامیہ کے اندر بیٹھے ہوئے ان کارندوں کا کیا بنتا؟ جو اربوں روپے کی کرپشن کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ پاکستان کو تھر سے بجلی نہیں ملے گی۔ بجلی ضرور ملے گی لیکن جب ہماری انتظامیہ کے اندر بیٹھے ہوئے بیرونی کمپنیوں کے ایجنٹ ‘یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ تھرکول سے ہم خود بجلی پیدا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ بہتر ہو گا کہ وہاں بیرونی کمپنیوں کو ان کی شرائط کے مطابق بجلی پیدا کرنے کے اجازت نامے دے دیئے جائیں۔ بیرونی کمپنیوں کی شرط یہ ہے کہ انہیں 50فیصد کا حصے دار بنایا جائے اور پیداوار کے انتظامات ان کے کنٹرول میں ہوں۔ یعنی دوسرا سعودی عرب! جہاں امریکی کمپنی اونے پونے تیل خریدتی رہی۔ خود ہی اپنے جہازوں میں بھرتی رہی اور خود ہی یہ بتاتی رہی کہ اس نے کتنا تیل لیا؟ یعنی کمپنی اگر چاہتی تو 200 بیرل تیل کو کھاتوں میں 100 بیرل لکھ دیتی۔ یہی ہمارے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ یہاں کی بجلی کمپنیاں بھی 50فیصد کی حصے دار بنیں گی۔ 200میگاواٹ کی بجلی پیدا کر کے‘ یہیں پر چوری فروخت کریں گی۔ پاکستان میں ایسا کر دینا ذرا مشکل نہیں اور ایک سو میگاواٹ بتائیں گی۔ اور اس طرح سے 50فیصد کی حصے داری میں وہ تین گنا بجلی لے جا کر ایک گنا ہمارے حساب میں ڈالیں گی اور پیداواری اخراجات بھی تین گنا بتائیں گی۔ہماری عدالت عظمیٰ‘ جو بڑے بڑے فراڈ پکڑ رہی ہے‘ وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں جو بجلی کے کھیل میں ہو رہا ہے۔ میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استدعا کروں گا کہ خدا کے لئے‘ وہ اپنی طاقت کا استعمال‘ پاکستان کو اندھیروں سے نکالنے کے لئے کریں اور مستقبل میں لوٹ مار کے جو بڑے بڑے منصوبے بنائے جا رہے ہیں‘ ان سب کو بند کرنے کا حکم جاری کر کے‘ حکومت کو پابند کریں کہ وہ پاکستانی ملکیت میں بجلی پیدا کرنے کے لئے مطلوبہ سرمایہ مہیا کرے اور اپنی بجلی پاکستان خود پیدا کرے۔ یہ بدبخت اس کی تقسیم میں بھی اپنا حصہ نکالتے ہیں تو نکالتے رہیں‘ کم ازکم بیرونی کمپنیوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی سہولتیں تو مہیا نہ کریں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں