"NNC" (space) message & send to 7575

چھوٹے اور کمزور مفادات

کراچی ایک زمانے میں واقعی عروس البلاد تھا۔ اس شہر کی ریتلی مٹی‘ ہوا میں غبار بن کر نہیں پھیلتی۔ جوتا پالش کر کے نکلتے‘ تو شہر میں پیدل گھومنے کے بعد ‘ گھر لوٹنے پر وہ اسی طرح چمک رہا ہوتا ۔ ہر وقت صاف ستھری ہوا سرن سرن چلتی رہتی۔ ٹریفک‘ گدھا اور اونٹ گاڑیوں کے باوجود مسلسل رواں دواں نظر آتا۔ بسوں میں بیٹھنے کے لئے لوگ قطاروں میں کھڑے ہوتے۔ ہر بس کے اگلے حصے میں خواتین کی نشستیں ہوتیں اور پچھلا حصہ مردوں کے لئے مخصوص رہتا۔ خواتین اپنی نشستوں پر بیٹھنے کے لئے ترتیب سے‘ بس میں داخل ہوتیں اور نشستیں پُر ہوتے ہی ڈرائیور اشارے سے منع کر دیتا‘ تو قطار وہیں کی وہیں رک جاتی۔ پچھلے حصے میں یہی ڈیوٹی کنڈیکٹر ادا کرتا اور جیسے ہی نشستیں پُر ہوتیں‘ وہ اشارے سے بتا دیتا اور قطار میں کھڑے لوگ وہیں رک کر دوسری بس کا انتظار کرنے لگتے۔ غنڈہ گردی‘ بدمعاشی اور لاقانونیت کا اس شہر میں گزر نہیں تھا۔ گلی محلے میں چھوٹے چھوٹے بدمعاش ضرور پائے جاتے تھے۔ مگر ان کا سب سے بڑا ہتھیار چاقو ہوا کرتا۔ پورے شہر حتیٰ کہ پختون آبادیوں میں بھی اسلحہ نظر نہیں آتا تھا۔ ہر مذہب اور رنگ و نسل کے لوگ امن و امان سے زندگی گزارتے۔ خواتین اپنے اپنے کاموں کے لئے جاتیں اور شام کو عزت و آبرو کے ساتھ گھروں میں واپس آ جاتیں۔ یہی حال طالبات کا ہوتا۔ صدر‘ کراچی کا سب سے خوبصورت اور صاف ستھرا علاقہ ہوا کرتا تھا۔ برنس روڈ کی جن گلیوں میں آج گزرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ وہاں تجاوزات کا نام و نشان نہیں تھا۔ سبزیاں اور گھریلو استعمال کی عام اشیا فروخت کرنے والے ریڑھیوں پر گلیوں میں سے گزرتے اور اوپر کے فلیٹوں میں رہنے والی خواتین پرچی پر مطلوبہ سودے کا نام اور وزن لکھ کر ساتھ پیسے رکھ دیتیں۔ پھیری والا اس ٹوکری میں مطلوبہ سودا رکھ دیتا اور خواتین اسے اوپر کھینچ لیا کرتیں۔ صدر کے فلیٹس میں متوسط اور خوشحال طبقوں کے لوگ رہا کرتے۔ جن میں ہر مذہب اور کلچر کی شناختیں اور لباس نظر آتے۔ ایک طرف میمن اور بوہرا خواتین کے لمبے لمبے چوغہ نما فراک ہوتے‘ تو دوسری طرف یورپی طرز کے سکرٹ بھی نظر آتے۔ کسی کو کسی کے روپ رنگ اور حلیے سے غرض نہیں ہوتی تھی۔ کراچی کی پولیس انتہائی مہذب اور ڈسپلن کی پابند تھی۔ اسے واقعی شہریوں کا مددگار کہا جا سکتا تھا۔ بڑا شہر ہونے کے باوجود یہ بہت سستا شہر تھا۔ غریب سے غریب آدمی بھی اپنی بساط کے مطابق خرچ کر کے عمدہ کھانا کھا لیا کرتا تھا۔ فٹ پاتھوں سے لے کر اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں تک مے خانے موجود تھے۔ رقص گاہیں رات گئے تک آباد رہتیں۔ لیکن کہیں بھی دنگا فساد دیکھنے میں نہیں آتا تھا۔ رکشے اور ٹیکسیاں‘ میٹر پر چلا کرتیں۔ ڈرائیور‘ سواری کو دیکھتے ہی میٹر گرا دیتا اور اس کے بیٹھنے کے بعد پوچھا کرتا کہ کہاں جانا ہے؟ مجھے یہ منظر دیکھنے کا موقع نہیں ملا لیکن الٰہی بخش سومرو بتاتے ہیں کہ صدر کے پورے علاقے میں‘ اتوار کے روز سڑکوں کو صفائی کے محلول سے دھویا جاتا تھا۔ آج جب کراچی کے حالات سنتا ہوں‘ تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کتنا خوبصورت اور شاندار شہر اب کیا بن گیا ہے؟ کوئی عورت‘ مرد اور بچہ لاقانونیت سے محفوظ نہیں۔ بسوں میں ایک مسلح شخص زبردستی گھستا ہے اور مسافروں کی جیبیں خالی کرانا شروع کر دیتا ہے۔ عورت مرد کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں غنڈہ ٹیکس کا رواج ضرور ہوتا تھا لیکن دوچار واقعات کی اطلاع ملنے پر پولیس حرکت میں آ جاتی اور غنڈہ صاحب ساتھیوں سمیت دھر لئے جاتے۔ اب یہ ٹیکس‘ بھتہ بن چکا ہے اور بڑی مارکیٹوں سے نکل کر چھوٹی مارکیٹوں تک پھیلتے پھیلتے گلی محلے کی دکانوں تک آ پہنچا ہے۔ بسوں‘ ویگنوں اور ٹیکسیوں تک سے بھتے لئے جا رہے ہیں اور سب سے بڑی بھتہ منڈی کراچی پورٹ سے شہر آنے والی سڑک پر واقع ہے۔ اس سڑک پر لیاری گینگ قائم ہو چکے ہیں۔ ان کے درمیان بھتہ جنگیں ہوتی رہتی ہیں۔ وہاں سے اندرون ملک جانے والے ٹرکوں اور کنٹینرز پر بھتے وصول کئے جاتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق بھتے میں وصول کی جانے والی رقم دو ڈھائی ارب روپے سالانہ کے قریب ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی رقم کارندے نہیںکھا سکتے۔ اتنی بڑی رقم ہضم کرنے کے لئے لمبے ہاتھوں کی ضرورت ہے اور یہ لمبے ہاتھ پولیس‘ سکیورٹی کے دیگر اداروں‘ بیوروکریسی اور سیاسی جماعتوں کے بغیر نہیںملتے۔کراچی کی بھتہ وار اب ہر طرف پھیل گئی ہے۔ ہر بھتہ خور گروپ کسی نہ کسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے اور بعض تو سیاسی کارکن اور عہدے دار بھی بن چکے ہیں۔ جیسے ہی کسی بھتہ خور یا غنڈے کو پکڑا جاتا ہے‘ اس کی جماعت فوراً احتجاج شروع کر دیتی ہے کہ اس کے کارکنوں سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے۔ بھتہ خوروں کی سرپرستی کرنے والی ہر جماعت کسی نہ کسی دور میں برسراقتدار رہ چکی ہے۔ اس لئے بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں میں ان کا اثرورسوخ ہوتا ہے اور یہ شکایت عام پائی جاتی ہے کہ ملزم کو تھانے بعد میں لایا جاتا ہے اور اس کے سرپرست کا فون پہلے آ چکا ہوتا ہے۔ کراچی میں سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی کے دوران اسلحہ اور اغوا کا استعمال عام ہو گیا ہے۔ مخالف فریق کے سرگرم اور طاقتور کارکنوں اور عہدیداروں کو اغوا کر کے اذیت دینا عام بات ہے۔ افغان جنگ کے بعد اس شہر میں نئے آنے والوں کے ساتھ جدید اسلحہ اور تربیت بھی کراچی میں داخل ہو گئے۔ یہ نوواردان افغانی تھے۔ ان کے ساتھ افغانستان کی جنگ میں حصہ لینے والے پنجابی ’’مجاہدین‘‘ بھی آ ملے اور اب کراچی مختلف دہشت گرد تنظیموں کی پناہ گاہ بھی بن چکا ہے۔ ان میں فاٹا اور افغانستان کے اندربرسرپیکار متعدد طالبان تنظیموں کے کارندے بھی شامل ہیں۔ وہ کھلم کھلا اپنے اپنے جہاد کے لئے چندے جمع کرتے ہیں۔ زکوٰۃ اور صدقات کی رقوم لیتے ہیں اور جہاں سے انہیں کچھ نہیں ملتا‘ وہاں اغوا اور دہشت گردی سے کام لیا جاتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق کراچی سے اغوا کئے گئے سینکڑوں افراد اس وقت فاٹا میں قید ہیں۔ ان کے خاندان والے سودا کر کے‘ انہیں واپس لے جاتے ہیں اور یہ تجارت کافی وسیع ہو چکی ہے۔ طویل عرصے تک لاقانونیت جاری رہنے کی وجہ سے اب کراچی کے اندر لوٹ مار اور لاقانونیت کے اڈے اور ٹھکانے قائم ہو چکے ہیں۔ اسلحہ فروشی‘ منشیات کا کاروبار‘ اغوا کا دھندہ‘ بھتہ خوری‘ کار چوری‘ غرض اس طرح کی تمام مجرمانہ کارروائیوں کا باقاعدہ ایک نظام قائم ہو چکا ہے۔ ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جن بہادر افسروں نے اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کئے‘ انہیں دہشت گردوں نے چن چن کر نشانہ بنایا اور خاندانوں کے خاندان تباہ کر دیئے۔ اس انتقامی کارروائی کا نتیجہ یہ ہے کہ اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد ‘ مجرموں سے ٹکر لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ کراچی میں فوج بلانے کے حالیہ مطالبے پر گرماگرم بحث ہو رہی ہے۔ لیکن میں اس میں کودنا نہیں چاہتا۔ مجھے معلوم ہے کہ موجودہ نظام کے اندر کراچی کو پُرامن شہر بنا کر معمول کی زندگی بحال نہیں کی جا سکتی۔ جرائم پیشہ گروہوں کے مفادات کی جڑیں بہت گہری اور ان کے تعلقات کا جال اسلام آباد تک پھیلا ہوا ہے۔ مجھے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے جذبے کا بہت احترام ہے۔ لیکن جس مشینری کے ذریعے وہ کراچی کوجرائم سے پاک کرنا چاہتے ہیں‘ وہ زنگ آلود ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے وسائل اور مالی حالت‘ ان لوگوں کے مقابلے میں انتہائی خستہ ہے‘ جن سے مقابلہ کرنے کے لئے انہیں میدان میں اتارنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ان کے ہتھیار اور کمیونیکیشن کا نظام ناقص ہے۔ ٹرانسپورٹ کی حالت اچھی نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پیچھے جو ریاستی طاقت ہونا چاہیے‘ وہ بھی موجود نہیں۔ اگر یہ سب کچھ ہوتا‘ تو سپریم کورٹ کا ایک حکم ہی کافی تھا‘ جو قریباً دو ڈھائی سال پہلے دیا گیا تھا۔ لیکن آج بھی چیف جسٹس آف پاکستان کو کہنا پڑتا ہے کہ ’’حالات قابو میں ہیں‘ تو مجھے چاکیواڑہ اور کھارادر میں جا کر دکھائیں۔‘‘ میری یہ بات بہت سے لوگوں کو مجذوب کی بڑ لگے گی۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان سے کرپشن اور لاقانونیت کے خاتمے کی مہم‘ اسلام آباد میں کامیابی سے چلے گی‘ تو باقی ملک ٹھیک ہو سکتا ہے۔ورنہ صرف شاخیں کاٹی جائیں گی‘ تو نئی اگتی جائیں گی۔ کراچی میں امن اور قانون کی پامالی میں بڑے بڑے اندرونی اور بیرونی مفادات کی دلچسپی ہے اور بحالی کی خواہش رکھنے والے مفادات بہت چھوٹے اور کمزور ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں