پی آئی اے یونین کے دونوں گروپوں‘ تمام بیوروکریٹس‘ تمام سربراہوں‘ اعلیٰ افسروں اور مختلف ادوار میں رہنے والے ڈائریکٹروں‘ سب کو مبارکباد کہ آخر کار‘ وہ ایک عظیم قومی ادارے کو انجام تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ یہ ایئرلائنز ‘ ایئرمارشل اصغر اور ایئرمارشل نور خان جیسے قومی ہیروز کی دیانت ‘ محنت اور مہارت کے طفیل‘ اپنے دور کی کامیاب ترین ایئرلائنز میں جگہ پا چکی تھی۔ اس کا سلوگن ’’باکمال لوگ‘ لاجواب پرواز‘‘ عین اس کے شایان شان تھا اور کیوں نہ ہوتا؟ لکھنے والے فیض تھے۔یہ ہماری تاریخ ‘ تہذیب‘ تمدن اور روایات کی عکاسی کیا کرتی تھی۔ ہوائی اڈوں پر عظیم مصوروں کے شہ پارے آویزاں ہوتے۔ ہر پرواز میں ‘ پاکستان کی روایتی میزبانی کے نمونے دیکھنے کو ملتے۔ ایئرہوسٹسیں اور دوسرا عملہ خوش اخلاقی اور شائستگی کا بہترین نمونہ پیش کیا کرتے۔ ہوائی اڈوں کی انتظارگاہوں اور جہازوں کے اندر انتہائی صاف ستھرا اورمہکتا ہوا ماحول دیکھنے میں آتا۔ پابندی اوقات میں یہ ایئرلانز بہترین شہرت کی مالک تھی۔بچوں اور مسافروں کو طرح طرح کے تحائف پیش کئے جاتے‘ جن میں ڈائریاں‘ بال پوائنٹس‘ قلم‘ ٹائیاں اور اسی طرح کی دوسری قیمتی چیزیں شامل ہوتیں۔ پی آئی اے کے شہری دفتر سے ہوائی اڈے تک ٹرانسپورٹ مہیا کی جاتی اور اسی طرح پروازوں کی آمد پر ہوائی اڈے سے شہری دفتر تک مسافروں کو پہنچایا جاتا اور خدمات کے اس اعلیٰ ترین معیار کے باوجود پی آئی اے انتہائی نفع بخش ادارہ تھا۔ یہ ادارہ سرکاری انتظام کے تحت ہی قائم ہوا‘ اسی کے تحت ترقی پائی اور نمایاں مقام حاصل کیا۔ پی آئی اے کے منافعے کا یہ حال تھا کہ وہ مسافروں کی خوشنودی ‘ انتظارگاہوں کی آرائش و زیبائش اور دیکھ بھال اور پروازوں کے اندر عمدہ سہولتوں میں اضافے کر کے بھی بھاری سرمایہ بچا لیتی۔ حتیٰ کہ ایک بار اسے فالتو سرمایہ خرچ کرنے کے لئے نیویارک کا روزویلٹ ہوٹل خریدنا پڑا۔پی آئی اے دوسرے اداروں کی طرح نہیں تھا‘ جنہیں نجی شعبے سے چھین کر سرکاری شعبے میں لیا گیا اور وہ تباہی کا شکار ہوئے۔ پی آئی اے سرکاری انتظام میں ہی معرض وجود میں آیا۔ اسی کے تحت ترقی کی اور پھر اسی انتظام کے اندر موجودہ حال کو پہنچا۔ بڑے دکھ سے لکھنا پڑتا ہے کہ پی آئی اے کی تباہی کا آغاز‘ ایوب خان کے آخری دور میں ہو گیا تھا اور یحییٰ خان کے زمانے میں تباہی کے راستے پر چل پڑا تھا۔ یہ بات مجھے اس وجہ سے یاد ہے کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد‘ جب بھٹو صاحب اقتدار میں آئے‘ تو انہوں نے اپنی ایک تقریر میں پی آئی اے کی تباہی کاذکر کیا تھا اور اسی تقریر میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ’’میں رفیق سہگل سے کہوں گا کہ وہ آگے بڑھ کر اس ادارے کو سنبھالیں اور تباہی سے بچائیں۔‘‘ ان دنوں پی ٹی وی کا شاہکار پروگرام ’’ضیامحی الدین شو‘‘ مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہا تھا۔ جب یہ شو کراچی سے لاہور آیا‘ اسے لکھنے کی ذمہ داری میرے سپرد ہوئی۔ اسی شو میں ہم نے رفیق سہگل صاحب کو مدعو کیا۔ وہاں ضیا نے ان سے پوچھا کہ ’’کیا آپ پی آئی اے کی ذمہ داریاں سنبھالنے کو تیار ہیں؟‘‘ رفیق سہگل کے جواب کا ایک ایک لفظ مجھے یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا ’’وطن کی خدمت کے لئے مجھے سڑک پر جھاڑو بھی دینا پڑے‘ تو میں گریز نہیں کروں گا۔‘‘ رفیق سہگل نے واقعی پی آئی اے کی ڈوبتی کشتی کو سنبھالا دیا۔ مگر ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ان کے خاندان کی منافع بخش صنعتیںبھی حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیں اور انہیں اپنی صنعتی و کاروباری صلاحیتیں آزمانے کے لئے بیرون ملک جانا پڑا۔ یحییٰ خان کے دور میں ہی پی آئی اے کی یونین نے زور پکڑنا شروع کر دیا تھا۔ وہ سیاسی نظریات کی تقسیم اور کشمکش کا دور تھا۔ ایک طرف مارشل لا کے زیرسایہ جماعت اسلامی سرگرم تھی اور دوسری طرف بائیں بازو کے لیبر لیڈراپنی جولانیاں دکھا رہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے امریکہ اور سوویت یونین کی جنگ کا فیصلہ پی آئی اے کے اندر ہو گا۔ ایک یونین جماعت اسلامی کے زیرِاثر سرگرم تھی اور دوسری پیپلزپارٹی کی حمایت یافتہ۔ جماعت اسلامی کی سرپرست حکومت آتی‘ تو وہ اپنے کارکنوں کو دھڑادھڑا بھرتی کرا دیتی اور پیپلزپارٹی کی حکومت آتی‘ تو وہ بھی ایسا ہی کرتی۔ یوں پی آئی اے کی یونین سیاسی کشمکش کا اکھاڑہ بن گئی۔ پی آئی اے کا ہیڈکوارٹر کراچی میں تھا۔ یہاں میں ایک اور راز بھی بتاتا چلوں کہ کراچی عالمی پروازوں کا مرکزبننے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عالمی پروازوں کا بہترین جنکشن لاہور میں بنتا ہے۔ کوئی بھی بیرونی پرواز‘ کسی بھی طرف سے آئے‘ پاکستان میں اسے موزوں ترین جگہ لاہور ملتی ہے۔ مشرق سے آنے والی پروازیں یہاں سے یورپ کی طرف نکلیں‘ تو ان کا راستہ کم ہوتا ہے اور مغرب سے آنے والی پروازیں یہاںاتر کے دہلی یا مشرق میں واقع دیگر ملکوں کو جائیں‘ تو بھی لاہور ہی موزوں مقام ہے۔ ابتدا میں چونکہ ورکشاپ اور ہوابازی کی فنی سہولتیں کراچی میں مہیا کی گئیں‘ اس لئے عالمی پروازوں کا مرکز کراچی بن گیا‘ جو جغرافیائی اعتبار سے غیرموزوں تھا اور جسے استعمال کرنے کے لئے عالمی پروازوں کو زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ 80ء کے عشرے میں مہاجروں کی ایک متحرک اور منظم تحریک کھڑی ہو گئی۔ اس نے بھی پی آئی اے میں اپنے حامیوں کی یونین منظم کی‘ جو اتنی طاقتور ہو گئی کہ اس نے پی آئی اے کی بیشتر تنصیبات اور سہولتوں کے مراکز میں‘ ہر اضافہ کراچی کے لئے مختص کرا لیا اور یوں عالمی پروازوں کے قدرتی مرکز لاہور کے اندر سہولتوں کی فراہمی میں اضافے کا کوئی منصوبہ کامیاب نہ ہونے دیا۔ پی آئی اے کی افرادی قوت کا بڑا حصہ کراچی میں مرتکز ہونے کی وجہ سے ‘ پی آئی اے کی یونینیں تین بڑی سیاسی طاقتوںکے کنٹرول میں آ گئیں۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی کئی حکومتیں آئیں‘ کئی گئیں۔ ہر ایک نے پی آئی اے کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ اپنی طرف سے بہترین منتظمین کو ادارے کا انتظام چلانے پر مامور کیا۔ لیکن یونینوں کی طاقت کے سامنے کسی کا بس نہ چلا۔ پی آئی اے جو بھی نفع کماتی‘ وہ یونین کے مطالبات کی نذر ہو جاتا۔ ہوا بازی کا شمار سروس انڈسٹری میں ہوتا ہے ۔ اس انڈسٹری میں کارکردگی کا معیار انتہائی عمدہ‘ پابندی اوقات انتہائی سختی سے اور مسافروں کی خدمت کا جذبہ بے حد بھرپور ہونا چاہیے۔ لیکن طاقتور یونینوں نے اس ادارے کے وسائل کو اپنی سہولتوں اور مراعات کا ذمہ دار بنا دیا اور سروس انڈسٹری کے لئے درکار ذمہ داریوں کو فراموش کر دیا۔ پی آئی اے میں خدمات کا معیار گرتا چلا گیا۔ کرپشن معمول بن گئی۔ عملے کی ڈیوٹیاں‘ یونین لیڈروں کی مرضی سے لگنے لگیں۔ توسیع وترقی کے منصوبوں میں بھی انہی کا زور چلنے لگا۔ عالمی پروازوں کے لئے سہولتیں فراہم کرنے کا مرکز‘ لاہور منتقل کرنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی گئی۔ غرض یہ کہ ملک میں جس طرح سیاست اور سرکاری محکموں کے حالات بگڑے‘ اس سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پی آئی اے کے حالات بگڑتے چلے گئے۔ اگر میں یہ لکھوں تو شاید غلط نہ ہو کہ پاکستان کے دیگر بڑے اداروں کی طرح پی آئی اے بھی وہ بدنصیب ادارہ ہے‘ جس کے اصل مالکوں یعنی یونین والوں نے انڈا کھانے پر‘ مرغی کھا جانے کو ترجیح دی۔اگرٹریڈ یونین کی روایات کے مطابق پی آئی اے کی یونین بھی پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رہتی‘ تو یہ ادارہ بچ سکتا تھا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جس سیاسی جماعت کا بس چلا‘ اس نے اندھادھند اپنے کارکنوں کی بھرتی کرا دی اور جب بھی کسی انتظامیہ نے نااہلی کا خاتمہ کرنے کے لئے چھانٹی کی کوشش کی‘ تو اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا۔ نوازشریف تیسری مرتبہ اقتدار میں آئے‘ تو انہوں نے سب سے پہلے پی آئی اے کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش کی۔ہوابازی کی انٹرنیشنل مارکیٹ کی جانی پہچانی شخصیت شجاعت عظیم کو سربراہ بنا کر سوچا کہ وہ ذاتی اثرورسوخ سے اس ڈوبتے ہوئے ادارے کو بچا لیں گے۔ انہوں نے ابتدائی جائزے لے کر کام شروع کرنے کی تیاریاں بھی کر لیں اور پی آئی اے‘ جسے کوئی لیز پر بھی جہاز دینے کو تیار نہیں‘ اس کے لئے 10 نئے طیاروں کی فراہمی کا انتظام کر لیا۔ لیکن دُہری شہریت کامسئلہ بنا کر ان کے خلاف مہم چلا دی گئی۔ حالانکہ کاروباری معاملے سے دُہری شہریت کا کیا تعلق؟ شجاعت عظیم انتظامی اصلاحات کے ذریعے پی آئی اے کو سنبھالنا چاہتے تھے لیکن وہ مفاد پرست گروہوں کی مہم برداشت نہ کر سکے۔ جو شخص خدمت کی نیت سے کوئی ذمہ داری اٹھانا چاہتا ہو اور اس پر تہمتیں لگنے لگیں‘ تو وہ یہی کرتا ہے‘ جو شجاعت عظیم نے کیا اور جب کوئی مریض دوا لینے سے انکار کر دے‘ تو وہ بھی یہی کرتا ہے‘ جو وزیراعظم نے کیا۔ حکومتیں کب تک پی آئی اے کے خسارے پورے کرتی رہتیں؟ یہ ایئرلائنز ہماری تاریخ کا ایک حصہ تھی۔ پرانے اور توانا پاکستان کی نشانی تھی۔ اسے زندہ رکھنے کے ذمہ داروں نے ہی اسے موت کے راستے پر ڈالے رکھا اور اب انجام یہ ہوا کہ 26فیصد حصص خرید کر دوبئی کا ایک شخص انتظامیہ پر اپنا کنٹرول قائم کر لے گااور پھر اسے قطرایئرلائنز کے سپرد کردے گا اور یہی پی آئی اے‘ اپنے ہی وسائل کے ساتھ‘ غیرملکیوں کو بھاری منافع دینے لگے گی۔ اللہ اللہ خیرسلا۔