پچھلی صدی کے نامور امریکی ناول و افسانہ نگار‘ ایف سکاٹ فٹزجیرالڈنے اعلیٰ ترین ذہن کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا: \"The test of a first-rate intelligence is the ability to hold two opposed ideas in the mind at the same time, and still retain the ability to function,\" (اعلیٰ ترین ذہانت کی آزمائش اس کی یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت دو متضاد خیالات ذہن میں رکھتے ہوئے بھی کام کرنے کی اہلیت برقرار رکھے)۔ موجودہ امریکی صدر اوباما نے اس امتیازی صلاحیت کا زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ وہ جب بھی کسی موضوع پر غور شروع کرتے ہیں‘ تودو یا زیادہ خیالات کو‘ بیک وقت عملی جامہ پہنانے کی راہیں سوچتے اور اپنے عوام کو ان میں شریک کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ایک خیال کا بہترین حصہ یا دونوں خیالات کا تھوڑا تھوڑا حصہ ملا کر کوئی حل نکالتے ہیں‘ تو عموماً بہترین نتیجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال شام کا معاملہ ہے۔ جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں شام میں کیا نتائج حاصل کرنا ہیں؟ تو انہوں نے بیک وقت براہ راست فوجی کارروائی اور مفاہمت کے دو متضاد خیالات پر عملدرآمد کی مشقیں شروع کر دیں۔ ایک طرف جنگ کا خوف پیدا کیا اور دوسری طرف جنگ کے بغیر مسئلہ حل کرنے کے امکانات اجاگر کئے اور پھر دھیرج سے مذاکرات کے امکان کو حقیقت میں بدل کر جنگ سے بچ نکلنے کی امید پیدا کر دی۔دونوں کی دونوں آپشنز اب بھی دستیاب ہیں لیکن آپشن وہی استعمال کریں گے‘ جو ان کے ملک اور متعلقہ خطے میں قابل قبول ہونے کے بہترین امکانات رکھتی ہو۔ میں جب فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والے پاکستانی حکمرانوں کی طرف دیکھتا ہوں‘ تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے‘ ان کے پاس بیک وقت‘ دو قابل عمل آپشنز موجود نہیں ہوتے۔ عموماً ان کے پاس ایک ہی خیال ہوتا ہے اور وہ اسی خیال کے مختلف پہلوئوںپر عملدرآمد کی کشمکش میں رہتے ہیں اور آخر تک کسی کار آمد اور واضح آپشن سے محروم رہتے ہیں۔ کشمیر سے لے کر مشرقی پاکستان تک ‘ آپ آزمائش کے جس دور کا بھی جائزہ لیں‘ آپ کو ہمارے حکمرانوں کے دامن خیال میں‘ ایک ہی آپشن براجمان نظر آتاہے اور متبادلات میں اسی کی چھان بین کر کے‘ وہ یہ سمجھتے رہتے ہیں کہ ہم نے متعدد آپشنز کا جائزہ لے لیا۔ جبکہ اصل میں وہ کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی آپشن کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں انہوں نے طے کر لیا تھا کہ اسے اپنے قبضے میں رکھنے کے واحد آپشن کے سواممکنات کا دوسرا رُخ نہیں دیکھنا۔ حالانکہ ان گنت آپشنز موجود تھے۔ ان میں عمدہ ترین یہ تھا کہ شیخ مجیب الرحمن کے مطالبات منظور کرتے ہوئے‘ اقتدار ان کے حوالے کر دیا جاتا اور پھر پاکستان کو متحد رکھتے ہوئے‘ عوام کے مسائل حل کرنا ان کی ذمہ داری بن جاتا۔ مگر فیصلہ سازی کا اختیار رکھنے والوں نے دوسری آپشن کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جس لیڈر کا اپنا مفاد پاکستان کو متحد رکھنے میں تھا‘ اس لیڈر کو انہوں نے دھکے دے کر پاکستان دو لخت کرنے کی راہ پر ڈال دیا۔ ہم نے ضیاء الحق کی ہوس اقتدار کی خاطر خوشی خوشی اپنا ایک علاقہ عالمی دہشت گردی کی نشوونما کے لئے مختص کرتے ہوئے‘ اسے امریکہ کے حوالے کر دیا۔وہاں پر افغان جہاد کی جو تیاریاں کی گئیں اگر ان کا جائزہ لے کر دیکھا جائے‘ تو کوئی بھی صاحبِ نظر آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا کہ ہم جس مرض کو اپنے وطن کی سرزمین پر پنپنے کی سہولتیں مہیا کر رہے ہیں‘ ایک دن یہ کینسر کی طرح ہمارے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ہم نے یہ کینسر ‘ امریکی اسلحہ اورڈالروں کی زبردست لہروں کے زور پہ افغانستان میں پھیلانے کی کوشش کی۔ سوویت قیادت چالاک تھی۔ وہ پہلے ہی مرحلے میں افغانستان سے اپنی جان چھڑا کر نکل بھاگی اور کینسر کو اپنے وجود میں پھیلنے سے روک لیا۔ لیکن پھر بھی چیچنیا اور وسطی ایشیا کے کچھ علاقوں تک اس کینسر کی شاخیں پہنچ گئیں۔ مگر ہم اپنی فتح یابی کے نشے میں سرشار‘ افغانستان کے حالات کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔جس فاٹا کو ہم نے سوویت یونین کے خلاف دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا مرکز بنایا تھا‘ آج اسی فاٹا میں تیار ہونے والے بارودی اور انسانی بم ‘ ہمارے علاقوں پر گر رہے ہیں اور ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اس مصیبت کو کیسے سمجھیں؟ جو مصیبت ہم نے سوویت یونین کے لئے تیار کی تھی‘ اس کا رخ ہماری طرف ہو گیا۔ امریکہ جو کہ ساری دنیا کو ساتھ ملا کر افغانستان کی جنگ میں کودا تھا اور ہمیں اس میں شامل کرنے کے لئے اس نے دبائو اور دھمکیوں کا استعمال کیا تھا‘ آج وہ اس جنگ کے شعلوں سے بچ نکلنے کی تیاریاں کر چکا ہے اور ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ ہم اپنے بچائو کے لئے کیا کریں؟ المیہ وہی پرانا ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں کے تصور یا دامنِ خیال میں‘ ایک ہی آئیڈیا رہ سکتا ہے۔ ہم بیک وقت دو آئیڈیاز کو زیرِ عمل لاتے ہوئے‘ راستہ نکالنے کا ہنر نہیں جانتے۔ ظاہر ہے‘ مجھے زمینی حقائق میں پوشیدہ رازوں کا علم نہیں۔ میں صرف وہی کچھ جان سکتا ہوں‘ جو سماج اور میڈیا کے ذرائع سے مجھ تک پہنچ سکتا ہے۔ لیکن پاکستان کی مقتدرہ میں اتنی گہرائی کہاں؟ کہ اس کے ذہن کی ’’وسعتوں‘‘ میں جھانک کر نہ دیکھا جا سکے۔ آج بھی حسب سابق‘ اس کے ذہن میں ایک ہی آئیڈیا ہے اور وہ ہے ’’طالبان‘‘۔ ہم صرف اسی کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ’’ان کو مار دیا جائے یا ساتھ ملا لیا جائے؟‘‘ ہمارے پالیسی ساز ایک ہی آئیڈیا کے دو رنگوں کو ‘ دو مختلف آئیڈیاز سمجھ رہے ہیں اور تسلی کر کے بیٹھ گئے ہیں کہ وہ مذاکرات کی دعوت قبول نہیں کریں گے‘ تو ہم ان پر چڑھ دوڑیں گے۔ وہ ایک ہی خیال کو ہتھیار سمجھ کر اس کی مختلف جہتوں میں ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ ہم مختلف آپشنز کا جائزہ لے کر کسی ایک کو فیصلہ کن انداز میں استعمال کر لیں گے۔ بڑے فخر سے کہا جا رہا ہے کہ یہ خالص پاکستانی راستہ ہے۔ ہم پر کسی کا دبائو نہیں۔ جو چیز ساری دنیا دیکھ رہی ہے‘ ہمارے حکمرانوں کو نظر ہی نہیں آتی اور وہ یہ کہ دہشت گردی نہ تو خالص پاکستانی مرض ہے اور نہ ہی اس کا کوئی خالص پاکستانی علاج دستیاب ہے۔یہ ایک بین الاقوامی مرض ہے اور بین الاقوامی طاقت جمع کر کے ہی اس کا علاج ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سب پڑوسی اور ہم خیال ملک‘ دہشت گردی کے متاثرین ہیں اور ہماری ضرورت یہ ہے کہ ہم سب متاثرین کو جمع کر کے‘ ان کی مدد سے دہشت گردی پر جنگ اور مفاہمت کے دونوں راستے اختیار کرتے ہوئے‘ قابو پائیں۔ دہشت گردی کے تمام متاثرین سے مدد لینے کے لئے ایک متحدہ محاذ بنائیں‘ جس میں چین‘ روس‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور ممکن ہو سکے تو بھارت کو شامل کیا جائے۔ یہ سب وسائل مہیا کریں۔ فنی اور سائنسی امداد دیں۔ ہمارے مالی وسائل کی کمی کو دور کرنے میں جہاں تک ہو سکے مدد کریں اور ہم اجتماعی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے‘ دہشت گردوں پر غالب آنے کی بھرپور کارروائی شروع کر دیں اور اس کے ساتھ ہی ایک مفاہمت نامہ جاری کر کے‘ دعوت دیں کہ دہشت گردوں کی صفوں میں شامل جو خواتین و حضرات پُرامن اور خوشحال زندگی کے خواہش مند ہوں‘ وہ بیان کئے گئے طریقے پر عمل کرتے ہوئے‘ پاکستانی انتظامیہ کی طرف سے قائم کردہ کیمپوں میں آ کر اپنا اندراج کرا لیں اور اسی وقت سے انہیں حفاظتی کیمپوں میں لے جا کر‘ ان کی دیکھ بھال شروع کر دی جائے۔ یہ کیمپ شہروں سے دور ہوں تاکہ سبوتاژ کرنے والے عناصر ‘ میزبانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور ان کے اپنے ہی ساتھی ان پر قابو پا لیں یا وہ آپس میں لڑتے ہوئے جو نتیجہ حاصل کرنا چاہیں کر لیں۔محاذ جنگ پر ہم جتنا دبائو بڑھائیں گے‘ اتنے ہی دہشت گرد جنگ سے نکل کر امن کی زندگی گزارنے کیمپوں میں آئیں گے۔ کیمپوں میں آنے والوں کو ابتدائی چھان بین کے بعد مناسب زندگی مہیا کرنے کے لئے‘ انسداد دہشت گردی کا عالمی محاذ وسائل مہیا کرے اور پاکستانی عوام اور فوج لڑنے والے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فرض انجام دیں۔ حکومت نے خود بھی انہی دو آپشنز کی بات کی ہے۔ مگر عملدرآمد کا کوئی طریقہ کار وضع نہیں کیا۔ محض باتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ آپ کے آپشنز اسی وقت نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں‘ جب آپ میدان جنگ میں اپنا دبائو بڑھا رہے ہوں اور دوسری طرف جنگ سے بچ نکلنے کے خواہش مندوں کو‘ اپنے دامن عافیت میں لے کر ان کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنا رہے ہوں۔ مگر ہم تو امن کے چھوٹے چھوٹے وقفے‘ خیرات میں لے کر سمجھ بیٹھتے ہیں کہ معاملہ ٹھیک ہونے لگا ہے۔ جبکہ عملاً پہل دہشت گردوں کے ہاتھ میں رہتی ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں حالات ٹھیک ہونے کے ہمارے تاثر کو‘ ایک بڑے دھماکے سے اُڑا دیتے ہیں۔گویا ہم نے میدان جنگ‘ دہشت گردوں کے سپرد کر رکھا ہے۔ اپنے لئے پہل کرنے کی سٹریٹجی ہی نہیں بنائی۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں‘ اسے افیونیوں کی جنگی حکمتِ عملی ہی کہا جا سکتا ہے۔ دشمن جب چاہے آئے جبکہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ ہم چاہیں بھی تو کیا کریں؟