وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے‘ طالبان کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کر کے‘ معاملہ بڑی حد تک واضح کر دیا ہے۔ انہوں نے امریکہ میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا’’جہاں تک المناک سانحات کا تعلق ہے‘ یہ قابل قبول نہیں اور نہ ہی اس معاملے میں کوئی سودے بازی ہو سکتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی اسے قبول نہیں کرتا۔ طالبان کی طرف سے کئے جانے والے ان اقدامات کو ہمارے عوام کی اکثریت مسترد کرتی ہے۔‘‘ اس سے آگے وہ کہتے ہیں’’طالبان کو دہشت گردی کی مذمت کرنا ہو گی اور انہیں کہنا ہو گا کہ وہ حکومت کے ساتھ امن عمل میں مخلص ہیں۔طالبان کو پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا ہو گا اور اگر ہم دہشت گردی کے خاتمے پر متفق ہو گئے‘ تو پھر انہیں ہتھیار ڈالنا ہوں گے اور غیرمسلح ہونا پڑے گا۔‘‘اس وضاحت کے بعد نوازشریف کی پوزیشن بالکل واضح ہو گئی ہے۔ کیونکہ اے پی سی کی قرارداد میں جس طرح طالبان کو ایک فریق مانتے ہوئے‘ مذاکرات کی غیرمشروط پیش کش کر دی گئی تھی اور اس میں دہشت گردوں کی مذمت بھی نہیں کی گئی‘ اس سے کافی ابہام پیدا ہو گیا تھا۔ اس پر عمران خان کے رنگ برنگے بیانات سامنے آنے لگے‘ جن میں انہوں نے عجیب و غریب باتیں کہہ ڈالیں۔ مثلاً پشاور میں چرچ پر حملے کو انہوں نے مذاکرات کے خلاف سازش قرار دیا۔ جس پر مسیحی برادری نے زبردست احتجاج کیا اور ان کے خلاف نعرے لگائے۔ جن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی بات کی جاتی ہے‘ ان کا تو ابھی تک وجود ہی نہیں۔ ابھی تک تو یہی طے نہیں ہو سکا کہ مذاکرات کی دعوت کس کو دی جائے؟ ان کا طریقہ کار کیا ہو؟ وہ کہاں پر کئے جائیں؟ جہاں تک پاکستانی طالبان کے گروپوں کا تعلق ہے‘ ان کے بارے میں نئی اطلاعات آنے لگی ہیں۔ ان کی تو گنتی ہی ہوش اڑانے کے لئے کافی ہے۔ پہلے ان گروپوں کی تعداد 32 بتائی جاتی تھی۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ وہ 80 سے 100 کے درمیان ہیں۔ ان حالات میں اگر آدھے گروپ بھی مذاکرات میں آ گئے‘ تو جو باہر رہ جائیں گے ‘ ان کاذمہ کون لے گا؟ اگر کچھ گروپ مذاکرات کرتے رہے اور دوسرے گروپ‘ دہشت گردی کی وارداتیں‘ تو صورت حال میں تبدیلی کیا آئے گی؟ ابھی تک یہی طے نہیں ہو پا رہا کہ بات کس سے کی جائے؟ عمران خان نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا‘ جو مارکیٹ میں پھیلے ہوئے پرانے شوشوں سے کہیں زیادہ شرارے چھوڑ رہا ہے۔ انہوں نے یہ انوکھی تجویز دی کہ ’’پاکستان میں ‘ طالبان کا دفتر قائم کیا جائے۔ جیسے امریکہ نے افغان طالبان سے مذاکرات کے لئے قطر میں قائم کیا تھا۔‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ قطر میں دفتر کے قیام کی نہ کوئی اہمیت ثابت ہوئی‘ نہ افادیت۔ وہاں صرف دفتر ہی قائم ہوا تھا۔ مذاکرات شروع نہیں کئے جا سکے۔ البتہ وہ دفتر‘ مذاکرات کے لئے سازگار ہوتے ہوئے ماحول کو بھی‘ خراب کرنے کا باعث بن گیا اور وہاں پرچم لہرانے کے سوال پر پیدا ہونے والا تنازعہ اتنا بڑھا کہ مذاکرات ہی سبوتاژ ہو گئے۔ یہی تجربہ عمران خان پاکستان میں دہرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ دوسرے الفاظ میں مذاکرات کو اسی طرح سبوتاژ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں؟ جیسے قطر والے دفتر کی وجہ سے ہوئے تھے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب یہ دفتر قائم کیا گیا‘ تو وہاں طالبان نے اپنا پرچم لہرا دیا‘ جس پر اسلامی امارت افغانستان لکھا تھا۔ امریکیوں نے اس پر اعتراض کر دیا۔ طالبان نے عمارت کے بیرونی دروازے سے پرچم اتار کے صحن کے دروازے پر لہرا دیا۔ امریکیوں اور کرزئی حکومت نے اس پر بھی اعتراض کر دیا اور بات اتنی بڑھی کہ آخر کار وہ دفتر بند ہو گیا۔ مذاکرات کا منصوبہ ناکام رہا اور امریکہ اور طالبان دونوں پہلے سے زیادہ فاصلے پر چلے گئے۔ پاکستان میں طالبان کا دفتر کس حیثیت سے کھولا جائے گا؟ افغان طالبان کا اپنا ملک ہے‘ جس پر غیرملکی افواج نے قبضہ کر رکھا ہے۔ طالبان قابض افواج کے خلاف ‘ آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ کابل کی پٹھو حکومت کو ناجائز کہتے ہیں اور ملاعمر کو افغانستان کا جائز حکمران مانتے ہیں۔ لیکن فوج اور انتظامیہ پر حامد کرزئی کا کنٹرول ہے اور جن علاقوں پر ملاعمر کی گرفت ہے‘ وہاں پر انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں۔ حامد کرزئی کے زیرکنٹرول علاقے میں ‘ طالبان جانا پسند نہیں کرتے اور جن علاقوں پر ملاعمر کا کنٹرول ہے‘ وہاں حامد کرزئی کے نمائندے نہیں جا سکتے۔ یہ تھا وہ مسئلہ‘ جس کی وجہ سے مذاکرات کے لئے تیسرے ملک کا انتخاب کرنا پڑا۔ وہاں بھی جو تنازعات کھڑے ہوئے‘ ان کا ذکر میں کر چکا ہوں۔ عمران خان کی دی ہوئی مثال‘ پاکستان میں کس پہلو سے موزوں ہے؟ نہ تو پاکستان کی حکومت کسی ملک پر قابض ہے۔ نہ پاکستانی طالبان نے کبھی یہاں کے عوام سے مینڈیٹ لیا ہے۔ وہ کسی بھی اعتبار سے افغان طالبان سے مماثل نہیں۔ وہ اپنے ملک کی جائز حکومت کے باغی ہیں۔ وہ اپنے ہی عوام کے خلاف کارروائیاں کرتے ہوئے‘ بچوں‘ عورتوں‘ مردوں اور بزرگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہلاکتوں کا بازار گرم کرتے ہیں۔ جائیدادیں تباہ کرتے ہیں۔ قومی اثاثوں کو بربادکرتے ہیں۔ پاکستان کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ عدلیہ کو نہیں مانتے۔ پاکستانی فوج پر حملے کرتے ہیں اور حملے جاری رکھنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ پاکستانی عوام تو‘ ان سے مذاکرات قبول کرنے پر تیار ہی نہیں۔ نوازشریف کے تازہ انٹرویو کے بعد امکان پیدا ہوا ہے کہ مذاکرات کی تجویز پر عوام بھی غور کریں گے۔ لیکن جو شرائط وزیراعظم نے پیش کی ہیں‘ جب تک طالبان انہیں تسلیم نہیں کر لیتے‘ مذاکرات کا انعقاد ممکن ہی نہیں۔ اگر پاکستان میں‘ طالبان کارروائیاں کرتے ہیں‘ تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ انہیں عوام میں پذیرائی حاصل ہے‘ جیسے کہ افغان طالبان کو۔ پاکستان میں‘ طالبان چھپ کر وارداتیں کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے۔ عام آدمیوں کا بھیس بنا کے دہشت گردی کرتے ہیں۔ اگر عوام کو پتہ چل جائے کہ کون سے لوگ طالبان ہیں؟ تو ان کا زندہ سلامت بچ نکلنابھی مشکل ہو گا۔ عمران خان صاحب ان کا دفتر بنانے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اس دفتر میں جو طالبان آئیں گے‘ ان کی حفاظت کون کرے گا؟ کیا وہ لوگ‘ جن کے عزیزوں‘ بزرگوں‘ مائوں‘ بہنوں اور بیٹیوں کو ‘ طالبان نے شہید کر رکھا ہے‘ وہ انہیںمعاف کریں گے؟ ان کی حفاظت کون کرے گا؟ پولیس کے جوان؟ ان کے ساتھیوں کو طالبان نے کب معاف کیا ہے؟ ان کے ہاتھ پولیس والوں کے خون سے بھی رنگے ہوئے ہیں۔ کون سا پولیس والا اپنے قاتلوں کی حفاظت کرے گا؟ کیا ان کی حفاظت فوج کرے گی؟ طالبان کے ہاتھ فوج کے خون سے بھی رنگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے قاتلوں کی حفاظت کیسے کریں گے؟ ایک صاحب نے عمران خان کوخوب مشورہ دیا ہے کہ وہ پشاور میں طالبان کا دفتر کھلوا دیں‘ جہاں ان کی اپنی حکومت ہے۔ قطر کی طرف واپس آتے ہیں۔ وہاں کے دفتر میں افغان طالبان اپنے امیرکے نمائندوں کی حیثیت سے گئے تھے۔ وہ اپنے ملک میں سٹیک ہولڈر ہیں۔ ان کی حیثیت کو امریکہ اور حامد کرزئی کی حکومت دونوں تسلیم کرتے ہیں۔ میدان جنگ میں وہ ثابت کر چکے ہیں کہ انہیں عوام کی حمایت حاصل ہے۔ وہ اپنے عوام کے خلاف دہشت گردی نہیں کرتے۔ قابض بیرونی فوجیوں اور ان کے ایجنٹوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی طالبان اپنے ہی ملک کے بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں۔ پاکستان ‘ انہیں وہ حیثیت کیسے دے سکتا ہے؟ جو قطر میں افغان طالبان کو دی گئی۔ عمران خان صاحب بیان دیتے وقت سوچ لیا کریں کہ اب انہیں ایک قومی لیڈر کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا‘ ان کے فرمودات کو غور سے پڑھتی ہے۔ اس طرح کے ناپختہ بیانات نہ صرف خان صاحب کے لئے مناسب نہیں بلکہ ہم پاکستانیوں کے لئے بھی پریشان کن ہوتے ہیں۔ لوگ کیا سوچیں گے کہ پاکستانی قوم‘ کیسے لیڈروں کو ووٹ دیتی ہے؟