لاہور میں ریلوے کے وزیرخواجہ سعد رفیق‘ اپنی 110 روزہ کارکردگی پر میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے اور فیصل آباد میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 72 کے رائے دہندگان صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی 110 روزہ کارکردگی پر ووٹوں کے ذریعے اپنی رائے دے رہے تھے۔ پہلے خواجہ صاحب کی سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’اگر ریلوے میں بہتری نہ آئی تو میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے وزارت چھوڑ دوں گا اور پھر کبھی کوئی وزارت نہیں لوں گا اور گھر بیٹھ جائوں گا۔ ‘‘ پاکستان ریلوے پر جو گزری‘ اس کی تفصیل دہرانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا ہر شہری سفر کے اس پرانے ساتھی کے لٹنے کی کہانی کا ایک ایک لفظ جانتا ہے۔ ریلوے ملازمین سے لے کر اس کے افسروں اور وزیروں تک‘ جس کا بس چلا‘ اس نے ریلوے کے پرزے تک بیچ کھائے۔ پرزہ تو میں نے تکلفاً لکھا ‘ یہاں توایسے جی دار بھی آئے‘ جو انجن تک کھا گئے۔ ریلوے کا لوہا ‘ چوربازار میں اتنی افراط سے بیچا گیا کہ کئی فونڈریاں‘ صرف اسی پر برسوں چلتی رہیںاور شاید ابھی تک چل رہی ہیں۔ دنیا میں ایسا عجیب و غریب کاروبار شاید ہی کہیں ہوا ہوکہ لوہا ڈھالنے کی کئی فیکٹریاں چوری کے مال پر چلتی رہیں۔ فونڈری میں دو طرح کے خام مال ہوتے ہیں۔ ایک لوہا اور ایک بجلی اور تیسری چیز انسانی محنت اور ہنر۔ ان فونڈریوں میں لوہا ریلوے کا آتا تھا۔ وہ بھی چوری کا۔ بجلی واپڈا سے لی جاتی تھی‘ وہ بھی چوری کی اور لیبر ریلوے کی آتی تھی‘ وہ بھی چوری کی۔ آپ نے ایک محاورہ سنا ہو گا ’’نمبر ٹانگنا۔‘‘ مگر اس کی وجہ تسمیہ صرف لاہور والے جانتے ہیں۔ لاہور میں ریلوے کی ایک بہت بڑی ورکشاپ ہے۔ جس میں ہزاروں مزدور‘ کاریگر اور انجینئرز کام کرتے ہیں۔ اس ورکشاپ میں کام کرنے والے داخلے کے راستے پر‘ لگے ہوئے بہت بڑے بورڈ پراپنا نمبر لگاتے یا ٹانگتے ہیں۔ وہ دراصل ایک طرح کی حاضری ہوتی ہے۔ برسوں تک یوں ہوا اور شاید آج بھی ہو رہا ہو کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اپنا نمبر ٹانگنے کے بعد غائب ہو جاتے۔ دن بھر کہیں اور ملازمت کرتے اور شفٹ ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے‘ واپس آ کر اپنا نمبر اتار لیتے اور بہت سے منچلے تو ایسے بھی تھے‘ جو گھربیٹھے ہی نمبر ٹانگنے اور اتارنے کا بندوبست کر لیا کرتے۔ اس طرح ریلوے کے سینکڑوں مزدور ‘ اردگرد کی فیکٹریوں کو سستے معاوضے پر دستیاب رہتے۔ میں نے غلط نہیں لکھا کہ لاہور میں اکثر فونڈریزچوری کے مال پر چلتی تھیں۔ لوہے اور بجلی کے بارے میں تو اکثر لوگ جانتے ہیں لیکن افرادی قوت بھی ریلوے کی چوری کی جاتی تھی؟ اس کی خبر بہت کم لوگوں کو ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کی اکثر فونڈریز بادامی باغ کے اردگرد واقع ہیں۔ جس صنعت میں خام مال اونے پونے داموں کا استعمال ہو‘ یعنی لوہا اور بجلی۔ تربیت یافتہ لیبر اونے پونے ملتی ہو اور خام مال فونڈری کے اندر معمولی کرائے پر پہنچ جاتا ہو‘ اس کے نفع کا اندازہ آپ خود کر سکتے ہیں۔ ملک کے ممتاز اداکار محمد علی مرحوم کو ان کے جاننے والوں نے مشورہ دیا کہ وہ بھی ایک فونڈری بنا لیں‘ بیحد نفع بخش کاروبار ہے۔ جب تفصیل معلوم کرنے پر انہیں پتہ چلا کہ وہاں تو سارا مال ہی چوری کا ہوتا ہے‘ تو محمد علی نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں کہا ’’نہیں بھیا! یہ اپنے بس کا کام نہیں۔‘‘ ریلوے کا کیا کیا بکا؟ یہ سوچ کر ہوش اڑ جاتے ہیں۔ پاکستان ریلوے‘ بھارتی ریلوے کا حصہ تھی۔ بھارتی ریلوے آج بھی شہریوں کے سفر اور اشیا کی نقل و حرکت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی تھا۔ مگر اب شریف شہری‘ ریل کی طرف رخ کرنا اسی طرح چھوڑ چکے ہیں‘ جیسے سینمائوں کو۔ ریل پر اسی وقت بیٹھتے ہیں‘ جب بھارت کا ویزا مل جائے۔ البتہ بھارتی فلم اب اپنے شہر میں دیکھ لیتے ہیں۔ ریلوے کی آمدنی کا بڑا ذریعہ اشیا کی نقل و حمل تھا‘ جو انتہائی ارزاں نرخوں پر ہوتی۔ اس کے باوجود گڈز ٹرین چلانے سے اتنا بھاری نفع ہوتا کہ پسنجر ٹرین کے کرایوں میں کمی رکھی جاتی۔ مسافروں کا بھی بھلا ہوتا۔ سامان کی نقل و حمل پر کرایہ کم خرچ ہونے کی وجہ سے‘ چیزیں بھی سستی رہتیں۔ ریلوے بھی بھاری نفع کماتی۔ عوام کو سہولتیں بھی مہیا ہوتیں۔ بوگیوں اور انجنوں کی دیکھ بھال بھی ٹھیک طرح کی جاتی۔ ملازمین کو تنخواہیں بھی وقت پر ملتیں۔ لیکن ایسا شاندار نظام‘ ایسی دردناک تباہی کا شکار ہوا کہ دنیا میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ اگر کسی ملک میں اتنی بڑی کمپنی اس طرح برباد ہوئی ہو‘ تو وہاں کے لوگوں نے اس کے اثاثوں کو آگ ہی لگائی ہو گی۔ ورنہ تباہی کے مقابلے میں پاکستان ریلوے کا مقابلہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اگر کبھی یہاں انقلاب آیا‘ تو ریلوے کے سابق وزیروں اور افسروں کو قبروں سے نکال نکال کر پھانسیاں لگائی جائیں گی۔ یہ ایسے بدبخت لوگ تھے‘ جنہوں نے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کوکاٹ کے کھا لیا۔ جب خواجہ سعد رفیق کو یہ سڑا ہوا مردہ سونپ کر کہا گیا کہ آپ کو وزیربنا دیا گیا ہے‘ تو میرا خیال تھا ‘ سعد رفیق ہاتھ جوڑ کے معافی مانگ لے گا۔ لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی‘ جب میں نے سنا کہ سعد رفیق نے نہ صرف وزارت خوشی سے قبول کر لی ہے بلکہ وہ اسے ٹھیک کرنے کے لئے بھی پرعزم بلکہ پرجوش ہے۔ خیال ہوا کہ نیانیا جوش ہے چند روز میں ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ مگر سعد رفیق نے ہر روز حیرت میں اضافہ کرنا شروع کر دیا۔ بجائے اس کے کہ حقائق جاننے کے بعد‘ اس کے حوصلے پست ہوتے‘ وہ مزید بڑھتے جا رہے ہیں اور کل اپنی وزارت کے 110 ویں دن موصوف نے میڈیا کو بلا کر اعلان کر دیا کہ ’’وہ جلد ہی اس محکمے کو نفع بخش بنا دیں گے ۔ پاکستان ریلوے کی نجکاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر میں اس ادارے کا خسارہ کم نہ کر سکا‘ تو وزارت چھوڑ کر گھر چلا جائوں گا اور پھر کوئی دوسری وزارت بھی نہیں لوں گا۔‘‘ یہ ایک طرح سے ریلوے کی لاش کو نوچ نوچ کر کھانے والے گدھوں‘ کتے بلیوں اور مردار کھانے والے انسانی بھیڑیوں کے خلاف ایک ایسا جرات مندانہ بلکہ مجنونانہ اعلان جنگ ہے‘ جو کوئی خبطی ہی کر سکتا ہے۔ لیکن تاریخ بھی تو یہی بتاتی ہے کہ جس کسی نے بڑا اور حیرت انگیز کام کر کے دکھایا ہے‘ وہ بیشتر حالات میں کوئی نہ کوئی خبطی تھا۔ مجھے سعد رفیق سے ذاتی نسبت ہے۔ وہ میرے بیٹوں کا دوست اور مجھے بیحد پیارا ہے‘ اس لئے دعا گو ہوں کہ نہ صرف سعد رفیق کامیاب رہے بلکہ پاکستان کو آٹھ دس مزید ایسے خبطی مل جائیں‘ تو پھر پاکستان کو اسحق ڈار سے کوئی خطرہ نہیں۔ لاہور میں خواجہ سعد رفیق‘ ایک دیوقامت محکمے کو سدھار کے‘ قوم کے اربوں روپے بچانے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے اور دوسری طرف فیصل آباد میں صوبائی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں رائے دہندگان‘ حکومت کی تین ماہ کی کارکردگی پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے۔ فیصل آباد کئی برسوں سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ مانا جاتا ہے اور جس حلقے میں ضمنی انتخاب ہوا‘ وہاں 20 برسوں سے مسلم لیگ کے امیدوار کامیاب ہوتے آ رہے ہیں۔لیکن اس مرتبہ بھاری اکثریت سے جیت کر حکومت بنانے والی مسلم لیگ صرف تین ماہ کی کارکردگی میں ‘ ایسا معرکہ مار گئی جو وہ20 سال میں نہیں مار سکی تھی۔ میں مسلم لیگ کے اس کارنامے پر حیران ہوں۔ جس شہر میں مخالفین بھی اسے 20برس تک شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے‘ وہاں صرف تین ماہ کی حکومتی کارکردگی دکھا کر ‘ اس نے اپنے ہی امیدوار کو شکست دلانے کا کارنامہ کر دکھایا۔ میں اس پر کس کو خراج تحسین پیش کروں؟ کوئی اس کارنامے کا کریڈٹ لینے کو تیار ہی نہیں۔ حکومت کی طرف سے جو بولتا ہے‘ وہ اس شکست کو ناکامی تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ آپ ہار گئے۔ میڈیا بتا رہا ہے کہ مسلم لیگ(ن) ہار گئی۔ تحریک انصاف والے فاتحانہ جلوس نکال کر نعرے بازیاں کر رہے ہیں کہ ہم جیت گئے۔ مگر مسلم لیگ کی ترجمانی کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہم نہیں ہارے۔کسی ایک نشست کی بنیاد پر مقبولیت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ہو سکتا ہے یہ دعویٰ درست ہو۔ مگر عوام کا تجربہ یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی مقبولیت کے عروج پر تھی‘ اس و قت لاہور میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ نمبر 6 کا ضمنی الیکشن ہوا‘ جس میں پیپلزپارٹی سرکاری طاقت سے جیت گئی۔ لیکن عوام جانتے تھے کہ الیکشن پیپلزپارٹی نہیں حکومت جیتی ہے اور وہیں سے پارٹی کا زوال شروع ہوا۔ فیصل آباد میں تو ن لیگ باقاعدہ ہاری ہے۔ اگر پھر بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے‘ تو مبارکباد۔ یاددہانی کے لئے عرض ہے کہ گھڑی صرف ٹِک ٹِک کرتی ہے۔ الٹی چل رہی ہے یا سیدھی؟ فیصلہ خود کرنا پڑتا ہے۔