کھانسی کا عرصہ کچھ طویل ہوا‘ تو طبی امداد ناگزیر ہو گئی۔ ایک اچھے ڈاکٹر کے پاس جا کر علاج کے لئے قطار میں لگا۔ قطار میں لگنے کی فیس 2ہزار روپے ادا کی۔ نمبر آنے پر ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے تھوڑی سی انکوائری کی۔ تھوڑا سا معائنہ۔ دو گولیاں لکھ کر دیں‘ جو مجھے بازار سے خریدنا تھیں اور فرمایا 8 دن کے بعد آ کر بتا دیں کہ آپ کس حال میں ہیں؟ معلومات حاصل کرنے پر پتہ چلا کہ ڈاکٹر صاحب کو علاج کا نتیجہ بتانے کے لئے بھی انہی مراحل سے گزرنا پڑے گا‘ جن سے پہلی مرتبہ نمٹا ہے۔ وہی قطار میں لگنے کی فیس۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ چند مکالموں کا اعزاز اور پھر اگلی ’’پیشی‘‘ کی تاریخ۔جو دوا مجھے لکھ کر دی گئی تھی‘ وہ پورے 8دنوں کے لئے تھی۔ اس پر صرف 150 روپے خرچ آئے۔ یہ دوا غیرملکی سائنسدانوں نے ایجاد کی تھی۔ غیرملکی کمپنیوں نے اسے تیار کیا تھا۔ ہزاروں میل دور کے میڈیکل سٹور میں پہنچنے کے لئے اسے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا پڑا تھا اور یہی اصل علاج تھا‘ جس پر 150 روپے خرچ ہوئے۔ مگر اس دوا تک پہنچنے کے لئے مجھے 2ہزار روپے کی فیس ادا کرنا پڑی اور قطار میں بیٹھ کر انتظار کرنے کی مشقت اس سے الگ تھی۔ جبکہ 150 روپے کی دوا‘ قطار میں لگے بغیر حاصل ہو گئی۔ ہم میں جتنے لوگ کھانسی کے علاج پرکم از کم 4 ہزار روپے ( زیادہ کی حد نہیں)‘ خرچ کرتے ہیں ۔ اگر ڈاکٹر صاحب کو ’’حال دل‘‘ بتانے کے لئے زیادہ پیشیوں پر جانا پڑے‘ تو ہر پیشی کے 2ہزار الگ۔ پاکستان میں کتنے لوگ ہوں گے؟ جو کھانسی کے علاج پر کم ازکم 4ہزار روپیہ خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔ کم از کم اس لئے کہ 2ہزار ڈاکٹر صاحب کو پہلی مرتبہ اپنی حالت بتانے کے لئے اور دوسری مرتبہ علاج کا پہلا نتیجہ پیش کرنے کے لئے۔ اس کے بعد مریض کی قسمت کہ اسے کتنی مرتبہ ’’پیشی‘‘ پر جانا پڑتا ہے۔لیکن ابتدائی 4ہزار ہی کو دیکھیں تو پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو صرف کھانسی کے علاج پر 4ہزار روپیہ خرچ کر سکتے ہیں؟ مستند اعداد و شمار تو کسی بھی شعبے میں دستیاب نہیں۔ محض قیاس آرائی کر سکتا ہوں کہ پاکستان میںبہرحال 10فیصد سے کم لوگ کھانسی کے علاج پر اتنا خرچ برداشت کر سکتے ہیں۔ گویا 90 فیصد آبادی‘ اس بیماری یا موسمی کیفیت کے علاج کا خرچ اٹھانے کے قابل نہیں۔ اسے ہم نے قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے یا سرکاری ہسپتالوں کے۔ سرکاری ہسپتالوں اور سرکاری سکولوں کی حالت پر ہم پاکستانیوں کو تبصرے کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ تو ہمارے عام آدمی کی زندگی کا حصہ ہے۔ وہاں جو کچھ ہوتا ہے‘ اس کی تفصیل انسانوں سے زیادہ‘ وہ گدھے‘ بھیڑبکریاں اور آوارہ کتے بتا سکتے ہیں‘ جو دیہی علاقوں میں سکولوں اور ہسپتالوں کے اندر رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ مجھے شہری علاقوں کے ہسپتالوں کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے‘ وہ بھی حوصلہ افزا نہیں۔ دیہی ہسپتالوں اور سکولوں میں رہنے والوں کے علاوہ شہروں کے اندر ایک آدھ ڈاکٹر یا سٹورکیپر کا اضافہ ہو جاتا ہے۔یعنی گدھوں‘ بھیڑ بکریوں اور آوارہ کتوں کے علاوہ ایک آدھ نیم حکیم یا چوکیدار وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں‘ جو اچھے لوگوں کی طرح مل جل کے رہتے ہیںاور کسی کسی ہسپتال یا سکول میں علاج اور تعلیم نامی چیزیں بھی پائی جاتی ہیں۔ نجی سکولوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان میں داخلے حاصل کرنے کے خواہش مندوں کے ہجوم دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی صرف وہی آبادی سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا رخ کرتی ہے‘ جس میںسستے سے سستے پرائیویٹ ڈاکٹر یا سکول کی فیس ادا کرنے کی توفیق نہیں۔ یوں سمجھ لیںکہ ہمارے معاشرے میں ایک واضح تقسیم پیدا کر دی گئی ہے۔ ایک وہ لوگ‘ جو کل آبادی کے 10فیصد سے بھی کم ہیں‘ انہیں اپنے بچوں کو برائے نام‘ مناسب یا اچھی تعلیم دلانے کا حق ہے۔ باقی ساری آبادی یا تو اپنے بچوں کو گلی محلوں میں آوارہ گھومنے‘ محنت مشقت کرنے یا جرائم کی تربیت حاصل کرنے کے لئے چھوڑنے پر مجبور ہے یا وہ اپنے بچے مدرسوں کے سپرد کر دے‘ جہاں اپنوں اور غیروں کی خیرات پر انہیں تعلیم اور خوراک دی جاتی ہے۔ یہی بچے آگے چل کر طالبان بنتے ہیں اور مختلف سیاسی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ جیسے ہماری مدد سے افغان طالبان نے زمام اقتدار سنبھالی تھی اور غیرملکی افواج کے قبضے کے بعد‘وہ جنگ آزادی لڑ رہے ہیں۔ اب خدا کے فضل و کرم سے وہ پاکستان میں بھی جہاد کر رہے ہیںاور انہیں اپنی کامیابی پر اتنا یقین ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن افغان طالبان کی طرح طاقت حاصل کر کے‘ اقتدار پر قابض ہو سکتے ہیں۔ حکومتوں کے طریقے یہی رہے‘ تو انہیں کون روک سکتا ہے؟ اگلے برس افغانستان میں طالبان کا مقابلہ اندرون ملک بیرونی ایجنٹوں کے ساتھ ہو گا اور عام اندازے یہ ہیں کہ وہ طویل خونریزی کے بعد اجڑے ہوئے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ پورا افغانستان نہیںتو آدھا افغانستان ہی سہی۔ ان کی حکومت قائم ہونے میں شاید ہی کسی کو شبہ ہو۔ پاکستانی طالبان کے لئے ان کی منزل مزید نزدیک ہو جائے گی۔ ہم تو افغانستان کو اپنے جمہوری نظام سے متاثر نہیں کر سکے۔ لیکن ہم نے افغان طالبان کو ‘ پڑوسی ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کا جو ہدف دیا تھا‘ وہ پورا ہو گیا۔ اب وہی طالبان ‘ ہمارے ملک کو اسلامی نظام کی برکات سے فیض یاب کرنے کے لئے ‘ ہمیں وہی کچھ لوٹا رہے ہیں۔ جب کسی ملک کی حکومت اپنے 90فیصد عوام کو بنیادی انسانی ضرورتوں سے محروم کر کے‘ زندگی کی تمام سہولتوں حتیٰ کہ احساس تحفظ سے بھی بے نیاز کر دے‘ تو عوام کے لئے طالبان کے زیراثر جانے میں کون سی مشکل باقی رہ جاتی ہے؟ میں آج ہی پشاور کے بارے میں بی بی سی کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا۔ اس میں اس مظلوم تاریخی شہر کی حالت زار پر جو کچھ لکھا گیا ہے‘ اسے پڑھ کر تو یوں لگا کہ اس بدنصیب شہر کے باشندوں کو اتنا تحفظ بھی حاصل نہیں‘ جو عیدالاضحی کے موقع پر لگی ہوئی بکرا منڈیوں میں آنے والے بکروں کو حاصل ہے۔ ان منڈیوں کے چاروں طرف پولیس بھی لگائی گئی ہے اور حفاظتی ناکے بھی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن پشاور شہر میں رہنے والے عام پاکستانیوں کواتنا تحفظ بھی حاصل نہیں۔ وہاں صرف سیاسی اور انتظامی حکمرانوں کے لئے پولیس کا انتظام ہے۔ پشاور شہر میں رہنے والے عام لوگ ہر وقت دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ قصہ خوانی بازار میں دہشت گردوں کو عوام پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کی ہر سہولت دستیاب ہے اور مذاکرات کی حکومتی پیش کش کے بعد ہم پر یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا گیا کہ طالبان صرف سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں۔ عام شہریوں کے خلاف دہشت گردی کا ذمہ دار کوئی اور ہے۔ یہ کوئی اور کون ہے؟ اب اسے ڈھونڈھ چراغ رخ زیبا لے کر پاکستان کی پرامن آبادیوں میں دہشت گردی کرنے والوں کا پتہ۔اب ہم ہر اس شخص سے پوچھیں‘ جس کے نین نشیلے ہوں۔ ہمارا بھی کیا حال ہے؟ گھر میں آئیں‘ تو دہشت گرد ہمارے پرخچے اڑاتے ہیں۔ بازار میں جائیں‘ تو دکاندار کھال اتارتے ہیں۔ بیمار ہو کے ہسپتال جائیں‘ تو تربیت یافتہ ماہرین‘ ہمیں ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں‘ جیسے قربانی کے جانوروں کا خریدار‘ بکرے اور دنبے کو دیکھتا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم سب بکرے ہیں؟ مجھے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی ایک بکرا ہوں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بکرے کا ایک مالک ہوتا ہے‘ جو اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ کھلاتا پلاتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب ہو جائے‘ تو علاج معالجے کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ اس کے ذبح ہونے کا وقت آ جائے‘ تو مالک پوری قیمت وصول کر کے‘ اسے خریدار کے حوالے کرتا ہے۔ خریدار گھر لے جا کر اس کی آئو بھگت کرتا ہے۔ اسے سجاتا بناتا ہے۔ مہندی لگاتا ہے۔ گلیوں بازاروں میں اسے فاتحانہ چہل قدمی کراتا ہے اور ہم لاوارث شہری اسے دیکھتے ہوئے سوچتے ہیں‘ کاش! ہم شہریوں کواس بکرے جتنی سہولت ہی مل جائے۔ ہمارا بھی کوئی مالک ہو۔ دیکھ بھال کے لئے ہمیں بھی کوئی حکومت ایسی مل جائے‘ جو ہماری حالت کا خیال رکھے۔ ہم جس حکومت کو ووٹ دے کر ‘ اپنے خزانے کا مالک بناتے ہیں‘ وہ ہماری دیکھ بھال پر اتنا سا خرچ بھی کر دے‘ جو حکمرانوں کے عشرت کدوں میں نازوادا دکھانے والے کتے بلیوں پر کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ ہم تو وہ بھی نہیں۔ نہ بکرے۔ نہ کتے۔ نہ بلیاں۔