سارا قصہ ڈرون حملوں سے شروع ہوا تھا۔ ابتدائی تین سالوں میں ڈرون حملے ہوتے رہے ‘دہشت گردان کا نشانہ بنتے رہے اور ساتھ ہی بے گناہ شہری بھی جاں بحق ہوئے مگر اس کی ذمہ داری دہشت گردوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔وہ امریکہ کے ساتھ جنگ لڑ رہے تھے‘ امریکی فوجیں افغانستان میں تھیں۔اگر وہ افغانستان تک محدود رہتے اور پاکستان میں اپنے ٹھکانے نہ بناتے تو ہمارے لئے ڈرونزکوئی مسئلہ نہیں تھے۔ مسئلہ اس وقت بنا‘ جب امریکہ سے لڑنے والے ان جہادیوں نے پاکستان میں پناہ گاہیں تعمیر کر لیں اورمیڈیا نے امریکہ کو بے گناہوں کے قتل کا ذمہ دار ثابت کرنے کے لئے عام شہریوں کی ہلاکتوں کا تاثر پھیلایا‘حالانکہ انہیں مجبور کر کے لقمہ اجل بننے کا پابند کیا گیا۔ شروع میں مسلح گروہ‘ کسی گھر میں داخل ہو کر اس کے ایک دو کمروں پر قبضہ کرتا۔اگر ڈرون کا حملہ ہوتا تو ساتھ ہی مقبوضہ گھر کے کچھ افراد بھی نشانہ بنتے جن میں عورتیں‘ بچے‘ مال مویشی سب شامل ہوتے۔ان بے گناہ شہریوں کی تصویریں اتار کر انٹرنیٹ پر ڈال دی جاتیں اور کہا یہ جاتا کہ ڈرون بے گناہوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔یہ پروپیگنڈا پاکستان میں حکومت کے مخالفین کو ایک اچھا ہتھیار نظر آیا اور انہوں نے حکومت کو امریکہ نواز قرار دیتے ہوئے ‘ تنقید شروع کر دی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت امریکہ نوازی کی وجہ سے ڈرونز کے ذریعے پاکستانی شہریوں کو ہلاک کروا رہی ہے۔ اس پروپیگنڈے کے وہ خود بھی اسیر ہو گئے اور پھر یہ نعرہ اپنا لیا کہ امریکہ پاکستان میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس طرح وہ جنگی جرم کا ارتکاب کر رہا ہے اورپاکستان کی خود مختاری کی خلاف ورزی بھی۔ گزشتہ دو سال سے دہشت گردوں نے ایک نئی تکنیک اپنالی ہے۔ شمالی وزیرستان میں جس کسی کا گھر لڑائی میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار یا بری طرح تباہ ہو جاتا ہے‘ یہ دہشت گرد مالک کو پیش کش کرتے ہیں کہ وہ اس کا گھر دوبارہ اچھی طرح سے تعمیر کر دیں گے مگر اس کے نیچے جو تہہ خانہ بنائیں گے‘ وہ ان کے استعمال میں رہے گا۔یعنی پہلے تو گھر والے اور ناجائز قابضین ایک ہی سطح پر رہتے اور اکٹھے نشانہ بنتے تھے مگر اب صورت حال کچھ یوں ہو گئی کہ اگر ڈرون حملہ دہشت گردوں کے ٹھکانے پر ہوتا ہے تو عام طور سے مرنے والے بے گناہ ہوتے ہیں جبکہ تہہ خانوں میں چھپے ہوئے دہشت گرد محفوظ رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ڈرون حملوں میں اب دہشت گرد زیادہ نقصان نہیں اٹھاتے۔یہ تفصیل برسبیل تذکرہ لکھی گئی۔ اصل قصہ طالبان اور امریکیوں کی دشمنی کا ہے۔طالبان کی دلیل یہ ہے کہ پاکستانی حکمران امریکہ کے حاشیہ بردار ہیں۔ اس میں وہ پاکستانی فوج کو بھی شامل کرتے ہیں اورہمارے ملک میں بے گناہوں کو قتل کرنے کا جواز یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ پاکستان امریکہ کا مدد گار اور ساتھی ہے‘ اس لئے ہم امریکی ڈرونز کے حملوں کا بدلہ پاکستانیوں سے لیتے ہیں۔گزشتہ انتخابات تک وہ تمام پاکستانیوں کو امریکی حاشیہ بردار اور واجب القتل سمجھتے تھے اوراپنی بہیمانہ کارروائیوں پر اظہار ندامت نہیں کرتے تھے۔ایسا انہوں نے آج تک نہیں کیا لیکن انتخابی مہم کے دوران انہوں نے اچانک پہلی مرتبہ پاکستان کی سیاست میں مداخلت کی اور اعلان کر دیا کہ وہ انتخابی مہم کے دوران لبرل سیاسی جماعتوںکو نشانہ بنائیں گے‘ پولنگ سٹیشنوں پر بم پھینکیں گے اور ان کے کارکنوں پر حملے بھی کئے جائیں گے۔اس دھمکی کا فائدہ مسلم لیگ(ن)‘ تحریک انصاف‘جے یو آئی(ف) اور جماعت اسلامی کو براہ راست ہوا جبکہ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی کی انتخابی مہم کو شدید نقصان پہنچا۔ ان کے ووٹرز اور کارکن خوفزدہ ہو گئے جبکہ انتہا پسندوں کی حمایت یافتہ پارٹیوں کے وارے نیارے ہوگئے‘ سب سے زیادہ فائدہ مسلم لیگ(ن) کو ہوا۔ اس بات پر نہ ہمارے میڈیا نے توجہ دی اور نہ سیاست دانوں نے کہ انتخابات میں رجعت پسند قوتوں کو سب سے زیادہ فائدہ کس نے پہنچایا؟ اس موضوع پر یا تو بات ہی نہیں ہوئی اور اگر ہوئی تو بہت ہی کم۔سوال یہ ہے کہ وہ طالبان جو ایک مغوی کو رہائی دینے کا بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں‘ کیا انہوں نے سیاسی پارٹیوں کو اتنا بھاری انتخابی فائدہ مفت میں پہنچایا؟ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی‘ جب کوئی فائدہ پہنچایا جاتا ہے تو جواب میں اٹھایا بھی جاتا ہے۔ طالبان نے الیکشن جیتنے والی جماعتوں کو فائدہ پہنچا کر بدلے میں کیا حاصل کیا؟میرا خیال ہے کہ بدلے میں جو کچھ طالبان کو ملنا تھا ‘اس کے لئے مذاکرات کی بساط بچھائی گئی۔نام ڈرون حملوں اور بے گناہوں کی ہلاکتوں کا لیا گیا اور کہا گیا کہ یہ مذاکرات امن کی خاطر کئے جا رہے ہیں۔ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس ’’نیک مقصد‘‘ کی حمایت کر دی اور اگر یہ سلسلہ پروگرام کے مطابق آگے بڑھتا رہتا تو ایک نیا مذہبی اتحاد وجود میں آنے کی توقع تھی۔ اگر آپ یاد کریں تو ایک ہی طرز فکر کے علماء کرام نے طالبان سے مذاکرات میں حصہ لینے کی اپیل کی اور طالبان نے اس اپیل کو قبول کرنے کا اعلان کیا۔یہ بات میں اپنے ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ ہمارے ہاں مساجد اور مدرسوں میں طالبان کے حق میں شدید جذبات پائے جاتے ہیں۔مساجد اور مدارس سے وابستہ علماء کرام اور طلباء کی تعداد دو ملین کے قریب ہے اور یہ عام شہریوں کے مقابلے میں اپنے نظریات کے حق میں انتہائی پر جوش ہوتے ہیں اور لڑنے مرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جبکہ عام شہری اور سیاسی کارکن پر امن جدو جہد کے عادی ہوتے ہیں۔ضیاء الحق کے زمانے سے سیاسی جماعتوں کو جوشیلے مذہبی کارکنوں کی ضرورت کا احساس ہوا اور ہر احتجاجی تحریک یا الیکشن میں ان کی مدد لی جانے لگی۔اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو جاتے تو یقینی طور پر وہ اسلام کے نام پر کچھ ملفوف شرطیں منوا لیتے۔ سٹیک ہولڈر تو انہیں پہلے ہی تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ اقتدار میں بھی اپنا حصہ مانگتے اور اس طرح مذہبی قدامت پرست نہ صرف ایک بالا دست سیاسی قوت بننے میں کامیاب ہو جاتے بلکہ انہیں مسلح نوجوانوں کی مدد بھی حاصل ہو جاتی۔ وہ اپنی پر جوش اور بھاری افرادی قوت اور مسلح ونگ کے ساتھ پاکستانی معاشرے میں بالا دستی حاصل کر لیتے۔مسلمانوں کے لئے بنائے گئے پاکستان کے بارے میں پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہے کہ یہ ملک اسلام کے لئے بنا تھا اور اسلام کے نام پرہر جگہ کا مسلمان یہاں آکر اپنا حق مانگ سکتا ہے۔ تیس لاکھ افغان مہاجرین یہی منطق استعمال کرتے ہیں۔طالبان اور القاعدہ کا تعلق سب کو معلوم ہے۔ طالبان کے امیر المومنین ملا عمر ہیں۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ القاعدہ ‘ملا عمر اور پاکستانی طالبان اور ان کی حمایت کے لئے منظم ہوتے ہوئے علماء کرام اور مدرسوں کے طالب علم یکجا ہو کر ہمارے معاشرے کو کیسی شکل دیں گے؟جیسے جیسے طالبان کا تصورِ اسلام زور پکڑے گا‘ہمارے معاملات میں افغانوں کے ساتھ ساتھ ازبکوں‘تاجکستانیوں اور دیگر وسطی ایشیائی قوموں کا عمل دخل بھی بڑھتا جائے گا۔ دوسری طرف چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں طالبان کے حمایتی برسوں سے سرگرم ہیں۔چند ہی روز پہلے ان دہشت گردوں نے بیجنگ کے تھن من سکوائر کے سامنے ایک سڑک کے پل پر دہشت گردی کی واردات کی۔یوں سمجھ لیں تھن من سکوائر‘پنسلوینیا ایونیو یا ہماری پارلیمنٹ کے سامنے والے چوک کی طرح ہے‘ یعنی ریاستی طاقت کا مرکز۔دہشت گردوں کی اس کارروائی کو چین میں بہت سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔ اب آپ قیاس کر سکتے ہیں کہ مذاکرات کے نتیجے میںطالبان ریاستی سٹیک ہولڈرز میں شامل ہو جاتے تو اس کا مطلب کیا ہوتا ؟ابھی تک تو دہشت گرد عناصر صرف امریکہ دشمنی کی بات کرتے ہیں‘ امریکہ اور بھارت سے کھلی دشمنی کا اعلان کرتے ہیں لیکن یہ چین اور روس کے بھی دوست نہیں اور تمام عرب حکومتوں کے بھی خلاف ہیں۔گویا پاکستان میں طالبان اور ان کے حامیوں کا غلبہ‘ ہمیں ساری دنیا کے ساتھ دشمنی پر مجبور کر دیتا‘ ہم نہ صرف باقی دنیا سے کٹ کر رہ جاتے بلکہ اسے اپنے خلاف صف آرا بھی کر بیٹھتے۔ اس وقت جو سیاسی جماعتیں طالبان کی حمایت کر رہی ہیں اور جس طریقے سے انہوں نے حکیم اللہ محسود کا سوگ منا کر طالبان کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے ‘ اسے اس طرح یاد کیا جا رہا ہے جیسے کسی محسن پاکستان کو قتل کر دیا گیا ہو۔طالبان کے آئندہ کے ارادوں کے بارے میں سوچ لینا چاہیے اور یہ سوچتے وقت یہ بھی یاد کر لینا چاہیے کہ جناب نوازشریف ایک مرتبہ امیر المومنین بننے کی کوشش کر چکے ہیں۔اگر طالبان کی حمایت‘ علماء اور مدرسوں کے طلبا کے تعاون اور انتہا پسندوں کی حامی جماعتوں کے اتحاد کی صورت میں‘ نوازشریف امیر المومنین بننے کے لئے زیادہ پر امید ہو گئے تو کیاان کا ایسا کرنا غلط ہو گا؟رہ گیا امیر المومنین کا سوال تو ظاہر ہے کہ تین کروڑ افغانیوں کا امیر المومنین زیادہ بڑا ہو گا یااٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا؟میں نے یہ ساری قیاس آرائیا ں مضحکہ خیز ممکنات کی روشنی میں کی ہیں لیکن کیا خبرایسا ہو بھی جائے۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے قائداعظم کا پاکستان ‘ مولانا محمد علی جناح کا پاکستان بھی تو بن ہی گیا ہے۔