اپنے دور کی نامور اطالوی صحافی‘ اوریانا فلاسی نے مشرقی پاکستان کی جنگ کے بعد‘ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے ایک انٹرویو کیا ‘ اس میں اندرا گاندھی کے دو جملے‘ ہم پاکستانیوں کے لئے قابل غور ہیں۔ ہمارے لئے تو بہت کچھ قابل غور ہے لیکن یہ ہمارا شعبہ ہی نہیں‘ ایسے ایسے سبق آموز واقعات اور تجربات کرنے کے بعد بھی‘ اگر ہم ہر نئے دن‘ پہلے سے زیادہ ڈھلوان کی طرف جا رہے ہیں تو پھر دنیا کی کوئی بھی سبق آموز کہانی‘ واقعہ یا تاریخ کا کوئی حصہ ‘ہماری آنکھیں نہیں کھول سکتا۔اندرا گاندھی نے پاکستان کے ساتھ ہونے والی جنگ کے بارے میں بتایا’’میں ایک بات واضح کر دوں‘ امریکہ ہمیشہ سوچتا ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کر رہا ہے اگر امریکہ نے پاکستان کی مدد نہ کی ہوتی تو آج پاکستان ایک مضبوط ملک ہوتا۔اکثر اوقات دوست خطرناک ثابت ہوتے ہیں‘ہمیں دوستوں کی مدد لیتے ہوئے انتہائی محتاط رہنا چاہئے‘‘۔ایک دشمن ملک کی لیڈر نے ہمارے مرض کی جو تشخیص کی ہے‘ ہمیں بہت پہلے کر لینا چاہئے تھی۔ غالباً ہنری کسنجر نے کہا تھا ’’امریکہ جتنا اپنے دشمنوں کے لئے خطرناک ہے‘ اس سے زیادہ خطرناک وہ اپنے دوستوں کے لئے ہوتا ہے‘‘۔ ان دونوں شخصیتوں کے الفاظ پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ پاک امریکہ تعلقات کی درد ناک کہانی کا عمدہ خلاصہ ہے۔ہمارے لیڈروں نے خوف اور عدم تحفظ کی جو کیفیت آزادی کے بعد‘ خود پر طاری کر لی تھی‘ اس کے نتیجے میں ہم امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدوں میں پھنس گئے مگر اپنے تحفظ کے لئے ہم نے جو طریقہ اختیار کیا اس کی وجہ سے فوراً ہی ہم کشمیر اپنے ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ سلامتی کونسل میں کشمیر پر بحث ہو رہی تھی اور کوئی بھی ملک اس معاملے میں ویٹو کا استعمال نہیں کر رہا تھا۔ عالمی طاقتیں اور بیشتر رکن ممالک‘ پاکستان کے موقف کو بہتر طریقے سے سمجھ رہے تھے اور یو این او کی قرار دادیں‘کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کی طرف جا رہی تھیں۔ اقوام متحدہ نے ثالث بھی مقرر کئے ‘اس وقت بھارت کشمیر کو اپنے ملک کا حصہ قرار دینے سے گریزاں تھا لیکن جب ہم نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے کر لئے تو سوویت یونین کا رویہ بدل گیا۔معاہدے کے بعدماسکو کے لیڈر جب بھارت کے دورے پر آئے تو وہ کشمیر کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے دہلی پہنچے۔ سمجھنے والے اسی وقت سمجھ گئے تھے کہ اب سوویت یونین تنازع کشمیر کے معاملے میں بھارت کی حمایت کرے گا‘ ایسا ہی ہوا۔ تنازع کشمیر پر ماسکو نے بھارت کے حق میں ویٹو کا استعمال شروع کر دیا اور سوویت یونین کی حمایت حاصل کرنے کے بعد پنڈ ت نہرو نے فوراً ہی موقف بدلا اور کہنا شروع کر دیا کہ’’ پاکستان نے فوجی معاہدوں میں شامل ہو کر صورت حال تبدیل کر دی ہے‘‘۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کشمیر کے معاملے میں بے بس ہو گئی اور آج تک بے بس چلی آرہی ہے۔بعد میں پاکستان ایسے بندھن کا پابند ہوتا چلا گیا جس کے ہوتے ہوئے اب ہم کشمیر کا مسئلہ یو۔این میں نہیں لے جا سکتے۔بعض خوش فہم لوگ آج بھی سوچتے ہیں کہ ہم کشمیر کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھا سکتے ہیں لیکن زمینی حقائق بدل چکے ہیں۔آج اگر ہم کشمیر کا معاملہ سلامتی کونسل میں لے جانے کی کوشش کریں گے تو ہمیں دو چار کے سوا کسی رکن ملک کی حمایت نہیں ملے گی۔ دو چار لکھ کر بھی شاید میں نے مبالغہ کر دیا ہے۔ 1965ء کی جنگ ہماری قیادت کی اس غلط فہمی کا نتیجہ تھا کہ ہم امریکی ہتھیار استعمال کر کے بھارت سے کشمیر چھین لیں گے حالانکہ فوجی معاہدوں میں واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ پاکستان کو دیا جانے والا اسلحہ‘ صرف کمیونسٹ خطرے کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا‘ جس کا واضح مطلب یہ تھا کہ ہم امریکی ہتھیاروں سے بھارت کے ساتھ جنگ نہیں لڑ سکتے۔اسی شرط کو بنیاد بنا کر امریکہ نے65ء کی جنگ میں ہمیں ہتھیاروں کے فالتو پرزے دینے سے انکار کر دیا‘ جس پر ہمارے لیڈروں نے شور مچایا کہ امریکہ نے اتحادی ہوتے ہوئے‘ وقت پر ہمارا ساتھ چھوڑ دیا حالانکہ اصل میں خود انہوں نے غلط اندازے لگا کر چھمب جوڑیاں پر حملہ کیا تھا اور بھارت نے پاکستان کی عالمی سرحدوں کو پارکر کے ہماری سالمیت کے لئے خطرہ پیدا کر دیا۔ یہاں بھی ہماری قیادت کے اندازے غلط نکلے‘ ا س نے یہ سوچ کر مقبوضہ کشمیر پر حملہ کیا تھا کہ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے اور بھارت عالمی سرحدیں پار نہیں کرے گا۔یہ اندازے غلط نکلے اور بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ جب پاکستانی لیڈروں نے امریکہ سے مدد مانگی تو اس نے ہمیں اسی سوویت قیادت سے تعاون لینے کا مشورہ دیا‘ جس کے خلاف ہم امریکہ سے فوجی معاہدے کر چکے تھے۔ ہمارے لیڈروں کو مجبور ہو کر تاشقند جانا پڑا اور سوویت لیڈروں کے دبائو میں آکر ہمیں تنازعہ کشمیر کو دو طرفہ معاملہ تسلیم کرنا پڑگیا۔اسے معاہدہ تاشقند کا نام دیا گیا اور ہم جس سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے اتحادی تھے ‘ ہمیں اسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ 65ء کی جنگ کے بعد امریکہ نے ہمارا اتحادی ہوتے ہوئے ہمارے ملک میں ایک نئی سازش کی بنیاد رکھی۔آج کی دنیا میں آپ کسی کو بھی اس لئے قصور وار نہیں ٹھہرا سکتے کہ اس نے اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لئے موقعے سے فائدہ اٹھا لیا۔ قوموں کی برادری میں ایسے مواقع کوئی بھی ضائع نہیں کرتا۔ہمارے حکمران طبقوں کے درمیان مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کے حقوق تسلیم کرنے پر مدتوں سے تنازع چل رہا تھا۔ مغربی پاکستان کے حکمران طبقوں نے مختلف حیلے بہانوں سے مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کو حق حکمرانی سے محروم رکھنے کے لئے ہر طرح کی زیادتیاں کیں۔مشرقی پاکستان کی اکثریت پاکستان کو سیکولر ریاست کی حیثیت دینا چاہتی تھی جبکہ مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے مذہبی عناصر جو کہ تحریک پاکستان کے مخالف تھے ‘کو اپنا حامی بنایا اور پاکستان کے آئین میں پہلی مرتبہ ریاست کو مذہب کے ماتحت کر دیا۔ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے پاکستانی دستور کی بنیادوں میں متعدد نکات رکھنے کی تجاویز دیں اور مشرقی پاکستان کی اکثریت سے خوفزدہ ‘مغربی پا کستان کی قیادت نے‘ دو خوفناک حربے استعما ل کئے۔ایک تو پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا گیا اور دوسرے ون یونٹ بنا کر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو مغربی پاکستان کے اقلیت کے برابر کر دیا اور یوں اپنی طرف سے مشرقی پاکستانیوں کا حق اقتدار ہمیشہ کے لئے چھین لیا۔65ء کی جنگ کے بعد امریکہ نے اسی تضاد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستانیوں کو ابھارنا شروع کر دیا کہ وہ اپنے لئے علیحدہ وطن بنا لیں۔اس زمانے میںامریکہ کے معروف سفارت کار جوزف فارلینڈ کو بطور خاص‘ سفیر بنا کر بھیجا گیا اور اس نے عوامی لیگ کی مدد کر کے اسے ایک بڑی سیاسی طاقت بننے کے وسائل مہیا کر دئیے۔اس کام میں بھارت بھی امریکہ کا ساتھی تھا۔ یہ کہانی آگے چل کر درد ناک ہوتی چلی گئی۔ یحییٰ خان نے یہ جانتے ہوئے کہ مشرقی پاکستان کی بھاری اکثریت ملک میں سیکولر نظام چاہتی ہے‘1970ء کے انتخابات کرانے کے لئے ایک لیگل فریم آرڈر بنا دیا‘ جس میں مذہب کے بارے میں پابندیاں لگا کر کہا گیا کہ جو امیدوار اس فریم ورک آرڈر کے تحت انتخابات میں حصہ لے گا‘ وہ اسلامی نظام کے نفاذکا پابند ہو گا۔یہ لیگل فریم ورک آرڈریحییٰ خان نے نافذ کیا تھا اور ان دنوں جو لوگ دہشت گردوں کی حمایت میں پیش پیش ہیں وہی لوگ یحییٰ خان کا ساتھ دے رہے تھے او ر جب عوامی لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئی تو اسے اقتدار دینے سے انکار کر دیا گیا اور یحییٰ خان کے ٹولے نے مذہبی سیاست دانوں کی حمایت سے ڈھاکہ پر ٹینک چڑھا دئیے۔عوامی لیگ کی قیادت کی گرفتاریوں کے احکامات جاری کر دئیے‘ کچھ لوگ ہاتھ آگئے اور باقی مغربی بنگال چلے گئے۔انہیں بھارتی کیمپوں میںمحصور کر کے باغی بنگالیوں کی ایک گوریلا تنظیم تیار کی گئی‘ جس نے مشرقی پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر ختم کر کے رکھ دیا‘ حکومت کا عملی طور پر کوئی وجود نہ رہا اور باہر سے بھارتی فوجوں نے پیش قدمی شروع کر دی۔ہمارے نالائق حکمران پھر بھی امریکی بھروسے پر بیٹھے رہے اور امریکہ نے اپنے اور یورپی اتحادیوں کے شہریوں کو نکالنے کے لئے ‘جو بحری جہاز مشرقی پاکستان کے قریب پہنچائے تھے‘ ان کے بارے میں کہا گیا کہ امریکی جہاز پاکستانی فوج کی مدد کرنے آئے ہیں۔انجام کار پاکستانی فوج کو شکست تسلیم کرنا پڑی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو امریکہ ایک بار پھر ہماری مدد کو آیا۔ ضیاء الحق نے ڈالروں کے عوض امریکیو ں کی جنگ لڑنے کا ذمہ لیا‘ وہ دن اور آج کا دن ‘پاکستان بحرانوں میں پھنستا چلا گیا اور آج بھی امریکہ نے دہشت گردی کی جو فصل ہماری سر زمین پر کاشت کی تھی‘ اب وہ بڑی ہو گئی ہے اور ہمیں اس میں سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔امریکہ کو اتحادی اور دوست سمجھ کر ہم یہاں تک تو آ پہنچے ہیں۔ اگلی منزل کیا ہو گی؟سچی بات ہے پوری طرح سے یہ بات کسی کی سمجھ میں بھی نہیں آرہی۔