ہنگو میں ڈرون حملے کے 10 گھنٹے بعد‘ حکومت پاکستان کی طرف سے اس کی مذمت سامنے آئی۔ لیکن امریکہ نے کہا ہے کہ ڈرون کا ہدف مدرسہ نہیں تھا۔ بلکہ اس کے قریب واقع ایک ایسا گھر تھا‘ جو حقانی گروپ کے استعمال میں رہتا تھا۔ اس کے لیڈر اور کارکن‘ یہاں آرام‘ علاج اور ملاقاتوں کے لئے آیا کرتے تھے۔ جس روز یہ حملہ کیا گیا‘ اس روز بھی حقانی گروپ کے سربراہ سراج الدین حقانی کے نائب احمد جان‘ پکتیا میں افغان طالبان کے لیڈر شیرگل اور خوست میں افغان طالبان کے سرکردہ لیڈر‘ مولوی حمیداللہ وہاں موجود تھے۔ ان کی موجودگی کی اطلاع دو دن پہلے ہو گئی تھی۔ امریکی یہ بات نہیں مانتے کہ مدرسے کو اس رہائش گاہ کے قریب ہونے کی وجہ سے نقصان پہنچا۔ ان کے مطابق وہ محفوظ ہے اور طالب علم بھی جاں بحق نہیں ہوئے۔ ''واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے چند روز پہلے اسلام آباد میں نصیرالدین حقانی کے قتل کا بھی حوالہ دیا ہے‘ جس کی لاش فوری طور پر غائب کر دی گئی اور اس کے رشتہ داروں نے اسے دفنایا۔ پاکستان کی سرزمین پر یہ پہلا ڈرون حملہ نہیں ہے۔ 5 سال پہلے بھی ایسا واقعہ ہوا تھا اور حکومتی ردعمل کم و بیش وہی تھا‘ جو تازہ حملے پر ہوا۔ تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری نے اسے ''پاکستانی عوام کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے‘‘۔
یوں لگتا ہے کہ پاکستان اس حملے کو بھی ماضی کے حملوں کی طرح برداشت کر جانے کے موڈ میں ہے۔ مگر 5 سال پہلے اور آج کے حالات میں بہت بڑا فرق پیدا ہو چکا ہے۔ وہ ڈرون حملے جو ماضی میں ہوئے تھے‘ حکومت پاکستان کے ساتھ ایک انڈرسٹینڈنگ کے تحت کئے گئے‘ جس کی غیرسرکاری تصدیق بھی ہو گئی تھی۔ اس وقت ایک ایسی غیرسرکاری دستاویز کا حوالہ منظرعام پر آیا تھا‘ جس میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے یہ بات منسوب کرتے ہوئے لکھا گیا تھا کہ انہوں نے ایک امریکی عہدیدار سے کہا ''آپ حملے کرتے رہیں‘ ہم اس پر خاموش رہیں گے‘‘۔ الفاظ شاید یہ نہیں تھے لیکن مفہوم یہی تھا۔ مگر آج حکومت پاکستان کی پوزیشن مختلف ہے۔ اس حکومت نے ڈرون حملوں کے خلاف واضح پوزیشن لے رکھی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے واشنگٹن کے دورے پر جانے سے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ وہ صدر اوباما سے ڈرون حملوں کے بارے میں پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کریں گے‘ جس کا واضح مطلب تھا کہ انہیں حملے بند کرنے کے لئے کہیں گے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم سلامتی کونسل کے اجلاس میں‘ تقریر کے دوران بھی ڈرون حملوں کے خلاف اقوام عالم کی توجہ مبذول کرا چکے تھے۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے بعد‘ حکومتی ترجمانوں نے تاثر دیا تھا کہ پاکستان نے‘ امریکی حکام سے شدید احتجاج کیا ہے۔ عوام کے جذبات ان تک پہنچائے ہیں اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ امریکہ نے وزیر اعظم کے خیالات کو توجہ سے سنا ہے۔ صرف ایک دن پہلے وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر‘ جناب سرتاج عزیز نے بیان دیا کہ امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے بند کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ہنگو کا ڈرون حملہ‘ اس بیان کے فوراً بعد کیا گیا۔ یہ بھی ایک طرح کا پیغام ہے۔ امریکیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس رہائش گاہ کو ڈرون کا نشانہ بنایا گیا‘ اسے بہت عرصے سے حقانی گروپ کے جنگجوئوں کی پناہ گاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے اس نئے حملے کی اہمیت اور سٹریٹجک اثرات کا محتاط تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک بات تو واضح ہے کہ امریکہ‘ افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلا کے بعد بھی کرزئی کی جانشین حکومت کے ساتھ‘ سلامتی کا معاہدہ کرنے کا بندوبست کر چکا ہے۔ 2014ء کے آخر میں جو بھی سیاسی طاقتیں کابل میں حکومت بنائیں گی‘ قیاس کرنا چاہیے کہ اس معاہدے کے مسودے پر‘ ان سب سے بھی مشاورت ہو چکی ہو گی۔ یہ بھی طے ہے کہ امریکہ‘ افغانستان کی سلامتی کے امور میں آئندہ بھی ذمہ دارانہ کردار ادا کرے گا۔ ہنگو پر ڈرون حملہ کا مطلب دراصل دنیا اور بالخصوص پاکستان کو اسی کردار کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ جن عناصر نے بھی نصیرالدین حقانی کو اسلام آباد میں ہلاک کیا‘ وہ بہرحال امریکی مفادات کے لئے کام کرنے والے لوگ تھے۔ ہنگو کے حملے اور اسلام آباد کی ہلاکت کو اس انداز میں دیکھنا چاہیے کہ آئندہ پاکستان اور حقانی گروپ کے مابین خیرسگالی پر مبنی تعلقات کو امریکی برداشت نہیں کریں گے۔ اس گروپ کے خلاف واضح جارحانہ پالیسی کی ابتدائی جھلکیاں ہمیں دکھا دی گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر‘ شوکت یوسف زئی نے اسی امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ''اب پاکستان کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں رہ گیا۔ ڈرونز‘ قبائلی علاقوں سے باہر حملے شروع کر چکے ہیں‘‘۔ یہ بیان نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد میں قاتلانہ واردات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''دشمن ضرورت پڑنے پر‘ اسی طرح کا مقصد پورا کرنے کے لئے اسلام آباد میں بھی ڈرون کا استعمال کر سکتا ہے۔‘‘
پاکستان کے لئے ایک اور تشویشناک خبر‘ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت مولوی فضل اللہ کے سپرد ہونا ہے۔ یہ منصب‘ مولوی فضل اللہ کو ملا عمر کی ذاتی دلچسپی کے نتیجے میں حاصل ہوا۔ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان‘ اپنے آپ کو ایک خود محتار اور علیحدہ تنظیم قرار دیتی تھی‘ جبکہ نجی طور پر اس کے لیڈر‘ ملا عمر کو امیرالمومنین مانتے تھے۔ لیکن اب تحریک طالبان پاکستان‘ افغان طالبان کی اتحادی تنظیم کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب پاکستانی طالبان‘ ہمارے ملک میں جو کارروائیاں کریں گے‘ ان میں انہیں‘ افغان طالبان کی مدد اور تعاون حاصل ہو گا۔ حقانی گروپ کی پوزیشن مختلف ہے۔ وہ امریکیوں کے خلاف برسرپیکار ہے‘ جبکہ وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ ا مریکہ کی مخالفت میں حقانی گروپ‘ افغان طالبان کا حلیف ہے۔ لیکن اسے پاکستان سے قریبی تعلقات رکھنے کی بنا پر‘ پاکستانی طالبان‘ اپنا ہدف بنا سکتے ہیں۔ یہ ہمارے لئے ایک نیا دردسر ہو گا۔ افغان طالبان سے تعلق رکھنے والے دو گروہ اپنی جنگ‘ ہماری سرزمین پر لڑ رہے ہوں گے۔ جیسے جیسے افغان جنگ میں موجودہ حلیفوں اور حریفوں کی پوزیشنیں بدلیں گی‘ اسی طرح ہمیں بھی نئے پیدا ہونے والے حالات میں‘ اپنی پوزیشن کا خیال کرنا پڑے گا۔ جس طرح ماضی میں ہم غیرمتبدل اور سیدھی لکیر پر چلنے والی خارجہ پالیسی چلاتے آئے ہیں‘ اب اسے جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ حالات بھی تیزی سے بدلیں گے اور ہمیں اپنے حامیوں اور مخالفوں کے بارے میں فیصلے بھی تیزی سے کرنا پڑیں گے۔ متحرک اور تیزرو تبدیلیوں سے تیزرفتار ہم آہنگی‘ ہماری ضرورت بن جائے گی۔ کیا ہم اس کے تقاضے پورے کر پائیں گے؟
نیا ڈرون حملہ ایک اور اعتبار سے بھی انتباہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے امریکہ سے اب تک جتنے رابطے کئے ہیں‘ ان میں وہ تبدیل شدہ حالات کے ادراک کا تاثر نہیں دے سکی۔ ورنہ اسے امریکہ کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرنے کی ضرورت تھی اور اس کے لئے مختلف شعبوں میں علیحدہ علیحدہ مذاکرات کا ایک مناسب سلسلہ شروع کر دینا چاہیے تھا۔ چونکہ ایسا نہیں ہو سکا‘ اس لئے میرا قیاس یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے‘ اپنے اور امریکہ کے تعلقات کو 1999ء کے مقام سے دیکھنے کی کوشش کی ہے‘ جو ظاہر ہے امریکی انتظامیہ کے لئے غیرمتوقع ہو گی۔ غالباً امریکیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ نواز حکومت‘ اقتدار سے اپنی علیحدگی کے بعد رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک نہیں کر پا رہی اور سابقہ دوستانہ اور باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات کی دنیا میں رہ رہی ہے۔ حالیہ ڈرون حملہ‘ نواز حکومت کو حقیقت حال سمجھانے کے لئے‘ ایک جھٹکے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس جھٹکے کو محسوس کرتے ہوئے ہمیں خواب غفلت سے نکل کر‘ نئے حقائق اور نئے حالات کی روشنی میں‘ امریکہ سے رابطے کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا کرنے کے لئے ایک نئی پالیسی مرتب کرنا پڑے گی‘ جس پر قومی اتفاق رائے بھی ہو اور حکومت اس پر عملدرآمد کے لئے اندرون ملک فضا بھی ہموار کر چکی ہو۔ اگر ہم ادھوری تیاریوں اور غیرحقیقی تصورات کے ساتھ امریکیوں سے معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے‘ تو اس میں کامیابی ممکن نہیں ہو گی۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی بنیادیں تلاش کر سکتے ہیں اور موجودہ غیرمتحرک تعلقات کو حریفانہ بھی بنا سکتے ہیں۔