پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف کے دفتری‘ خاندانی اورسوانحی کوائف آپ کل سے ٹی وی چینلوں پر سن رہے ہوں گے اور آج کے اخبارات میں بھی پڑھ چکے ہوں گے۔ انہیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ لکھنے اور بولنے والوں کی ایک اور قسم ''میں نے پہلے بتا دیا تھا ‘‘والی ہے۔ وہ آپ کو لطف اندوز کر چکی ہو گی۔ میں اس تبدیلی کے حوالے سے اپنے چند خیالات پیش کروں گا۔ جنرل راحیل کو پاک فوج کی کمان ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے‘ جب تاریخ ایک نئی کروٹ لینے والی ہے اور اس تبدیلی کو برسوں نہیں‘ صدیوں کے حوالے سے دیکھنا چاہیے۔ جدید تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ سرمایہ دار بلاک کی قیادت کرنے والے ملکوں کے گروپ میں''گراں خواب‘‘ چینیوں نے ساتھ بیٹھ کرایک ایسے عالمی معاہدے پر دستخط کئے‘ جو ہمارے خطے ہی نہیں‘ عالمی سطح کی تبدیلیوں کی بنیاد بنے گا۔ آنے والے دور کی تبدیلیوں کو سمجھنا اور اپنے ملک کی دفاعی پالیسیوں کو ان سے ہم آہنگ کرنا‘ جنرل راحیل کے لئے ایک نیا چیلنج ہو گا‘ جس کا پہلے کسی فوجی سربراہ نے سامنا نہیں کیا۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ چین ‘ سرمایہ دار دنیا کی قیادت کرنے والے ملکوں کے ساتھ بیٹھ کر عالمی نوعیت کے مذاکرات میں برابر کی سطح پر شریک ہوا ہو۔ یہ نئی دنیا کا پہلا دور ہے‘ جس میں نہ صرف دفاع اور سلامتی کے تصورات میں بنیادی تبدیلیاں آئیں گی بلکہ ان تبدیلیوں کے رخ کا تعین کرنے والے متضاد نظاموں اور سوچوں کی نمائندگی کر رہے ہوں گے۔ ہرچند روس اور بھارت‘ جنیوا کے گروپ 5میں شامل نہیں تھے لیکن ان سب کے درمیان بھی جنیوا مذاکرات اور دیگر امور کے بارے میں ایک وسیع انڈرسٹینڈنگ موجود تھی۔
جنرل راحیل کے لئے دوسرا بڑا چیلنج افغانستان میں ہے‘ جہاں اتحادی افواج کا انخلا شروع ہورہا ہے۔ اس انخلا کے دوران جو کچھ ہو گا‘ پاکستان پر اس کے گہرے اثرات پڑیں گے اور انخلا کے بعد کا افغانستان بھی ہمارے لئے مدتوں پریشانیوں کا باعث بنا رہے گا۔ وہاں پر امریکہ کی پروردہ حکومت اور طالبان کے درمیان محاذآرائی ناگزیر ہے۔ اس محاذ آرائی سے افغانستان کا جو پڑوسی ملک حد سے زیادہ متاثر ہو گا‘ وہ پاکستان ہے۔وہاں سے یقینی طور پر مہاجرین کی ایک نئی لہرپاکستان میں داخل ہو گی اورہمارے معاشرے کے ڈھانچے کو زیروزبر کرنے کا سلسلہ پھر سے شروع کر دے گی۔ ان مہاجرین کو ہم کیسے سنبھالیں گے؟ اوران میں افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی اور طالبان کے کتنے ایجنٹ شامل ہوں گے؟ ہمارے لئے ان پر نظر رکھنا بھی لازم ہو گا۔ جنرل راحیل کو پاکستان کے اندر موجود نظریاتی تقسیم کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے قومی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ ہم طالبان اور افغان حکومت کے سوال پر ایک متحدہ قومی پالیسی مرتب کر کے اس پر عملدرآمد کریں۔ مگر ایسا نظر نہیں آتا۔ یہاں بہت سی مذہبی اور سیاسی جماعتیں نہ صرف طالبان کی حامی بلکہ ان کی حلیف بھی ہیں جبکہ حقیقت میں طالبان کے نظریات پاکستان میں اپنے حامیوں سے مختلف ہیں۔ وہ اسلامی نظام کی بات ضرور کرتے ہیں مگر عمل میں ان کی سوچ قومی ہے۔ انہوں نے عین اس وقت بھی ڈیورنڈ لائن کے بارے میں افغانستان کی روایتی پالیسی پر نظرثانی نہیں کی تھی ‘ جب پاکستان نہ صرف انہیں افغانستان میں مضبوط کرنے کے لئے سرگرم تھا بلکہ بیرونی دنیا میں بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ جن تین ملکوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا‘ انہیں بھی پاکستان نے ہی انتھک کوششوں سے آمادہ کیا تھا اورآج کی صورتحال یہ ہے کہ افغان طالبان ‘ تحریک طالبان پاکستان کو اپنی برانچ کا درجہ دے چکے ہیں۔ حکیم اللہ محسود جب پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوا‘تو اسے ڈرون کا نشانہ بنا کر راستے سے ہٹا دیا گیا اور اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا کہ اس نے حکیم اللہ محسود کی ہلاکت میں کردارادا کیا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور اس حقیقت تک پہنچنے کے لئے ہمیں حکیم اللہ محسود کے بعد آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکے گا کہ حکیم اللہ کی ہلاکت پاکستان کے لئے نہیں‘ ان کے لئے فائدہ مند تھی جو اس کے وارث بنے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی رہنمائی کے لئے جس شخص کا انتخاب کیا گیا‘ اسے افغان طالبان کی حمایت اور مدد حاصل تھی اور وہ خود بھی افغان طالبان کے رحم و کرم پر زندگی گزارتا ہے۔ اس انتخاب میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت شمالی وزیرستان سے آگے نکل کر پاکستان کے بندوبستی علاقوں میںآ گئی ہے۔ گویا ان کی سرگرمیوں کا دائرہ پورے پاکستان تک پھیلانے کی تیاریاں کی جائیں گی۔ دوسرے یہ کہ حکیم اللہ محسود نے مذاکرات پر آمادہ ہو کر پاکستان کے ساتھ مفاہمت کا جو راستہ اختیار کیا تھا‘تحریک طالبان پاکستان اب اسے نہ صرف ترک کر دے گی بلکہ آئندہ کے لئے بھی مذاکرات کے بجائے‘ محاذآرائی کا راستہ اختیار کرے گی۔ ملا فضل اللہ نے یہ بات چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ میں نے یہ نکتہ واضح کرنے کی خاطر الفاظ کی فضول خرچی نہیں کی بلکہ میں اس کی ضرورت سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی رائے عامہ کے ذہن سے یہ خوش فہمی ختم ہو جائے کہ افغان طالبان ہمارے دوست یا ساتھی ہیں۔ ان کی نظریں افغان سرحدوں کے باہر بھی دور تک جا رہی ہیں اور اس بات کو سمجھنے کے لئے تحریک طالبان پاکستان کی قیادت ہمارے بندوبستی علاقے سے منتخب کرنے کی وجوہ پر غور کر لینا کافی ہے۔ نئی فوجی قیادت کو اس دوہرے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کے اندر موجودفکری تقسیم اور افغان طالبان کے بارے میں ہمارے متضاد نظریات سے نمٹنا انتہائی دشوار ہو گا۔ یہ تقسیم پاکستان میں ہر سطح پر پائی جاتی ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے بارے میں پاکستان کا ہر فوجی افسر پوری تفصیل کے ساتھ سارے معاملات کو سمجھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پاک بھارت تعلقات کے ورثے پر جنرل راحیل کی بھی گہری نظر ہو گی اور اس معاملے میں پاک فوج بطور ادارہ جو کچھ جانتی ہے‘ جنرل راحیل اسی کی روشنی میں پالیسی سازی کے دوران اپنا حصہ ڈالا کریں گے‘ان کے لئے پاکستان دشمن طالبان کے مقابلے میں ان کے پاکستانی حامیوں سے نمٹنا زیادہ مشکل ہو گا۔
نئے چیف آف آرمی سٹاف کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوجی سربراہ کی حیثیت میں بہت سے خطرناک کانٹے پہلے ہی سے چن کر نکال دیئے ہیں۔ انہوں نے فوج کو سول عہدوں سے واپس بلا کر کرپشن کی دلدل سے محفوظ کر دیا ہے۔ ہماری سول بیوروکریسی اور سیاسی طبقہ دونوں ہی کرپشن کے کینسر کا شکار ہیں۔ پاکستان کی سلامتی اور دفاع کے ذمہ دار ادارے کا اس کینسر سے محفوظ رہنا لازم تھا۔ جنرل کیانی اس معاملے میں اپنے حصے کا بہت سا کام کر چکے ہیں۔ لیکن کافی کام باقی ہے۔ یہ جنرل راحیل کو انجام دینا ہو گا۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے معاملے میں پاک فوج کے اندر فکری کنفیوژن کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ جنرل کیانی نے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج میں یکجہتی‘ یکسوئی اور اتحاد کی ان روایات کو بحال کیا ہے‘ جو ڈسپلن کے لئے ضروری ہیں۔ جنرل راحیل کو یہ سلسلہ آگے بڑھانا ہو گا۔ آخر میں جنرل کیانی کو خراج تحسین پیش کروں گا کہ وہ ابتدائی ایام میں بڑے بڑے امتحانوں سے کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوئے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ پہلے دو سال کے دوران انہیں کتنے شدید دبائو برداشت کرنا پڑے۔ میڈیاجارحانہ انداز میں ان پر دبائو ڈال رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اقتدار پر قبضہ کر لیں۔ منتخب حکومت اور جمہوریت کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔ دوسری طرف فوج کے اندر بھی ایسے عناصر موجود تھے‘ جو جمہوری حکومت کے خلاف شدید جذبات رکھتے تھے اور اقتدار پر قبضے کے خواہش مند تھے اور تیسری طرف سے انہیں اپنے جوانوں اور افسروں کی شہادتوں کے صدمے برداشت کرنا پڑ رہے تھے۔ فوج سے محبت ان کے خون میں شامل ہے۔ جو کچھ انہوں نے شہیدوں کے لئے کیا اور دشمن کی قید میں پامردی سے ناقابل برداشت اذیتیں برداشت کر کے حوصلے برقرار رکھنے اور زندہ واپس آنے والے سپاہیوں کی جو قدرافزائی جنرل کیانی نے کی‘ اس سے بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انہیں اپنے جوانوں کی تکالیف اور شہادتوں کا کتنا احساس رہتا تھا۔ یہ سارے دبائو انہیں ایک ہی وقت میں برداشت کرنا پڑے۔ جنرل کیانی آہنی اعصاب کے مالک ہیں۔ لیکن وہ بھی انسان ہیں۔ میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ فوج کی سربراہی کے دوران‘ ان پر کیا گزری ہو گی؟ یوں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ مزید اعصابی دبائو سے بچنے کے لئے کیا ہے۔ لیکن انہوں نے اپنے جانشین کے لئے وہ دبائو بڑی حد تک کم کر دیئے ہیں‘ جو خود انہیں برداشت کرنا پڑے۔قومی فوج کی تاریخ میں ان کا نام بلند پایہ جنرلوں کے ساتھ لکھا جائے گا۔