ایٹمی اسلحہ کے سوال پر‘ ایران اور امریکہ کے مابین جو مرحلہ وار معاہدہ ہوا ہے‘ اس کے نتیجے میں شرق اوسط میں ایک نئی کشمکش جنم لے رہی ہے۔سب سے شدید ردعمل سعودی عرب کا ہے۔ وہاں کے حکمران خاندان کے غم و غصے میں کمی لانے کے لئے ایران نے براہ راست رابطوں کی پیشکش کی ہے اور کہا ہے کہ اس کے وزیرخارجہ‘ سعودی حکومت سے بات چیت کے لئے وہاں جانا چاہتے ہیں۔ فی الحال یہ دورہ نہیں ہوا۔ لیکن امریکہ اور سعودی عرب کے مابین تلخیاں بہت پہلے پیدا ہو گئی تھیں۔ جب صدر اوباما نے شام پر حملے کی باقاعدہ تیاریاں کر لینے کے بعد‘ اچانک رخ بدلا اور شام کے حکمران بشارالاسد پر دبائو کم کرتے ہوئے‘ انہیں دوبارہ قدم جمانے کی مہلت دے دی۔ سعودی عرب‘ امریکی فیصلے کی اس تبدیلی پر‘ سخت ناراض ہے اور شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے‘ اس نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں وہ نشست لینے سے بھی انکار کر دیا‘ جو اسے پیش کی گئی تھی۔اسرائیل کی طرح سعودی عرب کو بھی ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر شدید اعتراضات ہیں اور اس کا خیال ہے کہ ایران اس معاہدے کی شرائط کی موجودگی میںبھی‘ ایٹم بم بنانے کی تیاریاں جاری رکھے گااور معاہدے کے باوجود‘ وہ شام میں برسراقتدار حکومت کو بچانے کے لئے اس کی مدد کرتا رہے گا۔ جس کا مطلب سعودی حکومت کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے حمایت یافتہ جو باغی‘ شام میں ''جہاد‘‘ کر رہے ہیں‘ ان پر حکومتی دبائو میں اضافہ ہوجائے گا اور انہیں شدید جانی نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔
سعودی حکومت کا خیال ہے کہ معاہدے کی روشنی میں ایران کو غیرمعمولی سہولتیں حاصل ہو جائیں گی۔ 7ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم‘ جو مغرب کے بنکوں میں منجمد کر دی گئی تھی‘ وہ ایران کو ملنے والی ہے۔ مجموعی طور پر بیرونی دنیا میں‘ایران کا واجب الادا سرمایہ ایک سو بلین ڈالر کے قریب ہے۔ اتنی بڑی رقم ملنے کے بعد ایران نہ صرف داخلی مشکلات سے نکل آئے گا بلکہ وہ خطے میں جارحانہ پالیسیوں پر عمل کے قابل بھی ہو جائے گا۔ فی الحال امریکہ کی طرف سے سعودی عرب اور اسرائیل کو جو تسلیاں دی جا رہی ہیں‘ وہ ان سے مطمئن نہیں۔ اسرائیل کو خوف ہے کہ ایران 2سال کے اندر اندر ایٹم بم بنانے کے قابل ہو جائے گا اور پھر اس کے حکمران طبقے‘ اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی جو دھمکیاں دے رہے ہیں‘ ان پر کسی وقت بھی عملدرآمد کر کے‘ اسرائیلی ریاست کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نیتن یاہو ‘ امریکہ اور اتحادیوں کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایرانی ایٹم بم‘ واقعی ان کے لئے ایک ڈرائونا خواب ہے اور جب بھی انہیں یہ شک ہوا کہ ایران ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے‘ تو وہ خود حملہ کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ خواہ اس کے نتائج کچھ ہوں۔امریکہ میں اسرائیل کی حامی لابی سرگرم ہو چکی ہے۔ اس کی کوشش ہو گی کہ ایران کے ساتھ معاہدے کو کانگریس کی حمایت حاصل نہ ہو پائے۔
سعودی عرب نے گزشتہ تین عشروں کے دوران‘ خطّے کے اندر اپنے حامی ملکوں کا جو گروپ تیار کیا تھا‘ اس معاملے میںوہ سعودیوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر رہا۔ متحدہ عرب امارات‘ اومان‘ قطر‘ حتیٰ کہ بحرین بھی ایران امریکی معاہدے کی شدید مخالفت سے گریز کر رہے ہیں اور ان کا جھکائو امریکی موقف کی طرف ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کا بے لچک رویہ خطے میں کشیدگی اور محاذآرائی میں اضافہ کرے گا اور اگر ایران اور سعودی عرب کے درمیان تصادم کو روکنا مشکل ہو گیا‘ تو اس کا سب سے پہلا نشانہ انہی کو بننا پڑے گا۔ ان کے خیال میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی‘ تو خود سعودی عرب بھی مشکل میں پڑ جائے گا۔ خلیج کی تمام ریاستوں میں کسی نہ کسی حد تک شیعہ آبادی موجود ہے‘ جو یقینی طور پر ایران کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہو گی۔ جبکہ ایران کی ریاستی طاقت میں آج بھی اتنی استعداد ہے کہ تصادم کے پہلے ہی مرحلے میں‘ وہ ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے دفاع پر شدید ضرب لگا سکتا ہے اور سعودی عرب ان کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ خطّے کے دونوں طاقتور ملکوں کے تصادم میں ان کی پامالی ہو جائے گی۔چندہفتے پہلے تک سعودی عرب کے دفاع کو انتہائی مضبوط سمجھا جاتا تھا۔ لیکن امریکہ سے کشیدگی پیدا ہونے کے بعد‘ سعودی عرب کی وہ پوزیشن نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت کے حواری بھی امریکی اور سعودی حکمرانوں کے مابین اختلاف پیدا ہونے پر یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکہ کے بغیر سعودی عرب کا دفاع اس قدر قابل اعتماد نہیں رہا جتنا کہ امریکی حمایت کی صورت میں سمجھا جاتا تھا۔
اس صورتحال کی وجہ سے ایک پرانی بحث میں دوبارہ شدت اور تیزی آ گئی ہے۔ مغربی میڈیا1998ء سے پہلے ہی‘ اس امکان پر بحث شروع کر چکا تھا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں مالی حصہ ڈال کر‘ درحقیقت اپنے لئے بوقت ضرورت ایٹمی اسلحہ حاصل کرنے کا انتظام کر لیا ہے۔ اس تھیوری پر مغربی میڈیا میں ایک عرصے تک خیال آرائی اور بحث چلتی رہی‘ جو وقت کے ساتھ دب گئی۔ لیکن جب جنیوا مذاکرات کے لئے ایران اور امریکہ کے درمیان رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا اور متوقع سعودی ردعمل کے بارے میں اندازے لگنا شروع ہوئے‘ تو یہ بحث ایک بار پھر زندہ ہو گئی اور ماہ رواں کے دوران معاہدے پر دستخط ہونے سے پہلے‘ بی بی سی کے مارک اربن نے ایک طویل مضمون میں دعویٰ کیا کہ ''پاکستان نے سعودی عرب کی خاطر بنایا۔ ایٹم بم ڈلیوری کے لئے تیار رکھا ہوا ہے۔ ‘‘ درحقیقت اس مضمون میں پرانی کہانی دہرائی گئی تھی‘ جس کا تانا بانا محض اندازوں اور شکوک شبہات کے گرد بُنا گیا تھا۔ اسی طرح کی قیاس آرائیاں ایک زمانے میں عراقی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بھی کی گئی تھیں اور یہاں تک دعوے کیے گئے تھے کہ صدام حسین اپنے ایٹمی پروگرام کو القاعدہ کی خاطر ترقی دے رہا ہے تاکہ اسے ایٹمی اسلحہ دیا جا سکے۔ اس کہانی کو اتنا پھیلایا گیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی‘ عراق پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور جب عراق کو تباہ کر دیا گیا‘ تو پتہ چلا کہ یہ کہانی محض فرضی معلومات اور اندازوں کی بنا پر تیار کی گئی تھی۔ حقائق سامنے آنے پر برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو شرمندہ ہونا پڑا اور امریکی وزیردفاع کولن پاول نے تو باقاعدہ اپنے اس فعل پر معافی مانگی کہ انہوں نے مفروضوں کی بنا پر عراق کے خلاف جارحیت کا ساتھ دیا تھا۔ اسی طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں سعودی شراکت داری کی من گھڑت خبریں محض اندازوں پر مبنی ہیں اور کامن سینس کے بھی خلاف ہیں۔ پاک سعودی جوہری پروگرام میں تعاون کی قیاس آرائیاں 1980ء میں شروع ہو گئی تھیں۔ کئی مغربی ملکوں میں باور کر لیا گیا تھا کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے سعودی عرب بھاری فنڈز مہیا کر رہا ہے۔ تاکہ جب پاکستان ایٹم بم بنانے کے قابل ہو جائے‘ تو وہ فائنل پروڈکٹ میں اپنا حصہ وصول کر سکے۔ اس دور میں پاکستانی فوج کی ایک معقول تعداد سعودی عرب کے اندر متعین تھی اور وہ افغان جہاد میں پاکستان کی بھرپور مدد کر رہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان‘ افغان جہاد کے لئے ملنے والی رقم کا ایک حصہ اپنے ایٹمی پروگرام کو ترقی دینے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ ان دنوں میں سعودی حکومت کے ایک مشیر کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ''ہم جو رقم پاکستان کو دے رہے ہیں‘ اسے صرف کرنا پاکستان کی صوابدید پر ہے کہ وہ اسے کہاں پر لگاتا ہے؟‘‘ 1998 ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے‘ تو اگلے ہی سال سعودی وزیردفاع سلطان بن عبدالعزیز‘ پاکستان کے دورے پر آئے۔ وزیراعظم نوازشریف نے انہیں بطور خاص کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا ملاحظہ کرنے کی دعوت دی‘ جو اس وقت اعلیٰ درجے کا افزودہ یورینیم تیار کر رہی تھی اور ساتھ ہی بلاسٹک میزائل فیکٹری میں بھی تیزی سے کام جاری تھا۔ اس وقت اندازے لگائے گئے تھے کہ سعودی وزیردفاع پہلی غیرملکی شخصیت ہیں‘ جنہیں خفیہ طور پر ایٹمی لیبارٹری میں جانے کی سہولت مہیا کی گئی۔ ہرچند مہمان وزیردفاع نے سختی سے انکار کیا کہ انہیں لیبارٹری کے خفیہ حصوں میں جانے کی سہولت دی گئی۔ اس وقت بھی شکوک و شبہات کے سارے محل‘ قیاس آرائیوں پر تعمیر کئے گئے تھے۔ کسی نے اس پر توجہ نہ دی کہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کو کوئی خفیہ بندوبست ہی کرناتھا‘ تو سعودی وزیردفاع کو ایٹمی لیبارٹری میں لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟دونوں فریقوں کو ایسی کونسی مجبوری تھی کہ سعودی مہمان کو ایٹمی لیبارٹری میں لے جا کر شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے؟ اور پھر یہ کہ اس دورے کی خبر چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ واضح طور سے حقائق یہی نظر آتے ہیں کہ یہ ایک معمول کا دورہ تھا‘ جس کا اہتمام خوشگوار دوستانہ تعلقات کی وجہ سے کیا گیا۔اس من گھڑت لیکن پاکستان کے لئے ضرررساں کہانی کے غبارے سے ہوا نکالنے کے لئے کچھ مزید دلائل بھی سامنے آئے ہیں۔ وہ آئندہ کالم میں پیش کئے جائیں گے۔