عام آدمی کی حیثیت میں مجھے اپنے دور کے مشاہیر کو دیکھنے اور ملنے کا بہت شوق تھا۔ قدرت بھی اس معاملے میں مجھ پر مہربان رہی۔ جس شخصیت کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی‘ اسے دیکھنے اور بیشتر اوقات ملنے کا اعزاز ضرور حاصل ہو گیا۔ مائوزے تنگ‘ چواین لائی‘ جمال عبدالناصر‘ ملکہ الزبتھ‘ پنڈت جواہر لال نہرو‘ لیاقت علی خان‘ بھٹو صاحب‘ شیخ مجیب الرحمٰن‘ شاہ عبداللہ‘ شیخ زید بن سلطان النہیان‘ یاسر عرفات‘ غرض شمار نہیں کیا جا سکتا‘ جتنے مشاہیر سے ملنے اور باتیں کرنے کے مواقع حاصل ہوئے‘ ان میں نیلسن منڈیلا بھی شامل ہیں۔ 90ء کے عشرے کی ابتدا میں مجھے وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف کے ساتھ زمبابوے جانے کا موقع ملا۔ وہاں ایک عالمی کانفرنس ہو رہی تھی‘ جس میں شرکت کے لئے غیرجانبدار ملکوں کے رہنما آئے ہوئے تھے۔ بھارت کے وزیر اعظم نرسمہا رائو بھی موجود تھے۔ ان سے چند منٹ بات چیت کا موقع مل گیا۔ لیکن میں نیلسن میڈیلا کا مداح تھا اور خواہش تھی کہ اگر وہ میرے قیام کے دوران ہرارے آ گئے۔ ان سے ملنا ممکن نہ بھی ہوا‘ تو کم از کم دیکھنے کی کوشش ضرور کروں گا۔ میری یہ خواہش جلدی پوری ہو گئی۔ ایک دن اچانک خبر آئی کہ نیلسن منڈیلا نواز شریف سے ملاقات کے لئے‘ ان کے ہوٹل پہنچنے والے ہیں۔ میرا قیام کافی فاصلے پر واقع ایک دوسرے ہوٹل میں تھا۔ جلدی جلدی تیار ہو کر وزیر اعظم کے ہوٹل پہنچا۔ معلوم ہوا کہ منڈیلا صاحب کافی دیر پہلے آ چکے ہیں۔ میں ابھی لابی میں کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ ان تک کیسے پہنچوں؟ اچانک لفٹ کا دروازہ کھلا۔ نیلسن منڈیلا کا مسکراتا ہوا چہرہ دکھائی دیا۔ میں ان سے مصافحہ کرنے پہنچ گیا۔ اظہار عقیدت کے بعد ان کی انسانی خدمات کی تعریف میں ایک دو جملے کہے اور وہ اپنی کار کی طرف روانہ ہو گئے۔ لیکن یہ مصافحہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ ان کے چہرے کی شگفتگی‘ معصومیت اور نمایاں مسکراہٹ میں عجیب طرح کا سحر تھا۔ بہت بار سوچا کہ اس مسکراہٹ کو کیا نام دوں؟ لیکن ''تبسم پدرانہ‘‘ کے سوا میرے ذہن میں کوئی ترکیب موزوں نہ ہوئی۔
یوں تو دنیا میں بہت سے لیڈروںکی طویل قید کی مثالیں نیلسن منڈیلا کے ساتھ دی جاتی ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کی قید کی اپنی ہی ایک دھج اور پھبن ہے۔ وہ جدید دنیا میں جبر کے بدترین نظام سے لڑتے ہوئے قید ہوئے تھے اور جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے سے جزیرے میں انہیں پابند سلاسل کیا گیا تھا۔ اس کی مثال برصغیر کا وہ جزیرہ ہے جسے کالا پانی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ 27 سال کو محیط قید تنہائی کی لامحدود اذیت کا اندازہ 27 کے ہندسے میں نہیں‘ ان لمحوں کو شمار کرنے سے ہوتا ہے جو اکیلے انسان پر ایک ایک صدی بن کے گزرتے ہیں۔ وہ کیسی شخصیت تھے؟ اور ایک قیدی کی حیثیت میں انہوں نے تنہائی کے عذاب میں انسانی مسرتوں کے کیسے کیسے پھول کھلائے؟ اس کا لطف ان کی آپ بیتی پڑھ کر ہی اٹھایا جا سکتا ہے۔ وہ نسلی تعصب پر مبنی ظلم و جبر کی انتہا کو پہنچے ہوئے ظالمانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی عالمگیر علامت بن گئے اور اس نظام کی آخری قبر بھی نیلسن منڈیلا نے ہی جنوبی افریقہ میں کھودی۔ 20ویں صدی کے بڑے حصے میں جنوبی افریقہ پر دو نسل پرست گروہوں کا تسلط رہا۔ ایک کا نام نیشنل پارٹی تھا اور دوسرے کو ڈچ ریفارم چرچ کہتے تھے۔ وہ اپنے نسل پرستانہ فلسفے کا جواز انجیل میں سے نکالا کرتے تھے۔ جس میں ان کے مطابق بتایا گیا تھا کہ سفید فام کو منتخب قوم کے درجے پر فائز کر دیا گیا ہے۔ 1948ء سے پہلے تک جنوبی افریقہ میں ڈنڈے کے زور پر نسلی تعصب کی عملداری تھی اور 1948ء میں جب سفید فاموں کی نیشنل پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی‘ تو وہاں باقاعدہ قانون کے ذریعے نسلی تعصب مسلط کر دیا گیا۔ غیرقانونی نسل پرستی کے نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والوں میں گاندھی جی بھی شامل تھے۔ ان کی عملی سیاست کا آغاز وہیں سے ہوا۔ مزاحمت کی ایک شکل دھرنا بھی جنوبی افریقہ میں شروع ہوا تھا۔ نیلسن منڈیلا ابتدا میں پرامن جدوجہد کے حامی تھے‘ مگر جلد ہی انہیں محسوس ہو گیا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ نیلسن منڈیلا پرامن جدوجہد سے مسلح جدوجہد کی طرف کیوں گئے؟ اس موضوع پر آپ بیتی میں وہ لکھتے ہیں ''میں نے بڑی نرم مزاجی سے وضاحت کی کہ ہمارے پاس مسلح جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ میں نے ایک پرانی ضرب المثل پیش کی کہ ''وحشی درندوں کے حملے کا مقابلہ آپ خالی ہاتھوں سے نہیں کر سکتے۔‘‘ موسیٰ پرانا اشتراکی تھا۔ میں نے اسے کہا کہ مسلح جدوجہد سے اس کی مخالفت ایسے ہی ہے‘ جیسے وہ کیوبا کی اشتراکی پارٹی باتستا کے زیرنگرانی کام کر رہا ہو۔ پارٹی مصر تھی کہ مسلح جدوجہد کے لئے حالات سازگار نہیں۔ اشتراکی ابھی تک لینن اور اسٹالن کی کتابی فکر میں محدود تھے۔ کاسترو نے انتظار نہیں کیا اور سرگرم عمل ہو کر فتح سے ہمکنار ہوا۔ اگر آپ کتابی حالات کا انتظار کریں‘ تو وہ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتے۔ میں نے موسیٰ کو صاف صاف بتا دیا کہ اس کا ذہن اے این سی کے پرانے اصولوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اے این سی ایک قانونی تنظیم تھی۔ اب لوگ ازخود مسلح گروہ ترتیب دے رہے تھے اور صرف اے این سی ہی ان کی قیادت کرنے کی اہل تھی۔ ہم نے ہمیشہ اس بات پر یقین کیا کہ عوام‘ ہم سے زیادہ ترقی پسند تھے اور اب تو انہوں نے یہ ثابت کر دیا تھا۔
ہم تمام دن گفتگو کرتے رہے اور آخر میں موسیٰ نے کہا کہ ''نیلسن! میں تمہارے ساتھ کوئی عہد نہیں کرتا۔ تم یہ مسئلہ دوبارہ کمیٹی میں اٹھائو۔ پھر دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ ‘‘ ہفتے بھر کے اندر اندر اجلاس بلایا گیا اور میں نے وہی مسئلہ اٹھایا۔ اس مرتبہ موسیٰ خاموش رہا اور اجتماعی تجویز دی گئی کہ میں اسے ڈربن میں مرکزی مجلس عاملہ کے سامنے پیش
کروں۔‘‘ آئیے! اب نیلسن منڈیلا کی جیل میں چلتے ہیں۔ ''کافی عرصے بعد اس دفعہ ہمیں جیل کے صدر دفتر لے جایا گیا۔ یہ تقریباً ایک میل دور تھا۔ اسے پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی تعمیر بھی جیل کے اس حصے کی طرح تھی‘ جس میں ہم رہتے تھے۔ ہمیں وہاں قطار میں کھڑا کیا گیا تاکہ انگلیوں کے نشانات محفوظ کر لیں۔ یہ جیل کا معمول تھا۔ مگر اس مرتبہ میں نے دیکھا کہ ایک محافظ کے پاس کیمرا تھا۔ انگلیوں کے نشانات لے لینے کے بعد محافظ اعلیٰ نے ہمیں قطار میں کھڑا ہونے کے لئے کہا تاکہ ہماری تصویریں اتاری جا سکیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کوئی حرکت نہ کریں اور میں نے محافظ کو مخاطب کیا ''جیل کمشنر کے اختیارات ہمیں دکھائے جائیں‘ جس میں تصویریں بنانے کا حکم دیا گیا ہو۔‘‘ قیدیوں کی تصویریں بنانے کی اجازت حاصل کرنا ضروری تھا۔ جیل کے قوانین سے واقف ہونا ہمیشہ بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات محافظوں کو بھی ان کی خبر نہیں ہوتی۔ اچھی معلومات کی بنیاد پر انہیں دبائو میں رکھا جا سکتا ہے۔ محافظ میری بات سن کر ٹھٹک کیا۔ وہ نہ تو کوئی وضاحت پیش کر سکا۔ نہ اس کے پاس جیل کمشنر کے احکامات تھے۔ اس نے دھمکی دی کہ اگر ہم نے تصویریں نہ بنوائیں تو ہم پر نافرمانی کا الزام لگا کر سزا دے دے گا۔ مگر میں نے کہا کہ اگر اسے تصویریں بنانے کے اختیارات نہیں دیئے گئے تو تصویریں نہیں بنائی جائیں گی۔ معاملہ یہیں ٹھپ ہو گیا۔ اصولی طور پر ہم تصویریں بنانے کے اس لئے مخالف تھے کہ جیل میں بنائی جانے والی تصویروں میں قیدی بہت بری حالت میں نظر آتے تھے۔ میں نے صرف ایک تصویر بنوانے کے لئے رضامندی ظاہر کی۔ جزیرہ رابن میں یہ میری واحد تصویر بنائی گئی۔ کچھ ہفتوں بعد محافظ اعلیٰ نے ہمیں ہتھوڑوں کے بجائے سوئیاں‘ دھاگے اور بہت سی پھٹی ہوئی جرسیاں دے دیں۔ ہمیں جیل کی ان جرسیوں کو رفو کرنے کا حکم دیا گیا۔ مگر ان میں سے بہت سی جرسیاں قابل رفو نہیں تھیں۔ اس کام نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس تبدیلی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ صبح کافی دیر بعد اچانک جیل کا دروازہ کھلا اور جیل کا حاکم اندر داخل ہوا۔ اس کے ساتھ دو اور افراد تھے۔ انہوں نے سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ جیلر نے اعلان کیا کہ وہ دونوں ملاقاتی ہیں۔ ان میں سے ایک ''ڈیلی ٹیلیگراف‘‘ لندن کا فوٹوگرافر ہے۔ اس نے ہمیں یہ بات یوں بتائی جیسے بین الاقوامی اخباری نمائندوں کی آمدورفت روز کا معمول ہو۔‘‘ یاد رہے اسی جیل میں نیلسن منڈیلا برسوں پتھر توڑتے رہے۔ اسی مشقت کے دوران انہوں نے پھول اگائے اور جب پودوں کو پھول لگے‘ تو اپنی نگرانی کرنے والے محافظوں کو پیش کر دیئے اور یہی نیلسن منڈیلا جب اپنے ملک کا سربراہ بنا‘ تو اس نے جرائم پیشہ سفاک گورے حکمرانوں کو عام معافی دے دی اور انتقام سے بھرے ہوئے اپنے سیاہ فام ساتھیوں کو جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے اور وہ انتقام کی آگے سے بھرے ہوئے تھے‘ انہیں صبر اور حوصلہ کرنے کا حکم دیا اور اپنے ملک میںنفرت کے اس کھیل کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا‘ جس کا سیاہ فام عوام نے کئی نسلوں تک اذیت ناک تجربہ کیا تھا۔