"NNC" (space) message & send to 7575

ایک ہی پوزیشن

یوں لگتا ہے کہ امریکہ اپنے بہت ہی پیارے اتحادیوںکی نازبرداریاں کرتے کرتے اکتا چکا ہے اور وہ ان کے بے جا مطالبے اور ہٹ دھرمیاں مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران امریکی خارجہ پالیسی کے بعض ایسے غیرروایتی اور کھردرے انداز دیکھنے میں آئے‘ جو پہلے کبھی سامنے نہیں آتے تھے۔ مثلاً ایک مدت سے شرق اوسط میں تیل پیدا کرنے والے ایک ملک پر امریکہ کا بہت زیادہ انحصار رہا کرتا تھا اور وہ ملک بھی جب چاہتا‘ امریکہ کو آنکھیں دکھا کر ڈرا دیتا اور امریکی حکومت اس کی نازبرداریاں کرتی نظر آتی۔ شرق اوسط میں اس خصوصی دوست کے ذریعے امریکہ اپنے کام بھی بہت نکالتا رہتا۔ خطے میں جہاں بھی ضرورت پیش آتی‘ اس کی بے پناہ دولت میں سے چند سکے ادھر منتقل کر دیئے جاتے اور امریکی ضرورت پوری ہو جاتی۔ جیسے ایران عراق جنگ میں‘ عراق کو کھلے دل سے ڈالر مہیا کرنا۔ پاکستان سے کبھی پیار کرنا اور کبھی آنکھیں دکھانا۔ مصر کے کردار پر کڑی نظر رکھنا۔ اردن کی ذمہ داریاں اٹھانا۔ متحدہ عرب امارات کی خارجہ پالیسی کو اعتدال میں رکھنا۔ غرض یہ سارے کام باہمی اعتماد کی فضا میں بڑی سہولت اور خوش اسلوبی کے ساتھ ہو جاتے تھے۔ مگر اب چند ماہ سے روایتی پیار محبت میں کچھ فرق ظاہر ہونے لگا ہے۔ شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف جو باغیانہ مہم شروع ہوئی تھی‘ اسے امریکہ اور اس کے حلیف کی پرجوش مدد حاصل تھی۔ امریکہ نے ان باغیوں کو بھرپور امداد مہیا کی۔ انہیں سراغرسانی کی وہ تمام سہولتں مہیا کیں‘ جن کافائدہ اٹھا کر انہوں نے سرکاری فوجوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ ایک موقع پر تو صدر اوباما نے صاف ظاہر کر دیا تھا کہ وہ اپنی فضائیہ کو شام کے میدان جنگ میں جھونکنے ہی والے ہیں۔ دنیا بھر میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ بشارالاسد کی حکومت اب چند روز کی مہمان ہے۔ ان کے بارے میں ایسی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ وہ شام سے نکل کر کہاں جائیں گے؟ انہیں کس ملک میں پناہ ملے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ پھر اچانک یوں ہوا کہ روسی صدر پوٹن اور اوباما کے مابین کچھ رابطے ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے امریکی پالیسی میں یوٹرن آیا۔ شام پر فضائی حملے کی جو تیاریاں کی گئی تھیں‘ وہ ڈھیلی پڑ گئیں۔ باغیوں کو امریکہ کے خفیہ ذرائع سے جو معلومات مہیا ہو رہی تھیں‘ ان کا معیار ایک دم گر گیا اور تیز رفتار کامیابیوں کی رفتار میں کمی آنے لگی۔ 
امریکہ کا دوست عرب ملک‘ اس صورتحال پر کچھ زیادہ ہی برافروختہ ہو گیا۔ ماضی میں امریکہ نے کبھی ایسی بے رخی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ دیرینہ دوست کو بہت رنج پہنچا اور اسے ایک عالمی ادارے میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے جو ایک بڑا تحفہ پیش کیا تھا‘ اسے غصے کی حالت میں ٹھوکر مار دی گئی۔ پہلے کبھی ایسا ہوتا تھا‘ تو امریکہ کے اعلیٰ عہدیدار بھاگے بھاگے اپنے دوست کی خدمت میں حاضر ہو جایا کرتے تھے۔ مگر اب کی بار ایک نیا ہی منظر دیکھنے میں آیا۔ دیرینہ دوست اپنی طرف سے امریکہ کو ایک بڑا جھٹکا دے کر انتظار میں ہی رہا کہ ایک بار پھر اس کی نازبرداریاں کی جائیں گی اور امریکہ نے شام کے خلاف جارحیت میں حصہ لینے کے‘ جس اقدام کو معطل یا منسوخ کیا ہے‘ و ہ اسے بحال کرتے ہوئے‘ شام کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر دے گا۔ لیکن ایسا اب تک نہیں ہوا۔ شام کے حالات میں سدھار آنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا‘ وہ آج بھی جاری ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ ایران کے ساتھ امریکہ کی جو کشیدگی دو اڑھائی عشروں سے چلی آ رہی تھی‘ اس میں ڈھیل آنے لگی۔ ایران اور امریکہ کے درمیان جو خفیہ رابطے پردوں کے اندر تھے‘ وہ سامنے آنے لگے اور پھر یہ حیرت انگیز خبر آئی کہ نومنتخب ایرانی صدر اور اوباما کے مابین براہ راست رابطہ ہو گیا ہے۔ پہلی خبر تھی کہ یہ رابطہ اس وقت ہوا‘ جب ایرانی صدر اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک پہنچے‘ تو ایئرپورٹ سے رہائش گاہ کی طرف کار میں جاتے ہوئے ان کی صدر اوباما سے بات چیت ہوئی۔ مگر اس بات چیت کے فالو اپ میں جو بڑے بڑے فیصلے اچانک منظر عام پر آنا شروع ہوئے‘ تو ٹیلی فونی رابطے کی پرانی کہانی مشکوک ہو گئی۔ نئے سرے سے تحقیق شروع ہوئی اور پتہ یہ چلا کہ دونوں صدور کے درمیان ہونے والی گفتگو سرسری نہیں تھی۔ دونوں نے ٹیلیفون پر جو بات چیت کی‘ وہ بھی چند منٹ کی نہیں بلکہ ایک گھنٹے پر مشتمل تھی اور اس کے بعد دونوں ملکوں کی متعدد ٹیموں کے مابین تیز رفتار رابطے شروع ہو گئے۔ اس کھیل کے لئے جنیوا کا انتخاب کیا گیا تھا۔ وہاں پر روس‘ برطانیہ‘ بھارت اور چین کے اعلیٰ سفارتی افسران بھی موجود رہے‘ جو امریکی اور ایرانی ٹیموں کے ساتھ شب و روز ملاقاتیں کرتے رہے۔ جب ایران اور امریکہ میں جنیوا مذاکرات ہو رہے تھے‘ تو ان میں دلچسپی رکھنے والی کئی دوسری طاقتیں بھی درپردہ سرگرمی سے اپنا اپنا حصہ ڈال رہی تھیں۔ 
جب ایران اور امریکہ کے درمیان معاہدے کی خبر نکلی‘ تو دنیا حیرت میں آ گئی۔ ابھی اس حیرت کا جھٹکا ختم نہ ہوا تھا کہ معاہدے کا مسودہ بھی شائع ہو گیا اور اس میں وہ تمام رکاوٹیں عبور کر لی گئیں‘ جنہیں دونوں فریق گزشتہ 23 برسوں میں عبور نہیں کر پائے تھے۔ کہاں ان دونوں کے درمیان بارہا جنگ کے حالات پیدا ہوئے‘ ایک دوسرے کے حواس درست کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ امریکہ نے خلیج کی ناکہ بندی کرنے کے ارادے ظاہر کئے۔ اسرائیل اور امریکہ کا دیرینہ عرب دوست جو کئی بار یہ امیدیں لگا چکے تھے کہ امریکہ ‘ ایران کی معاشی اور فوجی طاقت کو شدید ضربیں لگا کر اس کی کمر توڑ دے گا‘ ان دونوں کے لئے جنیوا معاہدہ سونامی کا تھپیڑا ثابت ہوا اور انہیں کئی دنوں تک سمجھ نہیں آئی کہ کیا ردعمل ظاہر کریں؟ اسرائیل نے تو بوکھلاہٹ میں یہاں تک کہہ دیا کہ اگر امریکہ کچھ نہیں کرے گا‘ تو اسرائیل خود حملہ کر کے ایران کے ایٹمی اثاثے تباہ کر دے گا۔ نیتن یاہو نے خوف کے عالم میں بار بار کہا کہ اس معاہدے کی آڑ میں ایران اپنی ایٹمی تیاریاں جاری رکھے گا اور دو تین 
سال تک ایٹم بم بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ پہلے اسرائیل کی بھی بہت نازبرداریاں ہوا کرتی تھیں۔ مگر اس بار اسے رسمی تسلیاں دینے سے زیادہ مزید کچھ کرنے کی زحمت نہیں اٹھائی گئی۔ ایران اور امریکہ کے درمیان اعتماد سازی کا عمل تیزی سے شروع کیا جا چکا ہے۔ اس نئے رشتے کی بنیاد محض تجارتی‘ معاشی اور سٹریٹجک مفادات نہیں بلکہ ایک بنیادی ہم خیالی بھی ہے‘ جس کا تعلق خطے میں پھیلتی ہوئی انتہاپسندی سے ہے۔ آج پوری دنیا‘ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر بہت فکرمند ہے۔ دہشت گردی کا یہ لاوا مسلم دنیا کے اندر پک رہا ہے اور سب کا خیال ہے کہ اگر اسے وقت پر ٹھنڈا نہ کیا گیا‘ تو یہ پوری مہذب دنیا کی زندگی کو متاثر کرے گا۔ تمام شہروں میں امن اور سلامتی کا ماحول برقرار نہیں رہ پائے گا اور دہشت گردی ہر طرف بے یقینی کی فضا پیدا کر کے‘ معمول کی زندگی کو متاثر کرے گی۔ دہشت گردی کے خلاف اس عالمی محاذآرائی میں ایران‘ مہذب دنیا کا فطری اتحادی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ افغانستان میں اس کا کردار بہت مثبت رہا ہے۔ امریکہ کے خلاف جنگ کے دوران‘ افغانستان کی مختلف دہشت گرد تنظیموں نے ایران سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کی‘ ایران نے ان کی میزبانی تو کر دی مگر انہیں اپنے ہاں تربیتی مراکز یا پناہ گاہیں فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ اب کہ امریکہ افغانستان سے واپسی شروع کرنے والا ہے‘ اسے امید ہے کہ ایران‘ افغانستان میں انتہاپسندوں اور اعتدال پسندوںکے مابین ہونے والی کشمکش میں موخرالذکر قوتوں کا ساتھ دے گا‘ جس کی امریکہ کو شدید ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے وہ مراکز جو افغان جنگ کے نتیجے میں قائم ہوئے اور جو اب دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں‘ ان پر روس‘ چین‘ بھارت اور یورپ‘ سب کو تشویش ہے۔ امریکہ کا دیرینہ دوست‘ جس تصور حیات پر یقین رکھتا ہے‘ اس میں انتہاپسندی کا رحجان شدت سے پایا جاتا ہے۔ جبکہ ایران عملی طور پر دہشت گردوں کا حامی نہیں رہا۔ جنیوا معاہدہ اسی نئی ضرورت کے نتیجے میں ممکن ہوا۔ یہ ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جائے گی اور دونوں ملکوں کے درمیان ضرورتوں کے رشتے بھی وسیع ہوتے جائیں گے۔ ایران کی قومی پالیسیاں واضح اور مستحکم ہیں۔ بدنصیبی سے پاکستان ابھی تک کوئی پالیسی نہیں بنا پایا۔ ہم داخلی طور پر شدید انتشار کا شکار ہیں۔ جب ہمیں خود ہی نہیں پتہ کہ ہمیں آگے چل کر کیا کرنا ہے؟ تو غیر کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ ہم سے کیا بات کی جائے؟ ظاہر ہے ہم جب خود ہی بے یقینی کی حالت میں رہیں گے‘ تو دوسرے بھی مجبور ہیں کہ بے یقینی کی حالت میں رہیں۔ مگر ایسا ہمیشہ نہیں رہے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ آنے والی ہے‘ اس میں سب کو اپنی اپنی پوزیشن لینا پڑے گی اور جب محاذ گرم ہو جائے تو بے جا ناز برداریاں کرنا ممکن نہیں رہتا۔ ہمارے پاس صرف چند ہفتے ہیں۔ امریکہ جب اپنے انتہائی قیمتی دیرینہ دوست کے ناز اٹھانے سے گریزاں ہے‘ تو ہمیں یہ اعزاز کیوں دے گا؟ جب اس نے اسرائیل کی پروا نہیں کی‘ تو ہماری کیوں کرے گا؟ ہماری بھلائی صرف ایک ہی پوزیشن لینے میں ہے۔ کوئی دوسری پوزیشن لینے کی گنجائش ہی نہیں اور وہ پوزیشن کیا ہے؟ ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں