یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی نے قیام پاکستان کی بھی مخالفت کی تھی اور قیام بنگلہ دیش کی بھی۔ پاکستان کی مخالفت محض تحریری تھی کہ اس وقت جماعت اسلامی سیاسی اعتبار سے منظم نہیں تھی اور انتخابات میں حصہ لینے سے گریزاں تھی۔لیکن قیام پاکستان کے چند برس بعد اس نے انتخابات میں کھل کر حصہ لیا۔ 1970ء میں دیگر تمام جماعتوں کی طرح اس نے بھی عوامی لیگ سے شکست کھائی۔ ابتدائی مراحل میں وہ کامیاب ہونے والی جماعت کو اقتدار منتقل کرنے کے حق میں تھی۔ لیکن بعد میں حکمران یحییٰ ٹولے کے ساتھ سمجھوتہ کر کے‘ وہ عوامی لیگ کی مخالفت پر تیار ہو گئی اور فوجی حکومت نے مشرقی پاکستان میں جو یکطرفہ ضمنی انتخابات کرائے‘ ان میں جماعت اسلامی کو بھی کچھ نشستیں دے دی گئیں‘ جنہیں بھٹو صاحب نے ریوڑیاں قرار دیا تھا۔ریوڑیوں کو جمع کر کے وہاں ایک حکومت بھی بنائی گئی تھی۔ مگر یہ ڈرامہ ناکام رہا۔ ایک سال کی طویل خونریزی کے بعد بنگلہ دیش قائم ہو گیا‘ تو جماعت اسلامی پر عتاب نازل ہوااور حکمران عوامی لیگ نے اس پر بہت مظالم ڈھائے۔ شیخ مجیب الرحمن کی ہلاکت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں یکے بعد دیگرے فوجی بغاوتیں ہوئیں اور یہ سلسلہ جنرل ضیاالرحمن کا اقتدار پر قبضہ مستحکم ہونے تک‘ جاری رہا۔ جنرل ضیاالرحمن کے دور میں جماعت اسلامی کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع ملا۔
جماعت اسلامی 1973ء کے انتخابات میں پابندی کی وجہ سے حصہ نہیں لے سکی۔ 1978ء میں اسے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ملی۔ ایک عرصے تک سیاسی پابندیوں کے شکار رہنے کی وجہ سے وہ قابل ذکر انتخابی کامیابی حاصل نہ کر پائی۔ 1986ء میں اس نے دو نشستیں حاصل کیں۔ 1991ء میں 18‘ 1996ء میں وہ پھر 3 نشستوں تک محدود ہو گئی۔ 2001ء میں 17 نشستیں حاصل کیں اور 2009ء کے انتخابات میںقابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ اس دوران وہ غالباً دو مرتبہ شریک اقتدار رہی اور جب مخلوط حکومت میں نہیں بھی تھی‘ تو اس نے کبھی دو اور کبھی تین دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحاد بنائے اور کافی اثرورسوخ کی حامل رہی۔ اس دوران اس نے اپنے بہت سے لیڈروں اور کارکنوں پر مقدمات ختم کرائے۔ مگر جن پر اخلاقی جرائم کے مقدمات بنائے گئے تھے‘ انہیں رہا نہیں کرایا جا سکا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‘1973ء میں پابندی ختم ہونے کے بعد جماعت اسلامی سیاسی سرگرمیوں میں آزادانہ حصہ لے رہی ہے۔ لیکن نہ تو اس نے کبھی عبدالقادر ملا کی رہائی کے لئے کوئی تحریک چلائی اور نہ ہی پارلیمنٹ میں موجود ہونے کے باوجود‘ ان کا معاملہ ایوان میں اٹھایا۔ پھر اچانک ایک پھانسی پر جماعت نے بھرپور مخالفانہ مہم چلا کر ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کو بنگلہ دیش کے خلاف قرارداد منظور کرنا پڑ گئی اور ہمارے وزیرداخلہ اچانک ایک عام مسلم لیگی سے جہادی لیڈر بن کر سامنے آئے۔
اگر بنگلہ دیش کے مقامی حالات کو دیکھا جائے‘ تو پھانسی وہاں کی سیاسی کشمکش کے نتیجے میں دی گئی۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری جو کہ زرمبادلہ کی کل آمدنی کا 75 فیصدکماتی ہے‘ ْڈیڑھ سال سے بحران کا شکار ہے اور مزدوروں کی چھانٹیاں ہو رہی ہیںاور وہ ہڑتالیں کر کے سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ٹیکسٹائل انڈسٹری جو چین کے بعد دنیا میں ٹیکسٹائل کی دوسری بڑی صنعت بن چکی ہے‘ اس کے بحران میں شدت آنے لگی۔ حسینہ واجد کی حکومت ‘ عوامی مظاہروں اور ہڑتالوں کی وجہ سے غیرمستحکم ہو رہی ہے۔ بیگم خالدہ ضیا‘ حکومت مخالف جدوجہد میں شریک ہونے کے لئے متحرک ہو گئیں اور وہ کسی بھی وقت مظاہروں کی قیادت کرتی نظر آئیں گی۔ حسینہ واجد کی مدت اقتدار 25 اکتوبر کو ختم ہو چکی ہے۔ آئینی طور پر انہیں مستعفی ہو کر نگران حکومت کے لئے راستہ چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ نتیجے میں بنگلہ دیش ‘ سیاسی بحران میں داخل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ حسینہ واجد کے بھارتی حامی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح کی مفاہمت ہو جائے۔ مگر ابھی تک انہیں کامیابی نہیں ملی۔ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کو پیش کشیں کی جا رہی ہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لے کر 6ماہ کے لئے حسینہ واجد کی حکومت بنوا دیں‘ اس کے بعد وہ خود استعفیٰ دے دیں گی اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی اکثریت جسے چاہے گی‘ وزیراعظم چن لے گی۔ لیکن فی الحال اس سمجھوتے کا امکان دکھائی نہیں دے رہا۔ پانسہ‘ بیگم خالدہ ضیا کے حق میں پلٹ رہا ہے۔ انہیں سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ اگر صورتحال اسی سمت میں بڑھتی رہی‘ تومعاملات ان کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ فی الحال فوج دونوں فریقوں کو مفاہمت کا مشورہ دے رہی ہے۔ لیکن اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ عوامی لیگ کے حامیوں کی تعداد میں بہت کمی آ چکی ہے۔ جبکہ دائیں بازو کی جماعتیں بھی مقبولیت حاصل نہیں کر پائیں۔ محنت کشوں کے جن مظاہروں میں شامل ہو کر بنگلہ دیش نیشنل پارٹی اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرنا چاہتی ہے‘ وہ اس کی سیاسی حمایت کی طرف مائل نہیں ہو سکتے۔ بیشتر ٹریڈیونینوں کا رحجان لبرل اور بائیں بازو کی طرف ہے‘ جو دائیں بازو کی جماعتوں کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اس صورتحال سے حسینہ واجد انتہائی پریشان ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ اگر سیاستدانوں میں مفاہمت نہیں ہوتی‘ تو فوج نیشنل پارٹی کے حق میں مداخلت کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ براہ راست اقتدار میں نہ بھی آئے‘ تو دائیں بازو کی جو بھی حکومت قائم ہو گی‘ وہ فوج کے سہارے کے بغیر نہیں چل پائے گی۔
اس صورتحال میں صنعت و تجارت میں سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ صنعتوں کی آمدنی اور پیداوار میں کمی آنے سے بیروزگاروں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں کمی آ نے سے‘ حکومت مالی مسائل سے دوچار ہو جائے گی۔ دوسری طرف پاکستان کو یورپی ملکوں میں برآمدات پر رعایت ملنے کے بعد پاکستان ‘ یورپ میںبنگلہ دیش کے مقابلے پر آنے والا ہے۔ حسینہ واجد کو یہ بھی اندیشہ ہے کہ پاکستان چونکہ یورپی منڈی میں مراعات حاصل کرنے کے لئے بہت پہلے سے کوشش کر رہا تھا اور اپنی کامیابی قریب دیکھ کر اس نے عبدالقادرملا کی پھانسی کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ یورپی ممالک میں پھانسی کی سزا کو سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔ پاکستان نے یورپی یونین کو مطمئن کر دیا ہے کہ وہ پھانسی کی سزائیں موقوف کر دے گا۔ بنگلہ دیش نے پھانسی کی سزائیں دے کر خود ہی اپنے لئے مشکل پیدا کر لی ہے اور عوامی لیگیوں کو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اگر ان کی مراعات ختم کر دی گئیں‘ تو بنگلہ دیش کی معیشت بری طرح متاثر ہو گی‘ جس کی ذمہ دار براہ راست عوامی لیگ قرار پائے گی۔ جس نے محض انتخابات میں انتہاپسندوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے پھانسی کی سزائوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ عوامی لیگ کے ساتھ بھارت میں بھی تشویش پیدا ہو رہی ہے۔ اس کو ڈر ہے کہ اگر نیشنل پارٹی نے زور پکڑ لیا‘ تومذہبی انتہاپسند‘ جو فی الحال دبائو میں آئے ہوئے ہیںفوراً ہی متحرک ہو سکتے ہیں اور بنگلہ دیش میں انتہاپسندوں کی طاقت میں اضافے کا مقصد بھارت اچھی طرح سمجھتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش سے عدم استحکام کی لہریںاٹھنے لگیں‘ تو یہ خطہ جہاں پہلے ہی عدم استحکام کی لہریں اٹھ رہی ہیں‘ بڑے طوفان کی زد پر آ سکتا ہے۔