جب سے جناب اسحق ڈار وزیرخزانہ بنے ہیں‘ زندگی میں نعمتوں‘ محبتوں‘ نفرتوں اور پیار محبت کے معنی ہی بدل گئے ہیں۔ ان سے پہلے اگر کوئی یہ مصرعہ سنتا کہ ''تو نہ ہوتی تو ہجر کیا ہوتا؟‘‘ اس کے سوا دوسرا تصور ہی نہیں آ سکتا تھا کہ یہ محبوب کے تصور میں لکھا گیا ہے۔ مگر آج اس کے معنی بدل گئے ہیں۔ آج یہ مصرعہ سنتے ہی ذہن میں محبوب کی بجائے ‘ گوبھی آتی ہے۔ باریک بین حضرات کہیں گے کہ گوبھی تو مونث ہوتی ہے۔ نہیں جناب! محبوب کے معاملے میں تذکیر و تانیث کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ محبوب صرف محبوب ہوتا ہے۔ مذکر بھی ہوتا ہے ‘ مونث بھی۔ یہی خصوصیت گوبھی میں ہے۔ اگر آپ سبزی یاد کریں‘ تو وہ مونث ہے اور پھول سمجھ کر یاد کریں تو مذکر ہے۔ قبل ازڈار کے دور میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ گوبھی‘ کبھی محبوب کی جگہ لے سکتی ہے؟ یہ ڈار صاحب کا کرشمہ ہے کہ انہوں نے محبوب کو بے دخل کر کے‘ یہ مقام گوبھی کو عطا کر دیا۔ قبل از ڈار کے دور میں یہ تصور بھی محال تھا کہ محبوبہ اور گوبھی کے درمیان مقابلے کا خیال بھی ذہن میں آتا ہو۔ اس طرح کا موازنہ محال ہی نہیں‘ ناممکنات میں سے تھا۔ کہاں گوبھی اور کہاں محبوبہ؟یہ سوال کرنا ہی حماقت ہوتا کہ تمہیں گوبھی زیادہ پسند ہے یا محبوبہ؟ سوال کرنے والے کو جھاپڑ لگتا۔ ڈار صاحب کی کرامت دیکھئے کہ یہ ناممکن سوال اب روزمرہ کے معاملات میں شامل ہو گیا ہے۔ اب کوئی نامہ بر مجنوں سے محبوبہ کے لئے پیغام کی بات کرے‘ تو آگے سے جواب ملتا ہے ''محبوبہ کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ پہلے یہ بتائو کہ گوبھی تک رسائی ہے؟‘‘ نامہ بر کا جواب ہو گا کہ ''اپنی اوقات دیکھو اور اپنی خواہش دیکھو۔محبوبہ تک پہنچنے کے لئے مجھے قطار میں نہیں لگنا پڑتاہے۔ ڈائریکٹ حوالداری ہو جاتی ہے اور گوبھی؟ اس کی جھلک دیکھنے والے تو قطار کا تکلف بھی نہیں کرتے۔ ایک ہجوم ہوتا ہے‘ جس کے اندر سے جگہ بناتے بناتے‘ ہڈی پسلی ایک ہو جاتی ہے اور پھر کہیں جا کر گوبھی دیکھنا نصیب ہو تا ہے۔‘‘
ڈار صاحب نے معاشرے کے رواجوں‘ روایتوں اور رشتوں کو بدل ڈالا ہے۔ ہیر رانجھا‘ سسی پنوں‘ سوہنی مہینوال اور مرزا صاحباں کے قصے کہانیاں‘ صدیوں سے رومانوی زندگی پر چھائے ہوئے ہیں۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سبزیوں‘ پھلوں اور ڈرائی فروٹس جیسی چیزیں بھی انسانی زندگی میں رومانس کی جگہ لے سکتی ہیں۔ کہاں دلنواز محبوبائیں اور کہاں چیچک زدہ ڈرائی فروٹ اخروٹ؟ کہاں خوباں اور کہاں خوبانی؟ قبل از ڈار کے دور میں اس طرح کے موازنے ناقابل تصور تھے۔ ڈار صاحب نے ہماری دنیا ہی بدل دی۔ انتظار کی گھڑیاں گن گن کے تھکے ہوئے عاشق کو محبوبہ کا دیدار نصیب بھی ہو جائے‘ تو اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ ''آج ادرک کا کیا بھائو ہے؟‘‘ایک زمانہ تھا جب پیار محبت کرنے والوں میں بھائو کا مطلب کچھ اور ہوا کرتا تھا۔ جیسے کسی رقاصہ کے مظاہرہ فن کے دوران ‘ایک کے بعد‘ دوسرے بھائو کی جھلکیاں۔ روپ کا بھائو‘ رنگ کا بھائو‘نازوادا کے بھائو۔ کیفیت میں بھی بھائو ہوتے تھے۔ طور طریقوں میں بھی۔ پیار محبت کے بھائو۔ لچک کے بھائو‘ ادائوں کے بھائو‘نازو ادا اور حسن و محبت کے ایسے ایسے مناظر تصور میں ابھرنے لگتے تھے کہ انسان لذت و سرور کے ایک ایک بھائو کی رنگینیوں میں ایسا گم ہوتا کہ گردوپیش کی خبر ہی نہ رہتی۔ ڈار صاحب نے یہ وقت بھی دکھا دیا کہ اب عاشق اور محبوبہ کے درمیان بھائو کا لفظ آ جائے‘ تو فوراً ہی خیال سبزیوں‘ دالوں اور گوشت کی طرف جاتا ہے اور بات کرنے والے پنجابی ہوں‘ تو زیادہ سے زیادہ بھائی کا خیال آتا ہے۔ جسے ہم لوگ پیار میں بھائو کہہ کے بلاتے ہیں۔ بھائو کی پیش تھوڑی سی کھینچ کے بولنا پڑتا ہے۔
ہمارے میڈیا کے لوگ ابھی تک قبل از ڈار کے زمانے میں رہتے ہیں۔ ورنہ انہیں علم ہوتا کہ اخبار یا ٹی وی کے خبرناموں میں‘ جو بڑی بڑی سرخیاں لگائی جاتی ہیں‘ اب ان کی کوئی وقعت نہیں رہ گئی۔ کس کے پاس اتنی فرصت ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات پر سوچے؟ پاک چین دوستی کے فائدے ڈھونڈے؟ وفاق اور صوبوں کے تعلقات میں مدوجزر کا جائزہ لے؟ مریم اور بلاول کے مابین موازنہ کرے؟ مشرف اور زرداری کے مقدموں کی تفصیل میں وقت ضائع کرے؟ وزیروں کے بیانات پڑھے؟ اپوزیشن کی خرافات پر توجہ دے؟ جلوسوں‘ دھرنوں اور ہٹ دھرمیوں کی دنیا میں وقت ضائع کرے؟ حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں لوگوں کی دلچسپی ‘ ڈار صاحب نے ختم کر کے رکھ دی ہے۔ اب عوام لوٹو اور لپیٹو‘ بیٹھو یا لیٹو جیسی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ صرف لوٹو اور پھوٹو‘ کا رواج رہ گیا ہے اور ایسے ماحول میں تمام تر دلچسپیاں بھوک اور پیاس تک محدود ہو گئی ہیں۔ قبل از ڈار کے دور میں پیاس بجھانے کے لئے طرح طرح کی نعمتیں دستیاب تھیں۔ مشروب کی جو بوتل 100روپے میں ملتی تھی‘ اب 500 کی ہو گئی ہے اور 500 والی کے نخرے تو ادرک سے بھی بڑھ گئے ہیں۔رومانوی گفتگو میں محبوب کے رخسار کی تشبیہہ گلاب کے پھول سے دی جاتی تھی۔ مگر آج یہی رخسار کبھی ٹماٹر جیسے لگتے ہیں‘ کبھی گاجروں جیسے اور کچھ گال تمتمائے ہوئے ہوں تو چقندر کا خیال آتا ہے۔ شیخ رشید کی مثال ہری مرچ سے دی جاتی ہے۔ چھوٹی آنکھیں‘ مٹر کے دانوں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ ایک زمانے میں حبیب جالب نے ایک غیررسمی شعر لکھا تھا۔ میرے خیال کے مطابق ‘ ان کے کسی شعری مجموعے میں شامل نہیں۔ جالب نے چائے کے بارے میں کہا تھا ؎
ایک دوشیزہ کے لبوں کی طرح
اس میں گرمی بھی ہے مٹھاس بھی ہے
اب یہ شعر یاد کر کے شکرقندی کا خیال آتا ہے۔ڈار صاحب کے عہد میں پاکستانیوں کی بودوباش‘ پسند ناپسند ‘ نفرت محبت‘ بیزاریاں اور دلچسپیاں‘ سب کچھ بدل کے رہ گیا ہے۔ نیوز میڈیا ہے کہ آج بھی متروک موضوعات‘ متروک لفظوں‘ متروک سیاستدانوں‘ متروک عادتوں اور متروک ہیرو ہیروئنوں کے بارے میں بڑی بڑی سرخیاں لگاتا ہے۔ اس بات کا احساس ہی نہیں کرتا کہ ڈار صاحب نے پاکستانیوں کی زندگیوں میں کتنا بڑا انقلاب برپا کر دیا ہے؟ کاش! ہمارے رپورٹرز‘ اینکرز اور تجزیہ کار‘ اس نئی دنیا کی طرف دیکھیں اور منڈیوں میں جا کر جائزہ لیں کہ آج بھائو کے مقابلے میں کونسی سبزی نے کس سبزی کو نیچا دکھایا ہے؟ مقبولیت کی دوڑ میں کونسی سبزی‘ کس سبزی سے آگے ہے؟ جہاں مولانا فضل الرحمن کی خبر لگتی ہے‘ وہاں بھنڈی کا انٹرویو چھاپا جائے۔ اس کی نقل و حرکت کی تفصیل لکھی جائے۔ ٹماٹر کی سرگرمیوں کوکوریج دی جائے۔ سبزی کی دکانوں پر کتنے لوگ‘ کیا کیا امیدیں لے کر آئے؟ اور کیسی کیسی مایوسیاں شاپر میں ڈال کے گھر واپس جا رہے ہیں؟ جنرل سٹورز میں کھڑے ہوئے خریدار آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں؟ کوئی فیلڈ رپورٹر موقع پر جا کر یہ باتیں سنے ‘ تو اگلے دن کی سرخیاں کچھ اس طرح کی ہوں گی۔ ''دودھ کا ڈبہ خریدنے آیا مزدور‘ آنکھوں میں پانی بھر کے لوٹ گیا‘‘۔ ''خوش نصیبو ں کے دودھ کو فروخت ہونے سے پہلے پانی مل جاتا ہے اور غریبوں کے پانے کے لئے بھی دودھ نہیں ‘‘۔مایوسیوں کی خریداریاں کر کے گھر واپس جاتی ہوئی خواتین کی تصویریں اتاری جائیں‘ تو ٹیلیویژنوں اور اخباروں پر حقیقت زیادہ واضح انداز میں قارئین کے سامنے آئے گی۔ڈار صاحب نے چند ہفتوں کے اندر پاکستانی معاشرے کا نقشہ ہی کیسے بدل ڈالا ہے؟ میڈیا میں اس کی حقیقت پسندانہ پروجیکشن نہیں ہو رہی۔ میڈیا آج بھی قبل از ڈار کی دنیا میں رہتا ہے۔جب سبزیوں‘ دالوں‘ گوشت اور دودھ میں کوئی دلکشی نہیں تھی۔یہی چیزیں حاصل کر کے آج کے لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو خوابوں کی تعبیر مل گئی۔ پہلے خواتین کی گفتگو میں دوسروں کی چغلیاں ہوتی تھیں۔ آج ان کی بات چیت میں رومانس ہوتا ہے۔ جیسے ''اری بہن کیا بتائوں؟ کل میں اکیلی بیٹھی مٹر کی پھلیاں چھیل رہی تھی۔ ایک پھلی کا گھونگھٹ اٹھایا تو اندر بیٹھے ہرے ہرے دو شیطانوں نے مجھے یوں دیکھا کہ میں تو شرما کے رہ گئی۔‘‘ قبل ازڈار کے زمانے میں ترقی‘ ارزانی یا خوبصورتی دیکھ کر کہا جاتا تھا ''میرا خواب پورا ہو گیا۔‘‘ آج لہسن مل جائے تو لوگ کہتے ہیں''مجھے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی۔‘‘ پاکستان زندہ باد۔ ڈار صاحب پائندہ باد