بلدیاتی انتخابات میں حلقہ بندی کے تنازعہ پر‘ الطاف بھائی اس قدر طیش میں آئے کہ ایک بار پھر بپھرے ہوئے اعلانات کر ڈالے۔ جوش خطابت میں یہاں تک کہہ گئے کہ ''شہری سندھی آبادی پسند نہیں ہے‘ تو اردو بولنے والی سندھی آبادی کے لئے علیحدہ صوبہ بنا دیا جائے اور اگر نئے سندھی قبول نہیں‘ تو بات ملک تک بھی جا سکتی ہے۔‘‘ اس پر پہلے دن میرا تبصرہ تھا کہ ''الطاف بھائی جب غصے میں ہوں‘ تو وہ حریف کو ڈرانے کے لئے جنگی ترانہ ‘نچلے سُر کی بجائے‘ اوپر کے سُرسے شروع کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ نچلے سُروں کی طرف آنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ تنازعے کی شدت میں کمی ہوتے ہوتے‘ مفاہمت کا راستہ نکل آئے۔‘‘ اتفاق سے وہی ہوا۔دوسرے ہی روز وضاحت در وضاحت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ شام تک رابطہ کمیٹی کا ایک وفد تیار تھا۔ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ اور ن لیگ کے موجودہ سندھی لیڈرارباب غلام رحیم ‘ ایک وفد کی صورت میں قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجوکے گھر جا پہنچے۔ تھوڑی سی تکلف بازی ہوئی اور اس کے بعد ایاز لطیف پلیجو نے 3روزہ ہڑتال کا اعلان واپس لے لیا۔ جیسے کسی بڑے زلزلے کے بعد‘ سمندر میں دو چار چھوٹے چھوٹے جزیرے نکل آتے ہیں‘ اسی طرح الطاف بھائی کے مزاج میں جب زلزلہ پیدا ہوتا ہے‘ تو اس کے بعد بھی کچھ نئے امکانات سامنے آ جاتے ہیں‘ جن کا پہلے وجود ہی نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ زلزلہ ختم ہونے پر دو نئے سیاسی جزیرے نمودار ہوئے۔ ایک ایم کیو ایم اور مسلم لیگ کے درمیان نئے پل کی شکل میں سامنے آیا اور دوسرا جزیرہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے ٹوٹے ہوئے خواب کی‘ ازسرنو تعمیر کے امکان کی صورت میں۔
الطاف بھائی کی تقریر سے پیدا ہونے والے ہیجان میں نمودار ہونے والے دونوں امکانات ‘قومی سیاست کے لئے امید افزا ہیں۔مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے درمیان 90ء کے عشرے میں جو دوری پیدا ہوئی تھی‘ وہ خلاف معمول کافی دراز ہوتی جا رہی تھی۔ مگر اس مرتبہ زلزلے کی شدت میں کمی آنے لگی‘ تو ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ارباب غلام رحیم‘ ایک ہی کمرے میں بیٹھے سرگوشیاں کرتے نظر آئے۔ یہ سلسلہ شروع ہوا‘ تو کافی رات جا چکی تھی۔ میڈیا کو بہرحال بھنک پڑ گئی اور چند ہی لمحوں بعد‘ خبر عام ہو گئی کہ متحدہ کا ایک وفد‘ ارباب غلام رحیم کے ساتھ ایاز پلیجو کے گھر پہنچ گیا ہے اور ملاقات ختم ہونے پر اعلان ہوا کہ ایاز پلیجو نے تین روزہ ہڑتال کا اعلان واپس لے لیا ہے۔ بات کہاں سے شروع ہوئی اور ختم کہاں ہو گئی؟ الطاف بھائی کا غصہ سندھ کی صوبائی حکومت اور پیپلزپارٹی پر تھا۔ انہیں شکایت تھی کہ اردو بولنے والوں کو مساوی حقوق نہیں دیئے جا رہے اور طیش کے عالم میں الطاف بھائی نے یہاں تک کہہ دیا کہ'' اگر ہمیں برابر کے حقوق نہیں دینا‘ تو پھر سندھ ون اور سندھ ٹو کا فارمولا طے کر کے ‘ سندھ دھرتی کی خدمت کریں اور فیصلہ دنیا پرچھوڑ دیں کہ اپنے عوام کی ترقی و خوشحالی میں سندھ ون بازی لے گیا ہے یا سندھ ٹو نے میدان مار لیا ہے۔‘‘ مگر سندھ کی تازہ اندرونی لڑائی میں‘ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ کی دیرینہ کشیدگی ڈوبتی ہوئی نظر آنے لگی ہے اور ملکی سطح پر ایک بڑی سیاسی تبدیلی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں اور انہی امکانات کے جلو میں کالا باغ ڈیم کا ڈوبا ہوا منصوبہ‘ ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔غور کریں تو2008ء کے انتخابات کے بعد جو سیاسی منظر سامنے آیا ہے‘ اس میں حکومت سازی کے ہنگامے اتنے پرشور تھے کہ اس سیاسی تبدیلی پر کسی کی نظر ہی نہ گئی‘ جس میں پاکستان کے لئے مستقبل کے شاندار امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں‘ اے این پی کو بڑی شکست ہوئی اور یہی پارٹی کالاباغ ڈیم کی مخالفت کو انتہا تک لے گئی۔ جس کے نتیجے میں پرویزمشرف جیسے ڈکٹیٹر کو بھی پسپا ہونا پڑا۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اے این پی نے ‘ کالا باغ ڈیم کے مسئلے کو سیاسی مقاصد کے تحت الجھایا ہے اور ایسا کرنے میں صوبہ سرحد کے اس وقت کے گورنر جنرل فضل حق پیش پیش تھے۔ وہ یہ منصوبہ موخر کر کے بڑے مفادات کو تحفظ دینے پر بضد تھے اور جب ناکامی ہوتی نظر آئی‘ تو انہوں نے اس منصوبے ہی کو نشانہ بنا لیا اور اے این پی کی مدد سے‘ اس کے خلاف خیبرپختونخوا میں بڑے بڑے مفادات رکھنے والوں کو منظم کر کے‘ زبردست مہم چلائی اور قوم پرست سندھیوں اور بلوچ سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر‘ پنجاب کا ٹھپہ لگا دیا اور یوں قومی یکجہتی کے لئے خطرہ پیدا کر کے‘ کالاباغ ڈیم کے حامیوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ مگر سیاسیات کی اپنی میکنزم ہوتی ہے اور ایسی انہونیاں ہونے لگتی ہیں‘جس کا اندازہ بھی نہ لگایا گیا ہو۔
خیبرپختونخوا میں‘اب وہ سیاسی طاقتیں فتح حاصل کر کے حکومت بنا چکی ہیں‘ جنہوں نے کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں کبھی انتہائی پوزیشن اختیار نہیں کی۔ خود اے این پی کو بھی پتہ تھا کہ جب تک ملک کے دوسرے صوبے‘ نعرے بازی میں ان کے ہمنوا نہیں ہوں گے‘ صرف خیبرپختونخوا کی ایک جماعت اپنی مخالفانہ مہم کو زیادہ دیر تک موثر نہیں رکھ سکے گی۔ اس کے لیڈروں نے دیگر سیاسی معاملات میں یکجائی کے لئے کالاباغ ڈیم کے خلاف سندھی قوم پرستوں کو ساتھ ملا لیا اور بے بنیاد دلائل کی بنیاد پر ان کے جذبات بھڑکائے اور ظاہر یہ کیا کہ اس منصوبے سے سندھی عوام کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے اور سندھی بھائیوں کی طرح کچھ بلوچ قائدین نے بھی‘ اس منصوبے کی مخالفت شروع کر دی اور یوںایک انتہائی فائدہ مند منصوبہ داخل دفتر کرنا پڑا۔ اب سیاسی فضا بدل رہی ہے۔ کالاباغ ڈیم کے خلاف نفرت کی جو اونچی دیوار اے این پی نے تعمیر کی تھی‘ اس کے معمار اپنی سیاسی طاقت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں اور جو نئی طاقتیں اس خلا کو پرکرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں‘ ان کی طاقت اتنی زیادہ نہیں کہ یہ نفرت نئی سیاسی طاقتوں پر غلبہ پا جائے۔ سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی نے مجبوراً دیگر تین صوبوں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا خیال کرتے ہوئے ڈیم کی مخالف لابی کی ضد کے سامنے خاموشی اختیار کر لی۔ بلدیاتی انتخابات پر الطاف بھائی نے کالاباغ ڈیم کی حمایت کا عندیہ دے کر‘ نئے امکانات پیدا کر دیئے ہیں۔ ایم ایم کیو کے دعوئوں کے مطابق سندھ کی 40 فیصد آبادی ایم کیو ایم کی حامی ہے۔ سندھ میں دوسری نسلی اور لسانی قوتیں بھی موجود ہیں۔ سارے سندھی کالاباغ ڈیم کے مخالف بھی نہیں۔ خود پیپلزپارٹی اس ڈیم کی زبردست حامی تھی۔ اسے مجبوراً اے این پی کے سامنے نرمی اختیار کرنا پڑی۔ ورنہ نوازشریف نے تو قوم سے ایک خطاب کے دوران کالاباغ ڈیم بنانے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ جس پر اے این پی نے ادھم مچایا اور نوازشریف کو خاموش ہونا پڑا۔
سندھ کے اندر اگر مسلم لیگ (ن) ‘ قوم پرست اور ایم کیو ایم‘ ہم خیال ہو کر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو قبول کر لیں‘ تو بلوچستان میں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف جذبات زیادہ شدید نہیں ہیں اور خیبرپختونخوا میں‘ غالب آتی ہوئی سیاسی قیادتیں اس معاملے میںافہام و تفہیم پر آمادہ ہو سکتی ہیں۔ یہ نئی سیاسی تشکیلات ہمارے مستقبل کی طرف بڑھتی ہوئی تاریکیوں کا راستہ روک سکتی ہیں اور جس الطاف بھائی پر بار بار علیحدگی پسندی اور ملک دشمنی کے الزامات لگائے جاتے ہیں‘ وہی الطاف بھائی قومی سلامتی اور یکجہتی کے نمائندہ لیڈر کی حیثیت سے دیکھے جانے لگیں گے۔ آخر میں الطاف بھائی کو میرغوث بخش بزنجو کی رائے یاد دلائوں گا‘ جو انہوں نے طویل عرصے تک علاقائی سیاست کرنے کے بعد قائم کی تھی۔ میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا ''ہمیں بھارت کا حامی کہہ کر علیحدگی پسند کہا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے حقائق کے مطالعہ اور تلخ تجربوں کے بعد یہ سیکھا ہے کہ ہمارے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں۔ ہمیں اسلام آباد والوں کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے قریباً تین عشرے ہو چکے ہیں۔ ہمارے درمیان بحث مباحثے بھی ہوئے۔ باہمی کشیدگی بھی پیدا ہوئی۔ ایک دوسرے کو نقصانات بھی پہنچاتے رہے۔ مگر باہمی لڑائی جھگڑے اور مذاکرات کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کے مواقع بھی ملے۔ دلی میں ہم کسی کو نہیں جانتے۔ ہم ان کے ساتھ جانا بھی چاہیں‘ تو ہم ایک دوسرے کے لئے اتنے اجنبی ہیں کہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں بھی کئی عشرے لگ جائیں گے۔ جبکہ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو ہم جانتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ ہمارا مفاد اسی میں ہے کہ ہم اسی ملک کے اندر رہ کر اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔‘‘دوسرے جزیرے پر تفصیل سے بات نہیں ہو سکی۔یہ زیادہ پائیدار بھی نہیں۔ ہو سکتا ہے چند روز بعد پانی کے نیچے چلا جائے۔ اگر یہ زیادہ دیر سطح آب پر برقرار رہ سکاتو کسی بھی وقت پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی قربت نیا سیاسی ماحول پیدا کرسکتی ہے اور پیپلزپارٹی کے موجودہ لیڈر‘ آصف علی زرداری پہلے ہی ''پاکستان کھپے‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔