یہ سوال بے معنی ہے کہ پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا دی جاتی ہے؟ عمر قید کی؟ یا انہیں جلاوطن کر دیا جاتا ہے؟ تینوں صورتوں میں وہ منظر سے باہر ہو جائیں گے۔ جو کچھ باقی رہے گا‘ وہ ہے‘ تقسیم شدہ معاشرے کی مزید تقسیم۔ نفرتوں کی شمشیر زنی میں ایک اور معرکہ شمشیر زنی۔ آبادیوں کے اوپر منڈلاتے ہوئے‘ ماضی کے بھوتوں میں‘ ایک بھوت کا اضافہ۔ اداروں کے درمیان‘ جمہوریت کے گزشتہ 5 سالوں کے دوران اور عوامی مفادات کی قیمت پر‘ آئینی بقائے باہمی کی جو بنیاد رکھی گئی‘ اس کا انہدام اور سب سے خوفناک بلکہ ہیبت زدہ کر دینے والا اندیشہ کہ ایک نئے 12 اکتوبر کی واپسی کے راستے ہموار ہونے کے امکانات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 12 اکتوبر کا ہدف کون تھا؟ دوتہائی کی پارلیمانی اکثریت سے منتخب وزیر اعظم نواز شریف۔ منتخب پارلیمنٹ۔ آئینی عدلیہ۔ منتخب کابینہ اور بے شمار ایسے ادارے‘ جو آئین کی معطلی کے بعد اور نئے ایگزیکٹو آرڈر کے درمیانی وقفے میں‘ معلق رہے۔ میں اس آئین شکنی کے پہلے قیدیوں میں سے ہوں۔ جس طرح اقتدار پر قبضے کی کہانیوں اور نئے قابضین کے عدم ظہور کے وقفے میں ہم نے ایک ایک منٹ گزارا‘ وہ صرف ہم لوگ جانتے ہیں۔ نواز شریف کو ایسے انداز میں وزیر اعظم ہائوس سے زبردستی لے جایا گیا‘ جو عوام کے منتخب وزیر اعظم کے شایان شان نہیں تھا۔ میڈیا کے ذریعے خبریں جاننے کو بے تاب عام شہریوں پر کیا گزر رہی تھی؟ یہ ہم نہیں جانتے تھے۔ مگر ہم یہ ضرور جانتے تھے کہ وزیر اعظم کو ہمارے سامنے حراست میں لے کر نکال لیا گیا تھا اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کی ذمہ داریاں کس نے سنبھالی تھیں؟ اس کی نہ ہمیں خبر تھی‘ نہ دنیا کو اور پاکستان کے عوام کو۔ یہ تھی خلا کی وہ کیفیت جو قریباً 6 گھنٹے تک پاکستان پر مسلط رہی اور جب نصف شب گزر جانے کے بعد‘ اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف پرویز مشرف ٹی وی پر نمودار ہوئے‘ تو انہوں نے نظم و نسق سنبھالنے کا اعلان کیا۔ اس کا کوئی آئینی‘ قانونی اور اخلاقی جواز پیش کرنے کی انہوں نے زحمت نہیں کی۔ ماسوا اس کے کہ وزیر اعظم نواز شریف پر کچھ الزامات لگائے‘ جو ایک منتخب حکومت کو بندوق کے زور پہ ختم کرنے کے اقدام کا کسی بھی طرح جواز نہیں بن سکتے تھے۔
آج نواز شریف کی حکومت ہے ۔ ان کے سیاسی اور ''حکومتی‘‘ حامی‘ یہ ثابت کرنے پر پورا زور لگا رہے ہیں کہ 12 اکتوبر کے واقعات کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بات پرانی ہو چکی ہے۔ پرویز مشرف نے آئین توڑا تھا لیکن عدلیہ نے انہیں تحفظ دیتے ہوئے‘ 3 سال حکومت کرنے کا اختیار دے دیا تھا۔ اس میں کسی کو دلچسپی نہیں کہ نواز شریف کی منتخب حکومت اور آئین کے ختم ہونے اور پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ اس وقت ملک کا حکمران کون تھا؟ پی سی او جاری اور نافذ کرنے کی اتھارٹی کہاں تھی؟ کس نے حاصل کی؟ کہاں سے حاصل کی؟ پرویز مشرف کسی بھی آئینی‘ قانونی یا ہنگامی اتھارٹی کے تحت چیف ایگزیکٹو نہیں بنے تھے اور جب بطور چیف ایگزیکٹو ان کا وجود ہی نہیں تھا‘ تو ان کے بنائے ہوئے پی سی او کی حیثیت کیا تھی؟ اس کے تحت حلف اٹھانے والوں کی حیثیت کیا تھی؟ حلف اٹھانے کے بعد وہ پی سی او کے غیر مستند ملازمین‘ سپریم کورٹ آف پاکستان کیسے بن گئے؟ انہوں نے ایک غاصب کو اس آئین اور قانون کے تحت 3 سال حکومت کرنے کی اجازت کیسے دی؟ ان سارے سوالات کا تعلق 12 اکتوبر سے ہے‘ مگر نواز شریف کے حامی کہتے ہیں کہ اسے بھول جائیے۔ یعنی آئینی حکومت کی برطرفی بھول جائیے۔ وزیر اعظم کو دی گئی ناجائز اور ناروا تعزیریں بھول جائیے کیونکہ نواز شریف نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ مگر جب ان کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا‘ تو وہ پاکستان کے وزیر اعظم بھی تھے۔ وہ نجی طور پر اپنی ذات اور خاندان کو پہنچائی گئی تکلیفیں معاف کر سکتے ہیں۔ جو بدسلوکی اور غیرقانونی سلوک وزیر اعظم کے ساتھ کیا گیا‘ اسے معاف کرنے کا حق عوام اور پارلیمنٹ کا ہے۔ عوام اور پارلیمنٹ کو یہ حق استعمال کرنے کا موقع کب ملا؟ کہا جائے گا کہ عدالت نے آئین شکنی کو جائز قرار دے دیا تھا۔ انتخابات کے بعد قائم شدہ پارلیمنٹ نے آئینی تحفظ دے دیا تھا اور ان بنیادی سوالوں کا جواب تو ابھی تک حاصل نہیں کیا گیا‘ وہ کون تھے جو نواز شریف کی گرفتاری کے بعد پرویز مشرف کے چیف ایگزیکٹو بننے کے درمیانی وقفے میں‘ ملک کا نظم و نسق چلا رہے تھے؟ کیا ہم ان کی تلاش بھی نہ کریں؟ یہی تو وہ لوگ تھے‘ جنہوں نے پرویز مشرف کو چیف ایگزیکٹو بنایا۔ ان کو پی سی او جاری کرنے کی اتھارٹی دی اور اس پی سی او کے تحت ججز نے حلف اٹھایا اور اس حلف کے تحت انہوں نے پرویز مشرف کو 3 سال تک حکومت چلانے کا اختیار دے دیا۔ کہا جا رہا ہے یہ سارے تماشے درست ہیں۔ آئین شکنی کا جرم‘ پی سی او عدلیہ نے معاف کر دیا تھا۔ پتہ نہیں کب کیا تھا؟ پرویز مشرف نے 3 سال تک جو حکومت چلائی‘ اس کی کوئی آئینی بنیاد یا جواز نہیں تھا۔ پرویز مشرف نے جو انتخابات کرائے‘ وہ بھی کسی آئین کے تحت نہیں تھے۔ پی سی او کے تحت ہوئے۔ یہ غیر آئینی اسمبلی ایک آئینی ترمیم پاس کرتی ہے‘ جس کے تحت 12 اکتوبر کے سارے غیرآئینی اقدامات کو تحفظ فراہم کر دیا جاتا ہے۔ مگر اس اسمبلی کو کس کا تحفظ حاصل تھا؟ جب منتخب اسمبلی نے 18ویں ترمیم منظور کی‘ تو اس نے 17ویں ترمیم میں رکھی گئی غیر آئینی شقوں کو حذف کر دیا تھا۔ یہ شقیں حذف ہونے کے ساتھ ہی وہ نام نہاد آئینی تحفظ جو 12 اکتوبر کے تمام غیر آئینی اقدامات کو دئیے گئے تھے‘ختم ہو گئے اور آئینی حکومت پر واجب ہو گیا کہ وہ 12 اکتوبر کی حکومت کے مجرموں کو قانون کے شکنجے میں لا کر اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ ایسا نہیں کیا گیا۔ مگر کیا ایک حکومت کی غفلت‘ مجرموں کو بے گناہ قرار دینے کا جواز بن سکتی ہے؟ آئین اور قانون کے مجرم 20 سال کے بعد بھی گرفت میں آئیں‘ تو انہیں قانون کے کٹہرے میں لانا لازم ہوتا ہے۔ موجودہ قانونی کارروائی‘ ایک ایسے جرم کی بنیاد پر کی جا رہی ہے‘ جو 12 اکتوبر کے حقیقی جرم کے مقابلے میں پرکاہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ عملاً ایک بااختیار چیف ایگزیکٹو کا عارضی حکمنامہ تھا‘ جسے ایمرجنسی کہا گیا۔ جج صاحبان نے عدالتی اوقات کار گزر جانے کے کئی گھنٹوں بعد‘ ایک ہنگامی میٹنگ میں کمرہ عدالت کے بجائے‘ ایک دفتر کے اندر بیٹھ کر فیصلہ دے دیا۔ فیصلے میں ''شریک‘‘ تمام ججوں کے دستخطوں کے
بغیر‘ پریس ریلیز جاری کر دی گئی اور میڈیا کے ذریعے فیصلے کا نفاذ ہو گیا۔ مگر دوسری طرف وہی اختیارات‘ وہی اتھارٹی اور وہی درجہ رکھنے والے جج صاحبان نے جسٹس ڈوگر کی سربراہی میں مختلف فیصلہ دیا۔ ایمرجنسی کا وہ حکم‘ جسے آج غداری قرار دیا جا رہا ہے‘ چند ہی روز میں اپنی موت آپ مر گیا۔ لیکن یہ جرم بہت سنگین ہے۔ 12 اکتوبر کو کچھ نہیں ہوا تھا۔ برطرف کئے گئے وزیر اعظم کو موت کی سزا ہو گئی تھی لیکن وہ چھوٹی بات تھی۔ پرویز مشرف کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے چند ججوں کی مرضی کے خلاف‘ ایک متوقع متعصبانہ فیصلے کے اثرات سے خود بچنے یا ملک کو بچانے کے لئے‘ عارضی حکمنامہ جاری کر دیا۔ اب ہمارے اکرم شیخ صاحب اسے غداری ثابت کرنے کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں۔ ان کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ملزم کو سزا دلوانے کے لئے پُرعزم ہیں۔ انصاف دلانے کے لئے نہیں۔ سزا دلوانے کے لئے ان کی کامیابی کو انصاف کہا جائے گا۔ کہا تو ضرور جائے گا۔ کیا کہنا چاہیے؟ جو کوئی پرویز مشرف کو سیاست یا دنیا سے باہر کرنا چاہتا ہے‘ وہ اپنے انتقام کی آگ تو ٹھنڈی کر لے گا۔ (وہ جو کوئی بھی ہے) کیونکہ ذاتی انتقام کے حق سے نواز شریف مدتوں پہلے دستبردار ہو چکے ہیں۔ مگر ان کے سیاسی اور حکومتی حامیوںکو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا ہدف کیا ہے؟ ابھی تک ضیاالحق کے سوا کسی حکمران نے سابق حکمران کو سزائے موت یا عمرقید نہیں دی۔ مشرف نے سزا دی لیکن اسے ختم کر دیا گیا۔ بھٹو کے جانشینوں نے ضیاالحق کے خلاف‘ انتقام کی خواہش دبا لی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ضیاالحق اور پرویز مشرف دونوں کی آئین شکنی کے جرم کو تاریخ کے قبرستان میں دفن کر کے قوم نے آگے بڑھنا چاہا تھا‘ تاکہ آئندہ آئین شکنی نہ ہو اور اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں‘ تو ملک خونریزی سے بچا رہے۔ اگر اب خونریزی ہوئی‘ تو یہ ریاست کے وجود کے لئے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ یہ اڈول سا استحکام۔ یہ شیشے کے گھر میں رکھی ہوئی سیاسی بقائے باہمی۔ یہ پل کی پلک پر اٹکی ہوئی جمہوریت‘ سب کی حفاظتی دیواریں‘ حالات کے ایک جھونکے سے مسمار ہو سکتی ہیں۔ 12 اکتوبر فراموش کر کے‘ 3 نومبر کا پنڈروا بکس کھولنے والوں کو شاید اندازہ نہیں کہ اس کے اندر سے نیا 12 اکتوبر نکل آئے گا اور جو فرد یا گروہ دوبارہ 12اکتوبر برپا کرنے کی ٹھان کر آئے گا‘ اس کے ایجنڈے کی پہلی شق میں وہ نام لکھے ہوں گے‘ جنہیں آتے ہی گولی مارنے کا پروگرام ہو گا۔ ہم ایک نئے دور میں داخل ہو جائیں گے۔ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے پرامن انتقال اقتدار کے بجائے‘ انتقال اقتدار کا نیا دور‘ انسانی خون میں نہایا ہوا ہو گا۔ پرویز مشرف کو منظر سے ہٹانے والوں کی خواہش تو بر آئے گی۔ مگر منظر سے ہٹانے کے عمل میں جو کہ زوروشور سے جاری ہے‘ ہم شیشے کے گھر میں محفوظ‘ آئین اور جمہوریت‘ دونوں کے عارضی اور نازک حفاظتی انتظامات ریزہ ریزہ کر بیٹھیں گے۔ طاقت اور اقتدار کی جنگوں کے فیصلے عدالتوں میں نہیں‘ عوامی عدالتوں میں ہوتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں میںسابق حکمرانوں کو پھانسیاں یا عمر قید کی سزائیں ملتی ہیں۔ نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نہ پھانسی نے ذوالفقار علی بھٹو کو ختم کیا۔ نہ موت اور جلاوطنی کی سزا نواز شریف کو ختم کر سکی اور اب تو لطیفہ بھی ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے کہ پرویز مشرف کو سزا دلوانے کے خواہش مند سوچ رہے ہیں کہ ان کی جان چھوٹ جائے گی۔ کیا غلط فہمی ہے؟ سزا یافتہ پرویز مشرف ‘ زندہ سلامت اور آزاد پرویز مشرف کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہو گا۔