اس وقت ایک ایسی کتاب میرے سامنے ہے‘ جس کا مصنف بے نام ہے۔ موضوع ناپید لیکن معانی کے ان گنت پتھروں کے ڈھیر۔انتساب کے نیچے بکھرے کچھ الفاظ جو یہ ہیں''پھر‘میرا دلچسپ تر مسئلہ یہ کہ‘ ابھی میں آگاہ نہیں(خاص اپنی تحریروں کی گہرائی سے) ''خودگویا۔‘‘
میں مسکرایا۔ ''کون؟‘‘ ہنسا۔ ''انسان!‘‘
انسان کے نام!!!
اور‘
"e=mc2" کے نام
انتساب کے بعد دیباچہ‘ پیش لفظ‘ عرض مصنف یا اس طرح کی کوئی چیز موجود نہیں۔ایک چھوٹا سا ''تحریریہ‘‘ ہے۔ جس کی کل بساط درج ذیل الفاظ ہیں۔
دعویٰ:
معلوم کل انسانی تاریخ میں ''مِٹامِٹا سا جینئس‘‘ مزاح کی سب سے بڑی کتاب رہتی ہے۔۔۔ درحقیقت‘ جس کے مطالعہ میں مصروف آنکھیں کہیں ہنستی نظر نہیں آتیں۔ وہ مسکراتی بھی کم ہیں۔ پھر بھی مزاح۔۔۔ عظیم تر؟
ہاں مگر‘ جس کی مکمل خواندگی کے بعد قاری جب کتاب بند کرتا ہے اور اس کی نظر پھر عنوان پہ جا رہتی ہے‘ تو کچھ دیر وہ وہیں رہتا ہے(بند اوراق ہاتھوں میں تھامے‘ خوب کھلے ذہن کے ساتھ گویا)‘ پھر وہ ہنسنے لگتا ہے۔۔۔ اب وہ ہنستا جاتا ہے، ''مِٹامِٹا سا جینئس‘‘ دیکھتا جاتا ہے اور ہنستا جاتا ہے (مگر کتاب کا مرکزی مفہوم بخوبی سمجھتے ہی)‘ وہ ہنستا جاتا ہے۔۔۔ حتیٰ کہ (انسان کے) آنسو نکل آتے ہیں۔ پھر‘ وہ ہنستے ہنستے‘ اپنی آنکھیں پونچھتا ہے (اور ناک بھی تھوڑی سی)‘ اور پھر ہنسنے لگتا ہے‘ ہولے ہولے۔
کچھ ایسا مزاح!
یہی دعوی ہے‘ المختصر
(جو بذات خود کافی مزاحیہ ہے نا؟ـ)
پتہ نہیں کتاب کہاں سے شروع ہوتی ہے؟ میں نے درج بالا تحریریئے کو دیباچہ تصور کرتے ہوئے ورق گردانی شروع کی۔ یوں لگا کہ یہ کتاب‘ میرے اتوار کی صبح جیسی ہے۔بکھرے ہوئے اخبار۔ پھاڑ کر پھینکے ہوئے کاغذوں کے ٹکڑے۔ ادھ کھائے ناشے کے برتن۔ جیسے ٹھنڈی چائے کی آدھی پیالی۔ڈبل روٹی کے بے ڈھنگے ٹکڑے۔ لوڈشیڈنگ کے سبب اندھیروں اجالوں کی آنکھ مچولی۔ زیرلب مچلتی بیزاریاں۔ میرے ہر اتوار کی صبح ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایسی کتاب البتہ عشروں کے بعد دیکھنے کو ملی۔ یاد پڑتا ہے کہ 60ء کے عشرے میں افتخار جالب۔ احمد ہمیش۔انیس ناگی اور مادھو کے شعری مجموعوں کو نچوڑ کر‘ کسی نے یہ بے ہئیت تحریر اچھال دی ہے۔ اس میں کچھ خیال دھندلکوں سے نکلنے کی کوشش میں محسوس ہوتے ہیں۔ پگھلی ہوئی آئس کریم‘ اپنی ٹھنڈک کے بغیر اداس نظر آ رہی ہے۔ ایکٹروں کی محبتوں کی کہانیاں۔ منافقتوںسے بھری مکار مسکراہٹیں۔ قاتلانہ حملوں کی بغل گیریاں۔ اجلے پن میںغلاظتوں کی تہہ۔ جب الفاظ‘ خیالات‘ جذبات‘ محسوسات اور تصورات کے سلیقے سے‘ مرتب کئے ہوئے فن پاروں میں افراتفری پھیلتی ہے اور انارکی برپا ہوتی ہے‘ نئے نقوش‘ نئے رنگوں اور نئے معانی کے حشرات نمود پذیرہونے لگتے ہیں۔یوں تو ان دنوں ہماری دنیا بھی اسی حالت میں ہے۔ سب کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ آئین پرزہ پرزہ ہو گئے۔ قوانین ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ انسانی رشتوں کا حسن‘ پیروں تلے آنے والے پاپڑوں کی طرح چورا چورا ہو گیا۔قہقہے ڈرائونے ہو گئے۔ نئی سوچیں ہماری آبادیوں سے کوچ کر گئیں۔ پرانے اور سکہ بند تصورات پر زنگ لگ گیا۔ رشتوں کے سہارے ٹوٹ گئے۔ دنیا میں شاید ہی کسی ملک میں بسنے والے انسان‘ اتنے بے سہارا‘ اتنے بے سمجھ‘ اتنے بے رنگ اور اتنے خالی ہوں ‘ جتنے کہ ہمارے شہروں میں بسنے والے لوگ خالی ہو چکے ہیں۔ایک مگر امید۔ امید۔امید۔ کبھی نہ کبھی تو خیالوں میں تازگی آئے گی۔ نئے لفظ جنم لیں گے۔ خیالوں کی نئی کونپلیں پھوٹیں گی۔نئے رشتے ‘ نئے ڈیزائن میں جذبات کی خوشبوئیں بحال کریں گے۔ امیدوں‘ خواہشوں اور تمنائوں کی بکھری ہوئی کرچیاں‘ نئے ظروف کے اندر‘اپنے حسن اور چمک کے ساتھ منظروں کو سجائیں گی۔ امید۔ امید۔ امید۔آیئے! ''مِٹامِٹا سا جینئس‘‘ جو زیرنظر کتاب کا نام ہے۔پھر پڑھتے ہیں۔ عنوان کے بغیر پہلا تحریریہ یوں ہے۔
''پھر‘
فن کوئی دیگ نہیں!
کہ دو چاردانے زبان پہ رکھے‘ ادھر ادھر‘ گالوں کی اندرونی سطحوں پہ چپکائے‘ دانتوں تلے کچلے‘ چبائے‘ نگلے اور سر ہلا کے (اور کبھی تو نگلنے سے پہلے بھی) حتمی فیصلہ صادر۔۔۔ نہ!
ہاں مگر‘
فن تو وہ ہے کہ ‘ آخری اک فقرہ‘ یک لخت گزشتہ پوری کہانی ہی الٹا دے گویا‘ تو پھر (اچنبھا کچھ نہیں۔ حیات‘ فن کی دنیا میں اک معمول کا واقعہ) کوئی فسانہ ہے‘ المختصر۔‘‘
اس کتاب میں کہیں صرف عنوان ہے۔ نیچے کوئی تحریر نہیں۔ کہیں تحریریں ہیں‘ عنوان نہیں۔گویادنیا کی جھلک ہے۔ کبھی غور سے گردوپیش دیکھئے‘ آپ کو انسانی دھڑ نظر آئیں گے مگر سر نہیں۔ لڑھکتے ہوئے سر دکھائی دیں گے مگر سوچ نہیں۔ عقل اور چالاکیاں‘ بدمستیاں کرتی‘ چاروں جانب اچھل رہی ہوں گی۔ لیکن وژن نہیں۔ پھر کتاب میں جھانکتے ہیں۔ مصنف کو پھر خیال آ گیا کہ ایک انتساب اور چاہیے۔ عنوان لکھا اور نیچے ''تحریریہ‘‘ ہے۔
''میں کوئی دیا نہیں
(جسے روشنی کی غرض سے کسی نے جلایا ہو)
جلنا تو‘ اس کائنات میں میرے خمیر کا (کوئی) حصہ ہے۔۔۔(کاربن گویا) اور بس !‘‘
''کون ہو؟‘‘میں نے چونک کر پوچھا۔ ''تم کون ہو؟‘‘
''زندگی‘‘
بیشتر کتابوں میں تقریظ بھی ہوتی ہے۔ ہمارا بے نام مصنف کیوں بھولتا؟ سات صفحات لکھنے کے بعد تقریظ اتری۔ پیش خدمت ہے۔
''میں‘
ہر اس قلم کی تعظیم کرتا ہوں‘ جس کی نوک کے اعجاز سے‘
بند سینے کھلتے ہیں اور کھلے سینوں سے محبت ابلتی ہے۔۔۔
لیکن‘
میری روح کی بڑی مسرت کہ
اس کے بعد کا دیباچہ میرا(پرتخیل) قاری
اپنے اوراق ذہن پہ
(آپ لکھے)۔
اور
روشنائی کے ان چند قطروں سے‘
کوئی ایک بھی نیا قلم جنم لیتا ہے‘
(اسی کائنات میں)
کوئی ایک بھی پڑھنے والا‘ لکھنے بیٹھ جاتا ہے‘
کوئی ایک بھی لکھنے والا‘ پڑھنے بیٹھ جاتا ہے۔
تو میں سمجھوں گا‘ میں بے حدوحساب ناکام نہیں۔
اور بس!!!‘‘
آخر میں ایک بلا عنوان'' تحریریہ‘‘
''میں بلند آہنگ نغمے الاپتا ہوں۔۔۔
اور‘ تمہارے کانوں تک بس غوں غاں کی آوازیں ہی پہنچتی ہیں
تو کیا‘ یہ تم ہی نہیں؟؟؟
جو میرے منہ پر (نہایت کس کر) کپڑا باندھتے ہو!!!‘‘
آج کا کالم میری اتوار کی صبح‘ عام لوگوں کی روزمرہ زندگی اور خاص لوگوں کی بے معنی سرگرمیوں کی طرح بے معنی ہے۔وہ سفر ہے‘ جو لوگ واکر پر کھڑے ہو کر کرتے ہیں۔ چلتے چلتے تھک جاتے ہیں اور وہیں پر دوبارہ پیررکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ جہاں سے انہوں نے سفر شروع کیا تھا۔ نہ ابتدا کی خبر ہے ‘ نہ انتہا معلوم۔