پاک امریکہ تعلقات میں ہماری معصوم خواہشوں اور خوش فہمیوں کا سلسلہ اتنا دراز ہے کہ بارہا امیدیں اور خواب ٹوٹنے کے بعد بھی‘ خودفریبیوں کی سکون پرور چھائوں سے نکلنے کو ہمارا دل نہیں چاہتا۔عموماً یہ ہوتا ہے کہ ہم امریکیوں سے امیدیں باندھ کر کوئی فرمائش کرتے ہیں۔ وہ ڈپلومیسی کی زبان میں جواب دے دیتے ہیں۔ اس جواب کی حقیقت کو سمجھے اور چھان بین کئے بغیر‘ہم اپنی مرضی کا ایک نتیجہ نکالتے ہیں۔ میڈیا میں اس کا چرچا کرتے ہیں اور پھر ہوائوں میں تعمیر شدہ محلات کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر‘ حقائق سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی یہ خبریں ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ‘ امریکہ ڈرون حملوں میں کمی کر دے گا۔بات پوری ہونے سے پہلے ہی‘ ہم اس جملے کو اپنی سفارتی فتح سمجھتے ہوئے‘ نہ صرف خوش ہو گئے بلکہ اس فتح کا سہرا باندھنے پر بھی کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ تحریک انصاف والے کہتے کیا؟ دعویٰ کرتے ہیں کہ امریکہ کو ڈرن حملے بند کرنے کا فیصلہ‘ ہمارے دھرنوں کی وجہ سے کرنا پڑا۔ حکومت اسے اپنی کامیابی سمجھ رہی ہے اور بقراطی قبیلے سے تعلق رکھنے والے '' شب 8 سے12 ٹاک بازار‘‘ میں بھانت بھانت کے تجزیئے شروع ہو جاتے ہیں۔ ان تجزیوں کی ہائوہو میںدانش‘ فہم اور منطق کی شائستہ سی آواز ابھرتی ہے‘ تو غوغائے رقیباں کا بلند شور اسے دبا دیتا ہے۔ ان دنوں ہر کوئی خواہشوں پر مبنی اس خبر کا پس منظر چھانتے ہوئے‘ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہے کہ اس شاندار کامیابی کا سہرا باندھنے کا حق دار کون ہے؟ ہر دکان میں بیٹھا میزبان‘ ایک سہرا اچھالتا ہے اور پھر تین چار مدبروں کے درمیان ''رسہ کشی کی طرز پر سہراکشی‘‘ شروع ہو جاتی ہے اور کھلاڑی ایک گھنٹے کی کھینچا تانی میں سہرے کوفیتی فیتی کر کے‘ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
بات بات پر بحث شروع کرنا ہماری عادت بن چکی ہے۔ موضوع کوئی بھی ہو‘ بحث کو طول دیناہمارے بائیں ہاتھ کی چیچی (چھنگلیا) کا کام ہے۔مجھے دنیا میں کسی ایسے ملک کا نام بتا دیں‘ جس کی وجہ تسمیہ پر ‘ 66سال سے بحث ہو رہی ہواور اگلے 66 سال میں بھی ‘بحث ختم ہونے کے دور دور تک آثار نہ ہوں۔ وجہ تسمیہ کا اردو ترجمہ ''نام رکھنے کی وجہ‘‘ ہے۔ اس ایک موضوع کو درجنوں اجزاء میں تقسیم کر کے‘ ہم بحث کرتے چلے جا رہے ہیں اور کسی بھی ایک جز پر نتیجہ اخذ کرنے کی بجائے‘ بحث کو پھیلا دیتے ہیں۔ مباحثے میں شریک تمام کے تمام خواتین و حضرات‘ اپنے ملک کے نام کے حروف‘ جغرافیے سے مرتب کرتے اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اس میں پ پنجاب سے ہے‘ ک کشمیر سے‘ س سندھ اور سرحد سے اور تا ن بلوچستان سے ہے۔ جغرافیائی عناصر کے اس مرکب سے پاکستان بنا دیا گیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم نے متعدد جغرافیائی اکائیوں کا پہلا حرف لے کر‘ اپنے ملک کو نام دیا اور وہ ان سارے صوبوں کے رہنے والوں کا مشترکہ وطن بن گیا۔ اس کی وجہ تسمیہ ڈھونڈیں‘ جغرافیہ خود رہنمائی کر دیتا ہے۔ ہر حرف ایک جغرافیائی یونٹ کی پہچان ہے اور ان سارے یونٹوں کا مرکب پاکستان ہے۔ جس میں ہر یونٹ کے بسنے والوں نے اپنی اپنی تاریخ‘ کلچر‘ زبان‘ عادات و اطوار‘ رہن سہن اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ رضامندی سے اکٹھے رہنے کا فیصلہ کیا۔ مگر ہم کسی بات پر ٹھہرنے والے کب ہیں؟23سال تک ہم جغرافیائی پاکستان کے اندر رہتے رہے۔ اس کے بعد اچانک ایک آمر کو خیال آیا کہ ہمارا ایک نظریہ بھی ہونا چاہیے۔ یہ نیک کام جنرل یحییٰ خان کی ہدایت پر نوابزادہ شیرعلی خان نے انجام دیا اور سرکاری طور پر نظریہ پاکستان پیش کر کے‘ بتایا گیا کہ پاکستان کس لئے بنا تھا؟ 23سال تک کسی کو پتہ نہیں چلا کہ ہم نے اپنا ملک حاصل کس لئے کیا تھا؟ سرحدیں ہم نے بدل دیں۔ نظریہ ابھی تک طے نہیں ہوا۔ 1970ء میں منوبھائی نے ایک لفظ ''درفنطنی‘‘ گھڑا اور پھر یہ بحث چل نکلی کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ میں نے اس کی تشریح ایک شعر میں یوں کی تھی ؎
پوچھتے ہیں لوگ یہ درفنطنی کیا چیز ہے؟
یہ سوال اپنی جگہ پر بھی ہے اک درفنطنی
نظریہ پاکستان کے بارے میں ابھی تک فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ ہے نا درفنطنی۔ آپ کسی ملک کا نام یاد کر لیں‘ اشتہاری زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ ''نام ہی کافی ہے۔‘‘ مصر کا نام آنے پر کہا جائے گا مصریوں کا ملک۔ ایران‘ ایرانیوں کا ملک۔ شام‘ شامیوں کا ملک۔ افغانستان‘ افغانیوں کا ملک۔ سعودی عرب‘ عربوں کا ملک۔ جہاں مختلف تہذیبوں کی جغرافیائی قومیتوںکو ملا کر ملک بنایا گیا ہو‘ جیسے ملائشیا‘ یوگوسلاویہ‘ چیکوسلواکیہ‘ ان کے ناموں سے بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ کونسی قومیتوں کا مشترکہ ملک ہے؟ اصولاً پاکستان کے بارے میں بھی یہی ہونا چاہیے کہ یہ پاکستانیوں کا ملک ہے۔ کیونکہ جن حروف کو جوڑ کر یہ نام بنایا گیا ہے‘ ان علاقوں کے باسیوں کا مشترکہ وطن پاکستان ہے۔ مگر ہم کہاں مانتے ہیں؟ ہم نے آنے والے کئی عشروں تک بحث کرنے کی ایسی بنیاد ڈھونڈ لی‘ جس پر ہم نسلوں بحث کر سکتے ہیں۔ یاددہانی کے لئے عرض ہے کہ 1970ء میں نظریہ پاکستان کی ترکیب بحث کی منڈی میںآئی اور 1971ء میں پاکستان دولخت ہو گیا۔ یہ اس بحث کا پہلا نتیجہ تھا۔ خدا نہ کرے اسی طرح کا مزید کوئی نتیجہ پھر نکلے۔
بات کا رخ بدلتے بدلتے میں‘ کہیں سے کہیں نکل آیا۔ لیکن پہنچا کہیں بھی نہیں۔ اس فن میں جو کمال ہم نے حاصل کیا ہے‘ کوئی دوسری قوم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہم جس موضوع پر بھی بات شروع کرتے ہیں‘ اسے پھیلاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے کہیں رک کر یہ نہیں سوچتے کہ کدھر سے کدھر نکلتے ہوئے‘ ہم کدھر جا رہے ہیں؟ بے ہنری کے اس ہنر میں‘ہم نے ایسے ایسے ماہرین تیار کئے ہیںکہ10متضاد دعوئوں کو ثابت کرنے کے لئے ‘وہ ایک ہی دلیل استعمال کر سکتے ہیں اور 10متضاد دلائل کو‘ ایک ہی دعوے کے حق میں نگینوں کی طرح جڑسکتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ اس قومی کمال فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ میں ایک ہی جست میں‘ پاک امریکہ تعلقات کی طرف واپس کیسے آتا ہوں؟ ڈرون کے زمانے میں بات کیا؟ بتنگڑ بنائے جا سکتے ہیں۔ میرا بتنگڑ یہ ہے کہ امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہاں شائع ہونے والی رپورٹوں اور تجزیوں کا مطالعہ کریں‘ تو ایک ہی بات واضح ہوتی ہے کہ امریکی پالیسی صرف اس کی سٹریٹجک پالیسیوں اور ضرورتوں کے تحت بنائی جاتی ہے۔ اس میں ترامیم بھی وہ اپنی ضرورتوں کے تحت ہی کرتے ہیں۔ ڈرون کا استعمال بھی اسی اصول پر کیا گیا۔ جب تک ہمارے حکمران‘ پاکستان کے اندر سے ڈرونز کی اڑانیں برداشت کرتے رہے‘ انہوں نے ہمارا اڈا استعمال کیا۔ شور اٹھا‘ تواپنے ڈرون اٹھا کر افغانستان چلے گئے۔ حملوں کا فیصلہ وہ اپنے اطلاعاتی نظام کی روشنی میں کرتے ہیں۔ ان دنوںوہ مستقبل کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے‘ طالبان کو ہدف بنانے سے گریزاں ہیں۔ 2010ء میں پاکستان کے اندر 122 ڈرون حملے کئے گئے۔ 2013ء میں صرف 26 رہ گئے۔ اس دوران پاک طالبان مذاکرات تو شروع نہیں ہوئے تھے۔ پھر یہ فرق کیوں پڑا؟ اس کی واحد وجہ امریکہ کی اپنی ضروریات ہیں۔اب طالبان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے جا رہے ہیں‘ افغانستان سے بیرونی فوجوں کے انخلا کا وقت نزدیک آ گیا ہے۔ خطے میں امریکی دلچسپی کی نوعیت بھی بدل رہی ہے۔ پاکستان میں اس کا ہدف‘ اب صرف القاعدہ کے لوگ ہوں گے۔ پاکستانی طالبان کے خلاف حملے بند یا کم کر کے‘ وہ جوابی خیرسگالی کا انتظار کرے گا۔ اگر واپس جاتی ہوئی امریکی افواج پر‘ پاکستان کی طرف سے جانے والے دہشت گردوں نے حملے کئے‘ تو جواب بھی ضرور آئے گا اور اگر ایسا نہ ہوا‘ تو ڈرون حملے القاعدہ کے اہداف تک محدود رہیں گے۔ یہ بات امریکیوں نے صاف کہہ دی ہے۔ طالبان سے بھی اور ہم سے بھی۔ اس میں ہمارے کسی جینئس یا سٹریٹجسٹ کا کمال نہیں۔پاک امریکہ تعلقات کے دونوں رجسٹربدل گئے ہیں۔ اب فوجی تعاون والے رجسٹر میں اندراجات گھٹتے جائیں گے اور سول سوسائٹی سے تعلقات والے رجسٹر میں اندراجات بڑھتے جائیں گے اور یہ دونوں سلسلے شروع ہو چکے ہیں۔