طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ڈرامے کا انجام تو مجھے معلوم ہی تھا۔ روز اول ہی سے مختلف دلائل کے ساتھ عرض کرتا رہا کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔ ہمارے وزیراعظم کچھ زیادہ جوش خروش میں تھے اور تمام حقائق جاننے کے باوجود انہوں نے ایک ''تفریحی‘‘کمیٹی کا اعلان کر دیا۔ جواب میں طالبان نے کمیٹی کے نام پر مکمل تفریحی پروگرام پیش کر دیا۔ لیکن سچی بات ہے اس وقت ایک ایک دن انتہائی قیمتی ہے۔ ہم نے مذاکراتی تفنن طبع کی خاطر جو 21دن ضائع کئے‘ ان کے سارے فوائد طالبان نے یکطرفہ طور پر سمیٹے۔ امریکیوں نے جب افپاک کی اصطلاح تراشی تھی‘ تو ہمارے دانشور بہت سیخ پا ہوئے کہ امریکہ‘ پاکستان اور افغانستان کو مساوی حیثیت میں رکھ کر‘ ہمارے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے۔مگر یہ ایک سٹریٹجک اصطلاح تھی۔ جب ضیاالحق نے سوویت یونین کے خلاف ‘ پاکستان کو امریکی جنگ کا اڈہ بنا کر ہمارا بیڑا غرق کیا‘ تو ''افپاک‘‘ اسی وقت معرض وجود میں آگیا تھا۔ہم نے افغان جنگ کا حصہ بن کر‘ خود ہی پاک افغان سرحدوں کو عملاً ختم کر دیا۔ جو کام ہم یہاں سے افغانستان میں کرتے رہے‘ جواب میں وہی کام افغانستان سے ہماری طرف بھی ہو سکتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ جس پیمانے پر ہماری طرف سے کیا گیا‘ ابھی تک افغانستان کی طرف سے نہیں ہوا۔ اب وقت آ رہا ہے کہ جو سہولت ہم نے استعمال کی تھی‘ افغانستان والے بھی اس کا فائدہ اٹھائیں۔ تب واضح ہو جائے گا کہ ''افپاک‘‘ کا سٹریٹجک مفہوم کیا تھا۔
امریکی افواج کی واپسی بڑے پیمانے پر شروع ہونے والی ہے۔ اس سے پہلے وہ چاہتا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ‘ محاذ آرائی بڑھنے کی صورت میں‘ پاکستانی طالبان ‘ افغانستان میں داخل نہ ہو سکیں۔ ہم نے تو شاید سوچا بھی نہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے نتائج کیا تھے۔ ہمارے وزیرداخلہ صاحب نے اسے یہی سمجھا کہ ان کے مذاکرات کے چھابے کو‘ لات مار دی گئی ہے۔ لیکن افغان طالبان کی قیادت نے‘ اس موقعے کا پورا پورا فائدہ اٹھایا اور افغان اور پاکستانی طالبان کی کمانڈ کو یکجا کر دیا۔ بیشک امریکہ ‘ پاکستان اور طالبان کے مابین مذاکرات سے خوش نہیں تھا۔ لیکن ان میں خلل ڈالنے کے لئے امریکہ نے جو ڈرون حملہ کیا‘ وہ الٹا اس کے گلے پڑ گیا۔ٹی ٹی پی کا مرکزی ہیڈکوارٹر افغانستان منتقل ہو گیا۔ ٹی ٹی پی کی قیادت پاکستان کے اندر رہتی‘ توپاک افغان سرحدوں کا کچھ نہ کچھ احترام باقی رہتا۔ اب دونوں طرف کے طالبان‘ ایک ہی کمانڈ سٹرکچر کا حصہ بن گئے ہیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر امریکی تشویش میں اضافہ ہو گیا اور انہوں نے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے فوری اقدامات کئے۔ مہمند ایجنسی میں ایف سی کے 23جوانوں کی شہادت اسی سلسلے کی کارروائی لگتی ہے۔ میری معلومات کے مطابق عمر خالد خراسانی کے گروپ میں امریکی اثرات بھی موجود ہیں۔ یہ شبہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے جوانوں کی شہادت کا اشارہ اسی طرف سے آیا ہو۔ بہرحال یہ سانحہ کسی کے اشارے پر بھی ہوا ہو‘ نتیجہ وہی نکلا ‘جس کی خاطر یہ بربریت کرائی گئی۔ آج ہی ''فارن پالیسی میگزین‘‘ میں ڈینیل مارکی کی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے‘ جس میں اس نے لکھا ہے کہ ٹی ٹی پی اور پاکستان میں براہ راست مذاکرات پر امریکیوں کو گہری تشویش تھی۔ اس کے مطابق پاکستان کے ایک اعلیٰ افسر نے‘ فروری کے ابتدائی دنوں میں اسے بتایا کہ ''یہ مذاکرات سیاسی ڈرامے کے سوا کچھ نہیں۔ ٹی ٹی پی جلد ہی اپنا اصل رنگ دکھا دے گی اور مذاکرات کی ناکامی پر پاکستانی عوام ‘ طالبان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ زیادہ زورو شور سے کریں گے۔‘‘ نامہ نگار لکھتا ہے کہ ''امریکیوں نے اپنی یہ تشویش ‘ پاکستانیوں پر کبھی ظاہر نہیں کی۔ وہ صرف صورتحال کا جائزہ لیتے رہے۔ جس روز حکومتی وفد کے کچھ اراکین شمالی وزیرستان گئے تھے‘ امریکہ کے کئی ڈرون وہاں کی فضائوں میں پروازیں کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔‘‘پاکستانی رائے عامہ نے مذاکرات کے پردے میں ‘ دہشت گردی کی ان وارداتوں کو شدت سے محسوس کیا ہے‘ جن میں پاکستان کی پولیس اور قید میں پڑے فوجی جوانوں کو شہید کیا گیا۔اب وزیراعظم کے لئے ممکن نہیں کہ وہ شہیدوں کے خون کی لکیر پار کرتے ہوئے‘ قاتلوں کی طرف مذاکرات کا ہاتھ بڑھائیں۔ کراچی کے حالات پر ''وال سٹریٹ جرنل‘‘ کی تفصیلی رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔ وہاں طالبان نے اپنے قدم مضبوطی سے جما رکھے ہیں۔ بلوچستان میں قیام کے دوران طالبان کی قیادت نے انتہائی خاموشی سے اپنا اثرورسوخ پیدا کیا اور وہاں ان کے حامی قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں۔فاٹا سے ملحقہ علاقوں میں طالبان نے اپنے ہمدردوں اور حامیوں کی اچھی خاصی تعداد پیدا کر لی ہے۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ حملہ آوروں کی اتنی بڑی تعداد اطمینان سے ایک طویل آپریشن کر کے بلاروک ٹوک واپس نہیں جا سکتی تھی۔ ایسا صرف راستوں کے گردونواح میں موجود ہمدردوں کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ روزنامہ ''دنیا‘‘ کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن رئوف کلاسرا نے وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کا انکشاف کیا ہے‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ‘ لشکر جھنگوی اور تحریک طالبان نے اسلام آباد میں محفوظ ٹھکانے بنا لئے ہیں۔ راولپنڈی میں دہشت گردی کے حالیہ دو بڑے واقعات اس رپورٹ کی تصدیق کرتے ہیں۔ خصوصاً 10ویں محرم کو راولپنڈی میں جو کچھ ہوا‘ اس پر ایک مخصوص کالعدم تنظیم کی چھاپ نہایت واضح تھی اور شہر کے اندر فورسز کے جوانوں پر جو حملہ ہوا‘ اس پر القاعدہ کا ٹریڈمارک موجود تھا۔ بھتہ اور اغوا برائے تاوان کی مسلسل وارداتیں بھی اس امر کا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد اسلام آباد میں کارروائیاں کرنے کے اہل ہو چکے ہیں۔ جس بات پر مجھے زیادہ تشویش ہوئی‘ وہ قبائلی علاقوں کے باشندوں میں پھیلتے ہوئے اضطراب کی خبریں ہیں۔ وہاں پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لئے جو فوجی دستے متعین ہیں‘ ان کی وجہ سے 21 لاکھ کے لگ بھگ مقامی آبادی کئی برسوں سے گھروں کے باہر بے یارومددگار پڑی ہے۔ فاٹا کے 20ہزار سے زیادہ طلبہ پشاور کی درسگاہوں میں پڑھتے ہیں اور ہزاروں افراد شہروں میں مزدوری اور نوکریاں کرنے آتے ہیں۔ فاٹا خصوصاً وزیرستان کے راستوں پر جگہ جگہ سکیورٹی فورسز کی چوکیاںقائم ہیں‘ جہاں آنے جانے والوں سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے اکثر طلبہ اور کام کاج پر جانے والے اپنے گھروں میں جانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ بعض کئی کئی مہینے تک اپنے گھر نہیں جا سکتے۔ اس صورتحال پر مقامی آبادی میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے۔ طلبا‘ پشاور میں اکثر احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں اور یہ بے چینی طالبان نہیں‘پاک فوج کے خلاف پیدا ہو رہی ہے۔ یقینی طور پر طالبان نے عوام کی بے چینی میں اضافہ کرنے میں موثر کردار ادا کیا ہو گا۔ ڈرون حملوں پر پہلے تو زیادہ ردعمل نہیں پایا جاتا تھا۔ لیکن جب سے سیاستدانوں اور میڈیا نے ان کی تباہ کاریوں کے خلاف مہم چلائی ہے‘ فاٹا کی مقامی آبادی بھی اس پر بے چینی کا اظہار کرنے لگی ہے۔ مجھے ہرگز یہ اندازہ نہیں تھا کہ مقامی آبادی کی سوچ اور جذبات میں اس طرح کی تبدیلی آ رہی ہے۔ اس پر مجھے مشرقی پاکستان یاد آ گیا اور میری پریشانی اور تشویش میں اضافہ ہونے لگا۔ اسی طرح کے حالات تھے‘ جب فوج کو دہشت گردوں کے خلاف آبادیوں میں بھیجا گیا اور وہ تباہی نازل ہوئی‘ جس پر ہم آج بھی خون کے آنسو روتے ہیں۔ موجودہ پاکستان کے کئی علاقوں میں برسوں سے دیہی اور شہری آبادیوں میں فوج ڈیوٹی دے رہی ہے۔ پورے کے پورے بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری رہا۔ فاٹا میں دہشت گردوں کے خلاف فوج برسرپیکار ہے۔ کراچی میں سماج دشمن عناصر اور مختلف تنظیموں کے غنڈہ عناصر کے خلاف آپریشن میں‘ رینجرز کے جوان حصہ لے رہے ہیں ۔ اس مہم میں دہشت گردوں کے خلاف بھی کارروائی ہو رہی ہے۔ لیکن جو بات میں سوچ رہا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ 2کروڑ کی آبادی میں رینجرز کا طویل عرصے تک کسی آپریشن میں حصہ لیناخطرناک نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ حالات میں کوئی انقلابی تبدیلی نہ لائی گئی‘ تو حالات اتنے خراب ہو سکتے ہیں ‘ جن کا ہم تصور نہیں کر سکتے۔ ''فارن پالیسی میگزین‘‘ کی تازہ رپورٹ ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے۔
''پرعزم اور شدت پسند فریق مخالف (دہشت گرد) کے مقابلے میں‘ نہ صرف کمزور اور نازک پاک امریکی تعاون کی تجدید‘ بلکہ پاکستان کی ریاستی رٹ کا مستقبل بھی دائو پر لگ چکا ہے۔ بدقسمتی سے‘ پاکستان کے لیے کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ جنگ کا متبادل (یا حاصل) امن نہیں‘ سرنڈر ہے‘‘۔