ہمارے سامنے جنگ سے بچائو کا راستہ باقی نہیں رہا۔ ہم صرف انتخاب کر سکتے ہیں۔ اندرون ملک‘ دہشت گردوں کے ساتھ لڑنا ہے؟ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں کے مشترکہ نیٹ ورک سے برسرپیکار ہونا ہے؟ یا شرق اوسط کے نئے میدان جنگ میںاتر کے‘ خطے کی دوسری بڑی اور طویل جنگ میں شریک ہو کر‘دو جنگوں کے میدانوں میں بیک وقت کودنا ہے؟ جہاں تک دہشت گردی کے خلاف اندرون ملک جنگ لڑنے کا سوال ہے‘ یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں رہ گئی۔ ہم‘ ٹی ٹی پی یا اس کے حواریوں کے خلاف جنگ کو‘ اپنی سرحدوں کے اندر محدود نہیں رکھ سکتے۔تحریک طالبان پاکستان معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی‘ افغان طالبان سے منسلک ہے۔ ہماری بدنصیبی تھی کہ ہم نے امریکیوں کو خود بلا کر ‘افغان جنگ میں فریق بنایا اور اس کے عوض اسلحہ اور ڈالر حاصل کئے۔ جن قوموں کو اہل اور وطن پرست قیادت دستیاب ہوتی ہے‘ وہ ایسے مواقع کو اپنے ملک کے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ سوویت افواج‘ افغانستان میں داخل ہوئیں‘ تو امریکی بلاک یقینا فکرمند ہو سکتا تھا کہ سوویت یونین مزید پیش قدمی نہ کرے۔ ایسی صورت میں وہ ہمیں مزاحمت کے لئے اپنا اتحادی بنا کربھی اسلحہ اور ڈالر دے سکتا تھا۔ اس طرح ہم افغانستان کی جنگ میں ملوث ہونے سے محفوظ رہتے۔ نہ ہم نام نہاد مجاہدین کو تیار کر کے‘ افغانستان میں داخل ہوتے اور نہ دوسروں کی جنگ کا ایندھن بنتے۔ ہماری طالع آزما فوجی حکومت نے احمقانہ فیصلہ کر کے‘ اپنے ملک کو میدان جنگ کا حصہ بنا دیا‘ جو ہرگز ہماری ضرورت نہیں تھی۔ جس اسلحہ اور ڈالروں کے لئے ہم نے اپنے ملک کو میدان جنگ بنایا‘ وہ ایسا کئے بغیر بھی مل جانا تھے۔ یہ مثال اس لئے دی ہے کہ ایک بار پھر ہم فیصلہ کن صورتحال میں پھنس گئے ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف جاری‘ جس جنگ میں ہم اس وقت الجھے ہوئے ہیں‘ اسے اپنی سرحدوں کے اندر رہ کر نہیں لڑا جا سکتا۔ افغانستان اور پاکستان کی سرحدیں‘ دہشت گردوں کے لئے بے معنی ہو چکی ہیں۔ انہوں نے سرحدوں کے دونوں طرف ایک مضبوط نیٹ ورک قائم کر رکھا ہے۔ ہم جب بھی پاکستان کے اندر‘ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے‘ وہ افغانستان میں منتقل ہو جائیں گے اور پھر وہاں سے ہماری فورسز اور ٹھکانوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ہمارے پاس جنگ سے بچنے کاراستہ باقی نہیں رہ گیا۔ سوائے اس کے کہ ہاتھ پیر ڈھیلے چھوڑ کر‘ طالبان کو کھل کھیلنے کی چھٹی دے دیں اور وہ جیسے چاہیں‘ ہمارے عوام اور ہماری فورسز کو نقصان پہنچاتے رہیں۔ ایسا ہو نہیں سکتا۔ جب ہم پر حملے کئے جائیں گے‘ تو ان کا جواب بھی دینا پڑے گا۔ موثر اور نتیجہ خیز جواب کی خاطر ہم مجبور ہوں گے کہ دہشت گردوں کا پیچھا کرتے ہوئے‘ افغانستان میں واقع ان کے ٹھکانوں تک تعاقب کریں۔ ایسی صورت میں ہمیں امریکہ اور افغان اتھارٹی دونوں سے جنگ لڑنا پڑے گی۔ اتنی بڑی جنگ ہم نہیں لڑ سکیں گے۔ یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ ہم پاکستانی طالبان کے خلاف جنگ کو اپنے ملک تک محدود رکھ سکتے ہیں‘ تو ہم صرف اپنے وسائل کے بل بوتے پر یہ جنگ بھی نہیں لڑ پائیں گے۔ ''40فیصد ‘‘ والی تھیوری کے دونوں رخ ہمارے سامنے ہیں۔ عمران خان والے 40فیصد کو دیکھیں یا جنرل کیانی کے تردیدی بیان میں بتائے گئے 40فیصد پر غور کریں۔ جواب دونوں طرح سے ایک ہی نکلتا ہے کہ فوجی آپریشن کی صورت میں طالبان کو 100فیصد یقینی شکست نہیں ہو گی۔ ایسی صورت میں انتخاب کرنے کے لئے رہ کیا جاتا ہے؟ یہی ممکن ہو گا کہ ایک لامحدود جنگ کے لئے تیار رہیں۔ ایسی جنگ‘ جس میں دشمن کوبھی مکمل شکست نہ دے سکیںاور خود فتح یاب ہونا مشکل ہو۔ ایسا ہوتا نہیں۔ آخرکار کسی نہ کسی کو زیرہونا پڑتا ہے۔ گوریلا جنگ لڑنے والوں کے اپنے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ وہ صرف تباہی پھیلاکر بھاگ نکلتے ہیں اور جب انہیں کسی دوسرے ملک کے اندر پناہ بھی دستیاب ہو‘ تووہ جب تک چاہیں لڑائی جاری رکھ سکتے ہیں۔ کیا کوئی ریاست‘ ایسی جنگ کو طول دینے کے قابل ہوتی ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔جنگ میں کامیابی کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جنگ کو مختصر اور فیصلہ کن بنانے کے لئے طاقت اور وسائل مہیا کئے جائیں۔ دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہمارے ملک کے اندر‘ ایسے پوشیدہ خزانے موجود نہیں‘ جو کھدائی کر کے نکالے جا سکیں۔ ایسی صورتحال میں کسی نہ کسی مددگار کی ضرورت پڑتی ہے۔ مددگار وہ بنتا ہے‘ جس کا اپنا بھی کوئی مفاد ہو۔ افپاک کی دہشت گردی پر قابو پاناامریکہ کی بھی ضرورت ہے۔ ہم دونوں کی ضرورتیں ہمیں اتحادی بنا سکتی ہیں۔ اگر ہماری قیادت ذرا بھی ہوشمندی سے کام لے‘ توسودے بازی کے لئے ایسا شاندار موقع نہ پہلے کبھی آیا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں آ سکتا ہے۔ امریکیوں کی ضرورت فوری اور تھوڑے عرصے کے لئے ہے۔ ہماری ضرورت فوری بھی ہے اور بڑے عرصے کے لئے بھی۔ چونکہ دہشت گردی سے دنیا کی ہر قوم بچنا چاہتی ہے‘ اس لئے ہمیں امریکہ سمیت باقی دنیا سے بھی مدد حاصل ہو سکتی ہے اور ہم جنگ میں یقینی کامیابی کا انتظام کر سکتے ہیں۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک ‘ دنیا کے بیشتر حصوں میں موجود ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی تمام متاثرہ قوموں کو اپنے مفاد کی خاطر ہمارا ساتھ دینا پڑے گا۔ اگر ہم عالمی تعاون حاصل کرنے کی بجائے یہ جنگ تنہا لڑنا چاہیں گے‘ توچاہنے میں یقینا کوئی ہرج نہیں‘ صرف تباہ و برباد اور مغلوب ہونے کا خطرہ ہے۔
ہمارے سامنے ایک دوسرا راستہ بھی ہے۔ افپاک کی طرح ایک دوسرا بین الملکی میدان جنگ شرق اوسط میں تیار ہو رہا ہے۔ اس کا نام ''سل‘‘ (SIL) رکھا گیا ہے۔ یہ لفظ مخفف ہے سیریا‘ عراق اور لبنان کا۔ جنگ کا پہلا مرحلہ شروع ہے۔ لیکن ابھی سرحدیں اس طرح پامال نہیں ہوئیں‘ جیسے
افپاک میں ہو چکی ہیں۔ لیکن ان تینوں ملکوں میںباغیوں کی خفیہ آمدورفت جاری ہے۔ شام میں گزشتہ 3سال سے جنگ کے شعلے بھڑکے ہوئے ہیں۔ عراق میں بھی امن نہیں۔ وہاں انتہاپسند مذہبی جنگجو‘ ریاستی فوجوں سے برسرپیکار ہیں اور لبنان خانہ جنگی کی حالت میں ہے۔ وہاں جنگجوئوں کے دو بڑے گروہ لڑنے میں مصروف ہیں۔ ایک حزب اللہ اور اس کے اتحادی ہیں اور دوسرے عیسائی ملیشیا اور اس کے اتحادی۔ حزب اللہ کو ایران اور عراق کے شیعہ جنگجوئوں کی مدد حاصل ہے اور عراق میں لڑنے والے سنی جنگجوئوں کو پڑوسی عرب ملکوں سے مدد مل رہی ہے۔ شام کی جنگ میں سعودی عرب بالواسطہ حصہ لے رہا ہے اور بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ لیکن امریکہ سمیت دنیا کی کوئی طاقت‘ اس معاملے میں سعودی حکومت کا ساتھ نہیں دے رہی۔ جس کی بنا پر وہ امریکہ سے ناراض بھی ہے۔ سعودیوں کا خیال ہے کہ اگر وہ باغیوں کو مزید تربیت یافتہ افرادی قوت اور جنگی سازوسامان مہیا کر سکیں‘ تو اسد حکومت کو گرایا جا سکتا ہے۔ پہلے امریکہ بھی یہی چاہتا تھا۔ لیکن جب روس کے صدر پوٹن براہ راست جنگ میں ملوث ہونے پر تیار ہو گئے‘ تو امریکہ نے اسد حکومت کو ختم کرنے کا منصوبہ ملتوی کر دیا۔ روس اور امریکہ دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کے ذخیرے ختم کر کے‘ شام کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ امریکہ نے باغیوں کی مدد بند کر دی۔ جس کے نتیجے میں صدر اسد ‘ ریاستی طاقت کے ساتھ بہتر پوزیشن میں آ گئے۔سعودی عرب باغیوں کو مضبوط کر کے‘ اسد حکومت گرانا چاہتا ہے۔ابھی تک پاکستان ‘ مسلم ملکوں کے باہمی تنازعات میں فریق بننے سے گریزاں رہا ہے۔ البتہ اسرائیل کے خلاف جنگ میں ہم عربوں کا ساتھ دیتے رہے۔ شام میں ہماری فضائیہ نے اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ بھی لیا۔ جس کی وجہ سے شام کے عوام اور حکومت آج بھی‘ پاکستان کی قدر کرتے ہیں۔ مگر شام کی حالیہ خانہ جنگی میں پاکستانی دہشت گرد‘شام کی حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے دوران جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا‘ اس میں دونوں ملکوں یعنی پاکستان اور سعودی عرب نے اتفاق کیا کہ شام میں ایک ایسی عبوری حکومت کے قیام کی ضرورت ہے‘ جس کے پاس مکمل ''ایگزیکٹو پاورز‘‘ بھی ہوں۔ میرے علم کے مطابق دنیا میں اور کسی ملک نے یہ پوزیشن اختیار نہیں کی۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف اس امکان پر غور کر لیجئے کہ اگر مشترکہ اعلامیے کے اندر اختیار کئے گئے موقف کے تحت ہم شام کی جنگ میں کود پڑے‘ تو کیا ہو گا؟ ''افپاک‘‘ سے نکل نہیں پا رہے۔ ''سل‘‘ میں کود پڑے تو دمادم مست قلندر؟ عقل و فہم کی روشنی میں جائزہ لیں‘ تو اس جنگ سے دامن بچانے میں ہی عافیت ہے۔ لیکن حکمرانوں کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ ضیاالحق نے امریکی جنگ کو‘ جہاد بنا کر ہمیںشعلوں میں دھکیل دیا تھا۔ یہاں تو ہمارے مقدس مقامات کے نام پر آسانی سے جذبات بھڑکائے جا سکتے ہیں۔ فکرمندی کی وجہ‘ اسد حکومت کے خلاف ہمارا نیا موقف ہے۔ بہرحال ایک جنگ پرانی ہے ‘ جس سے نکلنے کے لئے ہمیں عالمی برادری سے مدد مل سکتی ہے اور ایک جنگ نئی ہے‘ جس میں سعودی عرب کے سوا شاید ہی کوئی ہمارا ساتھ دے۔