گزشتہ روز وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں نے نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی کے جامع منصوبے کا 100 صفحات پر مشتمل ابتدائی خاکہ‘ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وزیرداخلہ اور ان کی ٹیم نے کافی محنت اورجانفشانی سے کام لیا اور دہشت گردی سے نمٹنے کے ہر اس امکان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی‘ جو پاکستان میں جاری دہشت گردی کی ہمہ پہلو جنگ میں پیش آ سکتا ہے۔ اس میں پہلا نکتہ دہشت گردوں کو ان کے ہمدردوں‘ مالی وسائل‘ رابطہ کاری اور آبادیوں کے اندر محفوظ نقل و حرکت کی آزادی سے الگ کرنا ہے۔ اگر مذاکرات کی ابتدا سے پہلے‘ یہ مسودہ کابینہ کے سامنے پیش کر دیا جاتا‘ تو شاید مذاکرات کے ڈرامے کی نوبت ہی نہ آتی۔ کیونکہ جامع پالیسی میں جس بنیادی نکتے پر زور دیا گیا ہے‘ وہ ہے عوام اور دہشت گردوں کے درمیان آزادانہ کمیونیکیشن۔ انہیں پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں اور لیڈروں کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ اپنے اساتذہ کی وجہ سے‘ مدارس کے طلبہ بھی ذہنی طور پر طالبان سے متاثر ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اسلام کے نام کا استعمال ہے۔ اس سلسلے میں قومی آزادی اور سلامتی کی جنگ کا شعور بیدار کئے بغیر‘ ہم مذہبی جذبات پر مبنی‘ اس تعلق کی حقیقت بے نقاب نہیں کر سکتے۔ اس مقصد کے لئے غیرسیاسی علمائے کرام اور سکالرز سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ طالبان کے عملی اقدامات اور دین اسلام کی حقیقی تعلیمات میں‘ موجود تضادات کو اس طرح واضح کریںکہ وہ امت کے اجتماعی مفادات اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھ سکیں۔ جب تک غلط تصورات پر مبنی یہ نیم مذہبی اور نیم جذباتی رشتے ختم نہیں ہو جاتے‘ طالبان کو ان کے سب سے بڑے بیس کیمپ سے الگ کرنا دشوار ہو گا۔ یہ بیس کیمپ ان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
منصوبے میں ایک اور انتہائی اہم نکتہ عالمی دہشت گردی اور افغانستان کے اندر جاری مسلح تصادم کے‘ پاکستان کی داخلی سلامتی پر ہونے والے اثرات ہیں۔پاکستانی طالبان کوان کے بیرونی ساتھیوں‘ سرپرستوں اور ہمدردوں سے الگ کرنے کے لئے یہ فرق واضح کرنا ہو گا کہ عالمگیریت کا یہ مطلب نہیں ہوتا ‘ جو القاعدہ کے زیراثر طالبان سمجھ رہے ہیں۔ اپنے اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ اور عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے ‘ اپنے اپنے گھر کی طرح ‘ اپنے اپنے ملک میں رہنا بھی ضروری ہے۔ عالمگیریت یا امت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم گھروں اور اپنے ملکوں کی دیواریں توڑ دیں۔ ہم ان کے اندر رہتے ہوئے بھی‘ امت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اسلام ہرگز یہ حکم نہیں دیتا کہ امت میں شامل رہنے کے لئے‘ آپ گھر کی دیواروں اور ملک کی سرحدوں کے اندر رہنا چھوڑ دیں۔ یہ تصور اجاگر کرنے کے لئے بھی جدید تحقیق کی ضرورت ہے۔ جب تک ذہنوں میںرچے بسے تصورات کو عقل اور دلیل کی منطق سے حقائق کی بنیادیں فراہم نہیں کی جاتیں‘ پاکستانی طالبان کو دہشت گردی کی عالمی تحریکوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔پاکستانی اذہان کو یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے گروپ‘ ہمارے ہمدرد نہیں ہو سکتے اور نہ وہ ہیں۔ پاکستانیوں نے ملاعمر کا ساتھ دینے کے لئے اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا تھا۔ لیکن جب انہیں پاکستان سے ہر طرح کی مدد لے کرافغانستان پر حکومت کرنے کا موقع ملا‘ تو انہوں نے ہمارے باربار کے مطالبے کے باوجود‘ پاک افغان سرحدوں کے تعین کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ ایسا وہ اسلامی امت کے نظریئے کے تحت نہیں کر رہے تھے۔ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کے تاریخی اور قومی تصور پر قائم تھے۔ جس کے تحت افغانستان کا ہر حکمران‘ اپنے ملک کی سرحدوں کو پاکستان کے اندر تک دیکھتا رہا ہے۔ اگر ملاعمر ‘ امت کے تصور پر یقین رکھتے‘ تو جغرافیائی سرحدوں کے سوال پر ایک دیرینہ تنازعے کو تحفظ نہ دیتے۔ وزارت داخلہ کے سکیورٹی پلان میں انتہاپسندی‘ فرقہ واریت‘ دہشت گردی اور جنگجوئی پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ ان چاروں عنوانات کے تحت ‘ دہشت گردی کی جن جزئیات کا جائزہ لیا گیا ہے‘ ان میں فرقہ واریت کا عنصر ایسا ہے‘ جسے کوئی بھی تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ عملی زندگی میں ہر کوئی اپنے اپنے فرقے سے وابستہ رہتا ہے۔ تحریک پاکستان میںفرقہ پرستی ‘ قومی آزادی کی تحریک کے بہائو میں‘ تنکوں کی طرح مرکزی دھارے سے نکل گئی تھی۔ قائد اعظمؒ اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں کو ایک قوم قرار دے کر ان کے لئے وطن کا مطالبہ کیا تھا۔ اسلام کے معاملے میں قائداعظمؒ کا جو بھی تبصرہ آیا‘ وہ اپنی قوم اور اپنے وطن کی بنیاد پر تھا اور چونکہ انہوں نے مسلمان قوم کی شناخت اسلام کو بنایا تھا‘ اسی وجہ سے وہ ملکی قوانین کو اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر مرتب کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان کی مخالفت کرنے والے تمام علمائے کرام‘ تصورِ وطن کے مخالف تھے۔ اسی بنیاد پر وہ پاکستان کے بھی مخالف تھے۔ پاکستان بن جانے کے بعد‘ وہ خود ہی اسی وطن کی پناہ میں آ گئے‘ جس کی مخالفت کیا کرتے تھے اور پھر اس کے ٹھیکیدار بن کر‘ اپنے دقیانوسی تصورات مسلط کرنے پر تل گئے۔ اسی روایت کو طالبان نے آگے بڑھاتے ہوئے‘ دہشت گردی کو بھی اسلام کا نام دے دیا ہے۔ جتنے بھی دہشت گرد اپنے اپنے ملکوں میں سرگرم ہیں‘ وہ عملاً اپنی اپنی قوم کی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ یہاں پھر ملاعمر کی مثال دینا پڑے گی۔ انہوں نے اپنی جنگ کو افغانستان کی جنگ آزادی تک محدود رکھا اور جہاں تک میرے علم کا تعلق ہے‘ انہوں نے اسلام کے نام پر غیرملکی دہشت گردوں کی مداخلت قبول نہیں کی۔ پاکستانی دہشت گردوں کے تعاون کی وجہ نسلی اور لسانی رشتہ ہے۔ پاکستانی طالبان‘ ازبکوں‘ عربوں‘ چیچنیا والوں اور دنیا کے
دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے‘ دہشت گردوں کو اپنا ساتھی سمجھتے ہیں‘ مگر انہی ملکوں کے کتنے دہشت گرد‘ افغانستان میں برسرجنگ ہیں؟ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس کی تحقیق کر کے حقیقت سامنے لانا چاہیے اور اگر ملاعمر کی صفوں میں پاکستانیوں کے سوا کسی دوسری قوم کے لوگ شامل نہیں ہیں‘ تو پھر پاکستانی طالبان سے پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے غیر ملکیوں کو اپنے ملک کی جدوجہد میں کیوں شریک کر رکھا ہے؟
سکیورٹی کی دستاویز میں شہری آزادیوں کا سوال بھی شامل ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ 9/11 سے پہلے امریکہ‘ شہری آزادیوں کے حوالے سے ایک مثالی ملک تھا۔ لیکن آج امریکہ کا کوئی بھی شہری ہر طرح کی نجی آزادیوں سے محروم ہے۔ اس کی بات چیت بگ ہوتی ہے۔ اس کا گھر مانیٹر ہوتا ہے۔ اس کی نقل و حمل دیکھی جاتی ہے۔ وہ بیرونی سفر سے واپس آئے تو تحقیق کی جاتی ہے۔ غرض یہ کہ امریکیوں نے یہ چیز ثابت کر دکھائی کہ عوام کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے‘ کیسی کیسی قربانیاں دینا پڑتی ہیں؟ پاکستانی قوم جس نے اپنی آزادی کا بیشتر حصہ آمریتوں میں گزارا اور جس نے امریکیوں کی طرح کبھی شہری آزادیوں کی مکمل سہولتیں حاصل نہیں کیں‘ اس کے لئے وطن کی سلامتی اور عوام کے تحفظ کی خاطر‘ شہری آزادیوں کی قربانی دینا معمولی بات ہو گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ قربانیاں مانگنے والے یعنی ارباب اقتدار ‘ اپنا اعتبار قائم کریں۔ پہلے خود قربانیاں دیں‘ کرپشن کے داغ دھوئیں اور اخلاقی اور کرداری خصوصیات کا مظاہرہ کریں اور اس کے بعد عوام سے قربانیاں مانگ کر دیکھیں‘ تو انہیں اندازہ ہو گا کہ پاکستانی قوم اپنے وطن کے لئے کیسی کیسی قربانیاں پیش کر سکتی ہے؟ ہماری مختصر سی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ پاکستانی قوم نے آزمائش کے ہر موڑ پر بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کیں۔ یہ ہمارے حکمران تھے جنہوں نے خود کوئی قربانی نہیں دی اور غلط جنگیں چھیڑ کرعوام سے ‘لاحاصل قربانیاں مانگیں۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے اقتدار اور مفادات کی خاطر جعلی خطرے کھڑے کر کے‘ عوام کی آزادیاں سلب کیں اور غیروں کے مفادات کو آگے بڑھاتے رہے۔ انصاف اور قانون کا نظام خود ہی پامال کیا۔ خفیہ ایجنسیوں سے اپنے ہی عوام کی جاسوسی کرائی۔ اپنے ہی محکموں کی نگرانیاں کرائیں اور 26خفیہ ایجنسیوں میں سے صرف آئی ایس آئی‘ ملک دشمنوں کی تلاش میں لگی رہی۔ باقی کم و بیش تمام ایجنسیاں ‘ اپنے ہی عوام کی مخبری میں مصروف رہیں۔ بہت اچھا ہوا کہ اب ان تمام ایجنسیوں کو ایک ہی ڈائریکٹوریٹ کے تحت کر کے‘ کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔انٹیلی جنس کمیونٹی میں جذبہ حب الوطنی بیدار کر کے‘ فرض شناسی کے ایسے معیار تک پہنچانا چاہیے‘ جب وہ ملک کے طاقتور سے طاقتور عہدیدار کے حکم پر بھی غلط کام کرنے سے انکار کر دے۔آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ میں نے زیادہ زور کردار کی تشکیل نو پر دیا ہے۔ ہمارا کردار کنوئیں میں گرے ہوئے مردہ کتے کی لاش جیسا ہے‘ جس میں سے بدبو اٹھ رہی ہو۔ جب تک ہم کنوئیں میں سے کتے کی لاش نہیں نکالیں گے‘ ہمیں کسی بھی کام میں کامیابی نہیں ملے گی۔ہمارا ریکارڈ اس کی گواہی دے رہا ہے۔