"NNC" (space) message & send to 7575

آملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک

تھر کی موجودہ قحط سالی یا مرگ انبوہ کے مناظر اور واقعات کے چرچے‘ اس اندازمیں ہوئے جیسے پہلے کبھی ایسا ہوا ہی نہیں۔ بے شک یہ بہت بڑا انسانی المیہ ہے۔ انسان کا اپنا پیدا کیا ہوا المیہ ہے۔ مگر ہم نے کب ایسا نہیں کیا؟ کونسی جگہ ہے؟ جو حکمرانوں کے پیدا کئے ہوئے المیوں سے محفوظ ہے؟ کیا بلوچستان میں بچے اسی طرح بیماری اور بھوک سے نہیں مرتے؟ کیا پنجاب کے بھٹہ مزدوروں کی حالت‘ تھر کے مفلوک الحال لوگوں سے بہتر ہے؟ تھر کی خواتین‘ اپنوں میں رہتے ہوئے عزت اور محنت کی زندگی گزارتی ہیں، لیکن پنجاب میں بھٹہ مزدوروں کی عورتیں‘ صرف محنت کی زندگی گزارتی ہیں۔ عزت کی زندگی انہیں نصیب نہیں ہوتی۔ فاٹا میں عورت آج بھی غلامی میںرہنے پر مجبور ہے۔ آج کے زمانے میں ہی وہاں کے بچے پولیو کے قطرے تک نہیں پی سکتے۔ دنیا ہمارے بائیکاٹ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بھارت نے پہلے ہی پابندیاں لگا دی ہیں کہ جب تک پولیو سے تحفظ کا سرٹیفکیٹ پیش نہیں کیا جائے گا‘ بھارت میں کسی پاکستانی کو داخلے کی اجازت نہیں ملے گی۔ اقوام متحدہ سنجیدگی سے پاکستان پر ان پابندیوں کا اعلان کرنے والی ہے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کو خود انتباہ کرنا پڑا کہ پولیو کی وجہ سے دنیا میں پاکستانیوں پر سفری پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ چولستان اور اس سے ملحقہ صحرائوں میں رہنے والوں کی حالت بھی‘ تھر کے باشندوں سے مختلف نہیں۔ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں آبادلوگ‘ وہی زندگی گزار رہے ہیں‘ جو آزادی سے پہلے گزارا کرتے تھے۔ بلکہ انگریزوں کی آمد سے بھی پہلے‘ اسی طرح رہتے آ رہے ہیں اور بعض کے بارے میں توکہا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کی زندگیاں پہلے سے بھی بدتر ہو گئی ہیں۔ 
تھر میں ہر دوسرے تیسرے سال یہی کچھ ہوتا ہے۔ اسی طرح خشک سالی آتی ہے۔ بچے بیمار پڑتے ہیں۔ غذائوں اور دوائوں سے محروم رہتے ہیں اور 2سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے مر جاتے ہیں۔ تھر کے جاگیردار‘ سیاستدان اور وہاں کام کرنے والے افسر اور اہلکار سب خشک سالی دیکھتے ہیں۔عوام کی یہ مصیبتیں‘ بچوں کی یہ اموات‘ جانوروں کا پانی اور بھوک سے محروم رہ کر دم توڑنا‘ یہ وہاں کے افسروں اور وڈیروں کے لئے معمول کے مشاہدے ہوتے ہیں۔ جس طرح قبرستانوں میں رہنے والے ملنگ‘ قبروں کے اوپر بیٹھ کر نشہ کرتے ہیں اور جوئے باز قبروں کے چبوتروں پر بیٹھ کر جوئے کی محفلیں سجاتے ہیں‘ اسی طرح بلکتے‘ سسکتے اور دم توڑتے ہوئے تھر باسیوں کے المناک حالات دیکھ کر‘ تھر کے افسروں اور وڈیروں پر بھی کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہمارے شہری بابوئو ں‘ تاجروں‘ دکانداروں‘ حتیٰ کہ مزدوروں کو بھی تھر کے حالات کا کبھی علم نہیں ہوا۔ جو آج کل تھر باسیوں پر گزر رہی ہے‘ وہ ہر دوسرے تیسرے سال گزرتی ہے۔ مگر اس سال تھر والوں کی حالت نگاہوں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ریٹنگ کی جنگ لڑتا ہوا الیکٹرانک میڈیا ‘ڈھونڈتا سونگھتا تھر میں جا پہنچا۔ انہوں نے جب حیوانی اور انسانی ڈھانچے دیکھے‘ تڑپتے ہوئے بچے اور بلکتی ہوئی مائیں دیکھیں‘ تو انہوں نے یہ دردناک مناظر اپنے ناظرین کو دکھانا شروع کر دیئے۔ عام شہریوں کے لئے یہ نیا تجربہ تھا۔ وہ پہلے ایتھوپیا‘ سوڈان اور صومالیہ کی ویڈیوز میں ایسے مناظر دیکھا کرتے تھے۔ جب انہیںمعلوم ہوا کہ ہمارے ہاں بھی اسی طرح کے علاقے موجود ہیں تواسلام آباد کی حکومت بھی چونک اٹھی۔ افسر شاہی بھی پریشان ہوئی اور رائے عامہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ جن کو خدا نے توفیق دے رکھی تھی‘ وہ امدادی سامان لے کر دوڑے اور جو حکومت کو برابھلا کہہ سکتے تھے‘ وہ اسے جی بھر کے کوسنے لگے۔ وزیراعظم تو واضح طور سے غمزدہ نظر آئے۔ انہوں نے فوری طور سے ایک ارب روپے کی امدادی رقم دینے کا اعلان کیااور سارے طے شدہ پروگرام چھوڑ کر دورے پر جا پہنچے۔ سندھ کی مقتدرہ‘ ہڑبڑاہٹ میںطرح طرح کی وضاحتیں‘عذر‘ حجتیں اور کہانیاں گھڑ کے‘ وزیراعظم کے سامنے جوابدہی کے لئے تیار ہو گئی۔ وزیراعظم اس کھیل میں نئے نہیں۔ وہ مسلسل 15سال تک وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کی حیثیت میں‘ بیوروکریسی اور چالاک عوامی نمائندوں کے لچھنوں اور کرتبوں کو دیکھتے آ رہے ہیں۔ نہ کوئی افسر انگریزی بول کر انہیں چکمہ دے سکتا ہے اور نہ عوامی نمائندے لچھے دار باتوں سے انہیں ورغلا سکتے ہیں۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ انہیں تھر باسیوں کی حالت زار دیکھ کر گہرا صدمہ ہوا۔ لیکن سندھ کی انتظامیہ اسے معمول کی جواب طلبی سمجھ کر‘ اپنے روایتی مشینی انداز میں حیلے بہانے پیش کرتی رہی، جس پر وزیراعظم کا غصہ دیدنی تھا۔ منجھے ہوئے اور گھاگ صوبائی سیاستدان اور افسران‘ وزیراعظم کے ذاتی مشاہدے کے اثرات دیکھ کر خائف ہوئے اور میڈیا پر تھر باسیوں کی تباہی اور تڑپ کے مناظر نے عوام میں دکھ کی لہر دوڑا دی۔ سندھ کی بیوروکریسی اور حکمران وڈیروں کے خلاف نفرت کے جذبات میں شدت آنے لگی، جس پر گھبرا کر قائم علی شاہ اور ان کے ساتھیوں کو روایتی انداز میں چند افسروں کے تبادلے یا انہیں معطل کرنے کے نمونے پیش کر کے‘ عوام اور وزیراعظم کو مطمئن کرنے کے لئے گھسے پٹے ڈرامے پیش کرنا پڑے۔ انہیں سب پتہ ہے کہ ان ڈراموں سے کوئی مطمئن نہیں ہو گا اور جن کے لئے کھیل رچایا گیا یعنی وزیراعظم اور عوام‘ وہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔
حقائق کو اسی طرح دیکھنا چاہیے‘ جیسے کہ وہ ہوتے ہیں۔ حقائق یہ ہیں کہ دوسری غریب آبادیوں کی طرح ہم نے تھر باسیوں کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینکا ہوا ہے۔ وہ دکھ درد اور رنج و غم کی ساری حالتیں ہم سے اوجھل رہ کر بھگتتے ہیں۔اب ہم ان کے دکھوں کو محسوس کیا کریں گے۔ سندھ میں یہ کٹائی کا موسم ہے۔ تھر کا ہر نارمل مرد‘ جاگیرداروں کی فصلیں کاٹنے گیا ہوتا ہے۔ ان میں 12 سال کے بچے سے لے کر 50 سال کے بوڑھے تک‘ سب شامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے میڈیا میں جتنے بھی ہجوم دیکھے‘ ان میں صرف عورتیں
اور بچے ہی نظر آ رہے تھے۔امدادی سرگرمیوں کی خبریں سن کر اب مرد واپس آنے لگے ہیں۔ دوائیں اور امدادی سامان دیکھ کر انہیںلگا ہو گا کہ دنیا بدلنے لگی ہے۔ پاکستان کی دنیا واقعی بدلنے لگی ہے۔ اب ردی کی ٹوکری میں پھینکے ہوئے‘ جیتے جاگتے انسانوں کی تڑپ‘ ساری دنیا میں دکھائی جاتی ہے۔ یہ پاکستانی عوام اور بیرونی دنیا کا ردعمل تھا جس پر وفاقی حکومت کو متحرک ہونا پڑا۔ اس نے صوبائی حکومت کو جھنجھوڑا۔ میڈیا نے اہل درد کے دروازوں پر دستک دی۔ ملک ریاض حسین جیسے لوگ کروڑوں کی نقدی اور امدادی سامان لے کر وہاں جا پہنچے۔ جو این جی اوز ‘ غریبوں کے نام پر مال ہضم کر رہی تھیں‘ وہ بھی اپنی حاضری لگوانے بھاگ کھڑی ہوئیں۔ افسر‘ جو ماضی کی طرح خواب خرگوش میں پڑے تھے، انہیں بھی ہڑبڑا کے جاگنا پڑا۔ اگلی بار انہیں محتاط رہنا ہو گا کیونکہ اب میڈیا نے راستہ دیکھ لیا ہے۔ دنیا صرف تھر والوں کے لئے ہی نہیں بدلی، عوام کے لئے بھی بدل گئی ہے۔ گزشتہ چیف جسٹس نے تو ذاتی وجوہ کی بنا پر ایڈونچر ازم کی تھی، لیکن موجودہ عدلیہ‘ جج شپ کے وقار کو بحال کرنے میں مصروف ہے۔ قومی دولت کی چیرپھاڑ کر کے ‘ ذاتی خزانے بھرنے والے بھیڑیئے اپنے تیزدانت اور پنجے ابھی تک چلا رہے ہیں۔ لیکن وہ دن دور نہیں‘ جب پھندے ان کے لئے بھی تیار ہو جائیں گے۔ہم اتنے خوش قسمت نہیں کہ کوئی تاریخ ساز لیڈر‘ عوام کو منظم کر کے برائیوں کے خلاف اعلان جہاد کر کے‘ غلامی کے بندھنوں کو توڑتا ہوا عوام کی حکمرانی کا حق انہیں واپس دلا دے۔ ہمیں اسی طرح غیرمنظم انداز میں‘ بے قیادت ‘تبدیلی کے جذبے کو جدوجہد میں بدلنا ہو گا۔ تھرپار کر کے حالات پر پیدا ہونے والے جذبے کی لہر جگہ جگہ سے اٹھ رہی ہے۔ مزدوروں میں‘ طلبا میں‘ سیاسی کارکنوں میں‘ کسانوں میں‘ ملازمت پیشہ محنت کشوں میں‘ ہر طرف بیداری کی لہریں اٹھ رہی ہیں۔ مزدوروں کی تنظیمیں میدان میں نکلنے والی ہیں۔ ووٹ کے ذریعے تبدیلی کی جتنی زبردست کوشش عوام نے گزشتہ انتخابات میںکی‘ ماضی میں اس کی صرف ایک مثال ملتی ہے‘ جو 1970ء کے انتخابات میں دیکھی گئی۔ مگر عوام کے انقلابی جذبے کی اس پہلی کوشش کو حکمران طبقوں نے ناکام بنا دیا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے محنت کشوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے‘ ان کی کمر بھی توڑ دی۔ اب مشرقی پاکستان کے بھائی بھی جاگ رہے ہیں اور ہم بھی۔ ابھی ہم جدوجہد کی ابتدائی لہروں کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہی لہریں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہوئے راستہ دکھائیں گی اور جب ہم نے جدوجہد کے راستے پر پائوں رکھ دیا تو سفر کا آغاز ہو جائے گا۔ بدنصیبی سے ہمارے معاشرے میں انقلاب دشمن قوتیں ‘ مذہب‘ اقتدار‘ اختیارات ‘ اداروں پر قبضے ‘ پیداوار پر کنٹرول کے ساتھ طاقت کے تمام ذرائع پر قابض ہیں۔ ہمیں ایک ایک کر کے جبر کی زنجیریں توڑنا ہوں گی۔ یہ بڑا اذیت ناک اور صبر آزما سفر ہے،مگر یہ سفر شروع ہو کر رہے گا۔ تھر باسیوں کے بچوں اور بھوکوں کی قربانیوں نے ہمیں جھنجھوڑ دیا ہے۔ جھنجھوڑنے کا یہ سلسلہ رکنے والا نہیں۔ بے خبری کے اندھیروں نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کر رکھا تھا۔ میڈیا کی مہربانی سے اب ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ہے۔ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں