"NNC" (space) message & send to 7575

دواکیلے

مذہبی سیاستدانوں کے میڈیامین مولانا سمیع الحق اور عام سیاستدانوں کے میڈیا مین شیخ رشیداحمدکی پیداواری صلاحیتیںان دنوں زوروں پر ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی ہنرمندی کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ کس طرح انہوں نے ایک ہی پینترے میں پہلے وزیراعظم نوازشریف کی مذاکراتی کمیٹی کی سربراہی بٹور لی۔ رفتار اتنی تیز رکھ دی کہ وزیراعظم کو سیٹی بجا کر روکنا پڑا۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ وزیراعظم نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا ارادہ ظاہر کر کے‘ مولانا سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں حالات کا جائزہ لیں۔ مولانا نے آئو دیکھا نہ تائو‘ اپنے آپ کو خودبخود وزیراعظم کا ترجمان مقرر کر کے‘ اعلان فرما دیا کہ حکومت کی طرف سے مذاکراتی عمل کی قیادت وہ کریں گے۔ وزیراعظم کو فوراً ہی وضاحت کرنا پڑی اور باضابطہ سرکاری بیان جاری ہو گیا کہ وزیراعظم کی طرف سے مولانا کوکوئی ذمہ داری نہیں دی گئی۔ مولانا نے اس کا ذرا بھی برا نہیں منایا۔دیکھتے ہی دیکھتے انہیں طالبان کی کمیٹی میںجگہ مل گئی۔ قبل اس کے کہ کمیٹی کے دوسرے ارکان میڈیا سے رابطہ کرتے‘ مولانا سمیع الحق نے اپنے آپ کو طالبانی کمیٹی کا سربراہ ڈکلیئر کر دیا۔ بزرگ آدمی ہیں اور سینئر طالبان کے استاد بھی۔ کس کی مجال تھی جو ان کی حیثیت سے انکار کرتا؟ وہ ملک کے واحد سیاستدان ہیں‘ جنہیں دونوں فریقوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ طالبان میں جاتے ہیں‘ تو وہ مولانا کو وزیراعظم کا نمائندہ سمجھ کر انہیں سر آنکھوں پہ بٹھاتے ہیں اور وزیراعظم کے پاس آتے ہیں‘ تو وہ مولانا کو طالبان سمجھ کے عزت و احترام دیتے ہیں۔ ایک زمانے میں میرے محترم بزرگ نامور شاعر جمیل الدین عالی کو یہی حیثیت حاصل تھی۔ وہ شاعر بھی تھے اور حکومت کے ملازم بھی۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ شاعروں میں جاتے ہیں تو‘ انہیں بطور افسر سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا ہے اور افسروں میں جاتے ہیں تو‘ وہ انہیں شاعر سمجھ کر دیدہ و دل فرش راہ کر دیتے ہیں۔ عالی صاحب سچ مچ دونوں پوزیشنوں کے حق دار تھے اور مولانا کی حیثیت بھی یہی ہے ۔ ایک طرف وہ بابائے طالبان ہیں اور دوسری طرف حکومت کے مدد گار۔ وہ بھی دونوں پوزیشنوں کے لئے موزوں ترین شخصیت ہیں۔ 
مولانا کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ کسی فریق کو مایوس نہیں کرتے۔ طالبان کو امید ہے کہ مولانا ‘حکومت پاکستان کو وہ سب کچھ منوا لیں گے‘ جو وہ چاہتے ہیں اور وزیراعظم کو امید ہے کہ وہ طالبان کو ہر وہ مطالبہ منوا لیں گے‘ جو حکومت چاہتی ہے۔ دو متحارب فریقوں کا بیک وقت اعتماد حاصل کر لینا‘ آسان بات نہیں۔ پتہ اس وقت چلے گا‘ جب تبادلہ شرائط کا مرحلہ آیا۔ وزیراعظم طالبان کی شرائط دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہ مطالبات تو کبھی سننے میں ہی نہیں آئے تھے۔ ادھر طالبان‘ حکومت کی شرائط سن کرپریشان ہو جائیں گے کہ انہوں نے تو ان شرطوں پر بات بھی نہیں کی تھی۔ اس کے بعد مولانا‘ دونوں کو سمجھائیں گے کہ وہ بلاوجہ اختلاف کے پہلو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اصل میں جو کچھ انہوں نے بتایا‘ وہ دونوں فریقوں کے متفقہ فیصلوں پر مشتمل ہے۔ ابھی تک تو دونوں فریق مذاکرات کی طرف بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ مگر جب آمنے سامنے تبادلہ خیال ہو گا‘ تو کیا بنے گا؟ ابھی تک وہ دہشت گردی کے ہر واقعہ پرحکومت کو سمجھاتے ہیںکہ یہ تیسرے فریق کا کارنامہ ہے اور جب سکیورٹی فورسز‘ طالبان کے خلاف کارروائی کرتی ہیں‘ تو انہیں بتایا جاتا ہے کہ اس کارروائی کا وزیراعظم کو علم نہیں۔ یہ کسی خفیہ ہاتھ کی کارستانی ہے۔ابھی تک مولانا کی یہ پالیسی کہ ''لڑتے بھی رہو اور بات چیت بھی کرتے رہو‘‘ٹھیک ٹھاک چل رہی ہے۔ ''تیسرے فریق‘‘ کا نسخہ بھی کامیاب جا رہا ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہو گا‘ جب فیصلوں کا مرحلہ آئے گا۔ دونوں اپنی اپنی شرائط ایک دوسرے کے سامنے رکھیں گے۔دیر تک ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھیں گے اور بیک وقت کہیں گے ''یہ بات تو نہیں ہوئی تھی۔‘‘ درمیان داری کرنے والے کو ہمیشہ یہی مسئلہ پیش آتا ہے۔ وہ دونوں فریقوں کے پیغامات میں نرمی پیدا کر کے‘ ایک دوسرے کو پہنچاتا ہے۔ پیغامات سننے والا فریق سمجھتاہے کہ میری بات مانی جا رہی ہے۔آمنا سامنا ہونے پرجب اصل بات کھلتی ہے‘ تو دونوں فریق اپنے آپ کووہیں پر کھڑے ہوئے دیکھتے ہیں‘ جہاں سے وہ چلے تھے۔ جب تک بالواسطہ مذاکرات جاری رہیں گے‘ تبادلہ پیغامات کا کاروبار بھی چلتا رہے گا اور جب آمنا سامنا ہوا‘ تو پھر آمنا سامنا ہو جائے گا۔ دو نو ں فریق‘ مولانا سمیع الحق کا شکریہ ادا کریں گے کہ ''ہم جتنی مہلت لینا چاہتے تھے‘ وہ مل گئی۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!‘‘ دونوں ایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی کارروائیوں کا اقرار کرنے لگیں گے اور فیصلہ وہیں پر ہو گا‘ جہاں ہوا کرتا ہے۔ ایک فریق کی پسپائی اور دوسرے کی پیش قدمی۔ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہ کر زورآزمائی کرنے والے کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ زورآزمائی کا موسم قریب آ رہا ہے۔ 
شیخ رشید اپنے شعبہ کے مولانا سمیع الحق ہیں۔ مذہبی جماعتوں میں مولانا کی پارٹی اور سیاسی جماعتوں میں شیخ صاحب کی پارٹی‘ ایک ہی جیسی ہیں۔ وہ بھی اکیلے۔ یہ بھی اکیلے۔اس طرح کے لوگ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ نہ دفتر ‘ نہ بندہ۔ نہ پرچی‘ نہ چندہ اور اس کے باوجود وہ اپنی سیاست کامیابی سے چلاتے ہیں۔ ایک طرف مولانا نے حکومت اور طالبان دونوں کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔ دوسری طرف شیخ صاحب ‘ قومی اسمبلی میں زیادہ نشستیں جیت کر آنے والی پارٹیوں کو اپنی طرف متوجہ کئے رکھتے ہیں۔ وزیرخزانہ 
اسحق ڈار سے یہ فرمائش‘ وزیراعظم نے کی تھی کہ وہ ڈالر کو 100 روپے سے نیچے لے کر آئیں۔ ڈار صاحب نے ایسا کر دکھایا۔ مگر یہ انکشاف کر کے انہوں نے سب کو حیران کر دیا کہ ڈالر کی قیمت تو انہوں نے شیخ رشید کے چیلنج پر کم کی ہے اور ساتھ ہی یاد دلا دیا کہ شیخ صاحب نے ڈالر کی قیمت 100 روپے سے کم ہو جانے پر استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔ وزیرخزانہ نے تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا۔ لیکن میڈیا والے کہاں چھوڑتے ہیں؟ شیخ صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی ٹی وی چینل کی دعوت مسترد نہیں کرتے۔ ہر سوال کا جواب ڈٹ کر دیتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے پر بھی انہوں نے ہر دعوت قبول کی اور پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک پریس کانفرنس کا میلہ لگا دیا۔ جس میں انہوں نے اعتماد سے فرمایاکہ'' یہ ٹھیک ہے‘ میں نے ڈالر 100 روپے سے کم ہونے کی صورت میں استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔لیکن حکومت یہ تو بتائے کہ وہ ڈیڑھ ارب ڈالر لائی کہاں سے؟ اور اب ڈالر 100 روپے سے نیچے آ گیا ہے‘ تو اس کا عوام کو کیا فائدہ ہوا؟ میرا استعفیٰ لینا ہے تو پٹرول کی قیمت 10روپے کم کی جائے۔ ‘‘شیخ صاحب کا خیال ہو گا کہ وہ ڈار صاحب کو بھی جنرل ٹکا خان مرحوم کی طرح تھکا تھکا کے ہرا دیں گے۔ 1988ء کے انتخابات میں انہوں نے راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا۔ ریٹائرڈ جنرل ٹکا خان پی پی پی کی طرف سے اسی الیکشن میں امیدوار بن گئے۔ وہ سیدھے سادے فوجی آدمی تھے۔ شیخ صاحب نے جنرل صاحب کو اسی طرح چیلنج دینے شروع کر دیئے‘ جیسے آج کل ڈار صاحب کو دے رہے ہیں۔ ہوتا یوں تھا کہ جنرل ٹکا خان جہاں جلسہ کرتے‘ اگلے روز شیخ صاحب اپنے جلسے میں انہیں چیلنج دیتے کہ ''جنرل ٹوکا خان نے وہاں تو جلسہ کر لیا‘ جہاں ویسے ہی لوگوں کا رش رہتا ہے۔ وہ فلاں جگہ جلسہ کر کے دکھائیں تو پتہ چلے کہ وہ کتنے بڑے لیڈر ہیں؟‘‘ شیخ صاحب جگہ ایسی بتاتے جو بہت کم آبادی کا علاقہ ہوتا۔ جنرل صاحب اگلے روز وہاں جلسہ رکھ لیتے۔ رات گئے تک انتظار کرتے۔ حاضرین کی تعداد پندرہ بیس سے آگے نہ بڑھتی‘ تو تھک تھکا کے گھر لوٹ آتے۔ اس طرح انہوں نے مختلف ویرانوں میں جلسہ کرنے کے چیلنج دے دے کر‘ جنرل صاحب کی انتخابی مہم ضائع کرا دی۔ خود شہر کے اندر انتخابی مہم چلاتے رہے۔ شیخ صاحب جیت گئے۔ جنرل صاحب کو شکست ہوگئی۔ اب ایک عرصے کے بعد انہوں نے اسحق ڈار کو چیلنج دینے کے لئے تاڑ لیا ہے اور جس طرح ڈار صاحب نے بتا دیا کہ انہوں نے شیخ صاحب کا چیلنج قبول کر کے‘ ڈالر کا ریٹ گھٹایا۔اس سے شیخ صاحب کی یقینا حوصلہ افزائی ہو گی۔ اب وہ روز نئے سے نیا چیلنج دیا کریں گے اور جب ڈار صاحب ایک چیلنج کا جواب دیں گے‘ تو اگلے دن ایک اور چیلنج آ جائے گا۔ بہتر ہو گا کہ ڈار صاحب ابھی سے چیلنج قبول کرنے سے پرہیز شروع کر دیں‘ ورنہ شیخ صاحب اکیلے آدمی ہیں۔ ٹاک شوز میں جانے کے سوا کام کاج بھی کوئی نہیں۔ اسمبلی کا سیشن نہ ہو‘ تو ان کے پاس فرصت کی کمی بھی نہیں ہوتی۔ آگے ڈار صاحب سوچ لیں۔ وزارت خزانہ چلانی ہے یا شیخ رشید کے ساتھ چیلنج آزمائی کرنی ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں