اسلام آباد میں عدلیہ پر حملہ کر کے‘ طالبان نے اپنے اصل ارادوں کا اظہار کر دیاہے۔ ایک ہی دن پہلے انہوں نے فائربندی کا اعلان کیا تھا۔ ظاہر ہے یہ حالیہ فوجی کارروائی کا نتیجہ تھا۔ طالبان کی دہشت گردیوں کے خلاف‘ پاک فوج نے مثالی صبروتحمل کا مظاہرہ کیا۔ بے گناہ شہریوں کو بے رحمی سے شہید کیا گیا۔ مساجد میں نمازیوں پر خودکش حملے ہوئے۔ بازاروں اور مارکیٹوں میں بم چلا کر‘ بے گناہ بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں اور جوانوں کے پرخچے اڑائے گئے۔ سکول تباہ کئے گئے۔ ہسپتالوں میں بم چلائے گئے۔ مزاروں اور امام بارگاہوں میں‘ زائرین اور عبادت گزاروں کو شہید کیا گیا۔ فوج کے اعصابی اور دفاعی نظام کو نشانہ بنایا گیا۔ جی ایچ کیو ‘ مہران نیول بیس‘ کامرہ میں فضائیہ کے مرکز‘ پشاور ایئرپورٹ پرحملے‘ براہ راست فوج کو مشتعل کرنے کی خاطر کئے گئے۔ فوج کے جوانوں‘ افسروں اور حد یہ کہ جرنیلوں پر چھپ کر وار کئے گئے۔ فوج کا اتنا زیادہ جانی نقصان چار جنگوں میں مجموعی طور پر نہیں ہوا‘ جتنا طالبان کی دہشت گردی نے پہنچایا۔ جتنے جنرل دہشت گردوں کے بزدلانہ حملوں میں شہید ہوئے‘ ان کی ہمارے ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اتنی بڑی تعداد میں شہادتیں پیش کرنے کے بعد بھی‘ فوج کی طرف سے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ پالیسی سیاسی حکومت اور جنرل کیانی کی اختیار کردہ تھی۔ یقینی طور پر اتنے بڑے جانی نقصان اور حساس مقامات پر دہشت گردی کے بعد‘ فوج کا پیمانہ صبر لبریز ہونا فطری بات تھی‘ لیکن پاکستان کی مخالفت کرنے والے مذہبی عناصراور جمہوریت کے مخالفین‘ دہشت گردوں کی مذمت سے گریزاں رہے۔ یہاں تک بھی ہوا کہ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے دہشت گردوں کے سفاک لیڈر‘ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر اسے شہید قرار دے دیا‘ جبکہ میجرجنرل ثناء اللہ خان نیازی کو شہید ماننے کو تیار نہ ہوئے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستانی میڈیا‘ رائے عامہ اور تمام عوامی رہنمائوں نے اس بیان کی شدید مذمت کی‘ مگر فوج کے صبر کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے پھر بھی اپنے جذبات پر کنٹرول رکھا۔
جنرل راحیل شریف نے‘ چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی‘ دہشت گردوں کی مسلسل جارحیت کا جواب دینے کی پالیسی اختیار کی۔ انہوں نے فوری طور پر ان علاقوں کے دورے شروع کر دیئے‘ جہاں دہشت گرد زیادہ سرگرم تھے۔ متاثرہ علاقوں میں متعین فوجیوں کے درمیان جا کر ان کے حوصلے بڑھائے اور حکومت کی متذبذب پالیسیوں سے فوج میں جو بے یقینی کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی‘ اسے دور کیا۔ پاکستان کی طرف سے مسلسل دہشت گردیوں کے باوجود خاموش رہنے کی روایت توڑ دی گئی۔ ماضی کے تجربات نے طالبان کے حوصلے اتنے بڑھا دیئے کہ انہوں نے 4سال سے اغوا کر کے‘ اپنی قید میں رکھے گئے ایف سی کے 23 جوانوں کواتنی بے رحمی سے شہید کیا کہ چنگیز اور ہلاکو خان جیسے جلادبھی شرما گئے ہوں گے۔ ایسے ہولناک واقعات پہلے بھی ہوئے تھے مگر فوجی قیادت جواب دینے سے گریزاں رہی۔ طالبان نے اس جلادی کا مظاہرہ ایسے وقت میںکیا‘ جب حکومت اور طالبان میں مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا اور طالبان‘ سابقہ حکومتوں کی خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حملے کر رہے تھے اور مذاکرات میں اپنی شرطیں منوانے کے لئے بہیمانہ کارروائیاں کر کے‘ حکومت اور فوج پر دبائو بڑھاتے جا رہے تھے۔ اس وقت پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جوابی کارروائی سے‘ ان کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے۔ وہ کسی بھی شرط پر فائربندی قبول نہیں کر رہے تھے۔ پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے۔ جمہوری نظام کے خاتمے پر مصر تھے اور اپنی مرضی کی آمریت مسلط کر کے‘ اسے اسلام کا نام دے رہے تھے‘ مگر جیسے ہی پاک فوج نے جوابی کارروائی میں چند فضائی حملے کئے‘ تو دیکھتے ہی دیکھتے طالبان کا جارحانہ رویہ بدل گیا اور انہوں نے مزید حملوں سے بچنے کی خاطر فوراً یکطرفہ فائربندی کا اعلان کر دیا‘ لیکن یہ ایسی فریب دہی اور عیاری تھی‘ جس کا مظاہرہ غیرمنظم‘ غیرمہذب اور بے اصول باغی کیا کرتے ہیں۔حکومت پاکستان نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر بمباری معطل کرنے کا اعلان کر دیا‘ لیکن طالبان اپنی طے شدہ پالیسی اور منصوبوں کے مطابق فائربندی کا دھواں اڑا کے اسلام آباد میں عدلیہ پر حملہ آور ہو گئے۔ ایک ایڈیشنل سیشن جج پر خودکش حملہ کر کے اپنے اہداف میں عدلیہ کو بھی شامل کر لیا۔اس سے پہلے سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری‘ طالبان کو خوش رکھنے کی پالیسی پر گامزن تھے۔ آپ کو یاد ہو گا انہوں نے ایک طرف باغیوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کوغیرموثر کرنے کی کوشش کی اور دوسری جانب مختلف لاپتہ افراد کے نام پر فوج کو ہراساں کیا۔ عدالتوں میں‘ جنرلوں سے توہین آمیز سلوک کیا۔گرفتارشدہ دہشت گردوں کو فراخ دلی سے رہائی دی اور جو مقدمات عدالتوں میںآئے‘ ان میں ملزموں کی ضمانتیںکثرت سے منظور کیں اور دہشت گردوں کو سزائیں سنانے سے گریزکیا گیا۔ اس کے جواب میں دہشت گردوں نے بھی سابق چیف جسٹس کی تعریف کی۔ آپ جانتے ہیں کہ طالبان‘ پاکستانی فوج کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس نے اپنے فوج مخالف طرزعمل سے دہشت گردوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی‘ وہ ختم ہو گئی اور طالبان نے محسوس کر لیاکہ فوج کا صبر جواب دے رہاہے اور عدلیہ کی ہمدردیاں بھی ختم ہونے والی ہیں‘ تو انہوں نے فائربندی کے اعلان کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے‘ عدلیہ پر حملہ کر دیا۔ اس کے باوجود اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ ان کی طرف سے فائربندی کے اعلان میں امن کی خواہش کارفرما ہے‘ تو یہ شدید غلطی ہو گی۔ گوریلا جنگوں میں اس طرح کے اعلانات ‘ مہلت حاصل کرنے کی خاطر کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی فوج کی موثر زمینی کارروائیوں اور طالبان کے لیے تباہ کن فضائی حملوں سے طالبان کو خطرہ پیدا ہوا کہ فوجی کارروائی اگر اسی شدت کے ساتھ جاری رہی‘ تو وہ اپنے ٹھکانوں سے محروم ہو جائیں گے۔ ان کی افرادی قوت جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر بکھر جائے گی اور اپنے مراکز سے محروم ہونے کے بعد‘ ان کے لئے باہمی رابطے برقرار رکھنا‘ مشکل ہو جائے گا۔ فائربندی اسی خوف کی بنا پر کی گئی۔ ان چند حملوں میں ہی انہیں زبردست نقصان پہنچایا گیا۔ ان کے متعدد مراکز تباہ ہو گئے۔ بارود کے ذخیرے‘ راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ ان کے اسلحے کے ذخیروں کو تباہ کر دیا گیا۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لئے انہیں مہلت درکار تھی۔ مگر یوں لگتا ہے کہ وزیرستان اور خیبرپاس کے علاوہ ‘جن قبائلی ایجنسیوں میں موجوددہشت گردوں کو نقصان نہیں پہنچا‘ ان میں سے بیشتر ٹی ٹی پی کے فیصلوں کے ''پابند‘‘ نہیں ہیں۔ گوریلا جنگیں لڑنے والوں کی مرکزی کمان نہیں ہوا کرتی۔ وہ علیحدہ علیحدہ اور آزادانہ کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کا ہدف ایک ہوتا ہے‘ لڑنے کے طریقے الگ الگ ہوتے ہیں اور وہ اس طریقہ کار کے تحت دشمن کو دغا دینے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب مذاکرات کی بات چلی تھی‘ تو میں نے لکھا تھا کہ طالبان فائربندی اور عدم جارحیت کے سمجھوتے کریں گے‘ لیکن ان کے اتحادی گروپ دہشت گردی کی کارروائیاں بھی جاری رکھیں گے۔ سمجھوتہ کرنے والے طالبان‘ ان کارروائیوں سے لاتعلقی کا اظہار کریں گے۔ جلد ہی میرے ان اندازوں کی تصدیق ہو گئی۔ مذاکرات کی خبروں سے پاکستان میں یہ امید پیدا ہوئی کہ دہشت گردی کی کارروائیاں رک جائیں گی‘ لیکن طالبان نے روایتی جنگی حکمت عملی کے تحت مذاکرات کے لئے حکومت پاکستان سے بالواسطہ رابطے بھی برقرار رکھے اور دہشت گردی بھی جاری رکھی۔ جس کا ایک مظاہرہ پشاور میں خوفناک دھماکوں کی شکل میںہوا اور ایک واقعہ اسلام آباد میں عدلیہ پر خودکش حملے کی صورت میں۔ یہ دہشت گردی کی تاریخ میں اسلام آباد میں ہونے والا سب سے بڑا واقعہ ہے‘ جس میں 11افراد شہید ہوئے اور میرے اندازے کے عین مطابق‘ مذاکرات کرنے والے لیڈروں نے دونوں واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ دہشت گردی کی جنگ میں قدم قدم پر دھوکے‘ فریب‘ ریاکاری اور گمراہ کرنے کے ان گنت حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ جنگ سیاسی حکومتیں نہیں لڑ سکتیں۔ انہیں سفارتی اور سیاسی محاذ سنبھالنا چاہئیں اور جنگ کے محاذ پر فوج کو ٹارگٹ دے کر‘ اسے اپنی فیلڈ میں مکمل اختیارات دے دینا چاہئیں۔ دنیا میں جتنے ملکوں کے اندر بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی گئی‘ وہاں اسی حکمت عملی سے کام لیا گیا۔ سیاسی حکومتیں دہشت گردوں کو عالمی اور ملکی رائے عامہ کی ہمدردیوں سے محروم کر کے‘ الگ تھلگ کرتی رہیں اور فوج نے جنگ کے میدان میں ان کی کمر توڑی۔ ہمیں بھی ایسی ہی حکمت عملی سے کام لینا ہو گا ۔ دہشت گردوں سے مذاکرات کامرحلہ وہ ہوتا ہے‘ جب فوجی قیادت یہ اندازہ لگانے کے بعد کہ اب دہشت گردوں کی قوت مزاحمت جواب دینے لگی ہے ‘ حکومت کو مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دے۔ یہ وقت مذاکرات شروع کرنے کا ہوتا ہے۔ تب حکومت میدان جنگ میں‘ فوج کی بالادستی کو بتدریج مستقل فتح میں بدلتی ہے۔ پاکستان میں ابھی یہ صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ اسی لئے مذاکرات کا وقت بھی نہیں آیا۔ (بشکریہ: بری‘ بحری اور فضائی افواج کا ماہ نامہ ہلال)