"NNC" (space) message & send to 7575

فوج کو عزت ہی نہیں‘ دھاک چاہیے

ایسا نہیں کہ حکومت اور فوج کا ایک پیج پر رہنالازمی سمجھا جاتا ہو۔ ان دنوں بھی امریکہ میں سی آئی اے اور پینٹاگون کے درمیان‘ افغانستان سے واپسی اور بعدازانخلاکے حالات سے نمٹنے کے طریقوں پر شدید اختلاف رائے ہے۔ بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ نے واضح پیش کش کر دی تھی کہ بھارت سیاچن گلیشیئر کو امن کا پہاڑ قرار دینے پر تیار ہے۔ اگلے ہی روز بھارتی فوج کے سربراہ نے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف اعلان کر دیا تھا کہ بھارت ایسی کسی تجویز کو قبول نہیں کرے گا۔ یہ مکالمہ ملک کے منتخب وزیراعظم اور فوج کے سربراہ کے مابین ساری دنیا کے سامنے ہوا۔پاکستان میں بارہا ایسا ہوا لیکن کبھی کھلے تصادم یا تنازع کی صورت میں معاملہ‘ عوام یا میڈیا کے سامنے نہیں گیا۔ افواہیں اور قیاس آرائیاں سامنے آتی رہیں۔ اس طرح کا ریکارڈ کبھی نہیں بنا‘ جو آئی ایس آئی اور میڈیا گروپ کے مابین تنازعے کی وجہ بن رہا ہے۔ مسلح افواج ‘ منتخب آئینی حکومت کے ماتحت ہوتی ہیں۔ لیکن اپنے فرائض کی نوعیت اور ذمہ داریوں کی نزاکت کی وجہ سے‘ فوج کے معاملات کو ہمیشہ خفیہ اور امتیازی رکھا جاتا ہے۔ فوج کو عوام کے سامنے ہر بات کہنے کی آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی‘ جو حکومت کے منتخب عہدیداروں کو ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے میڈیا میں ‘ فوج پر بے جا‘ غیر ضروری اور غیرذمہ دارانہ خبروں اور تبصروں سے گریز کیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ‘ ملک کا بااختیار ترین ادارہ ہے جس میں ہر سوال زیربحث لایا جا سکتا ہے۔ لیکن وہاں بھی‘ اس پابندی کا خیال رکھا جاتا ہے کہ جو فرد یا ادارہ‘ پارلیمنٹ کے اندر جواب دینے کی پوزیشن میں نہ ہو‘ اس کے حوالے سے ایوان کے اندر بات نہ کی جائے۔ یہی احتیاط میڈیا میں رکھی جاتی ہے۔ چھاتہ برداروں کی چھوڑیئے‘ وہ تربیت‘ تجربے اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو سمجھے بغیر‘ آسمانوں سے براہ راست سٹوڈیوز میں آ اترے ہیں۔ ان میں سے بعض تویہ سمجھتے ہیں کہ وہ حکومت‘ عدلیہ اور فوج‘ کسی کی بھی پگڑی اچھال سکتے ہیں۔ سیاستدانوں کی تحقیر کرنا تو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔لیکن پرنٹ میڈیا میں100 سال سے زیادہ عرصے کی قائم شدہ روایات موجود ہیں۔ اخبار کے دفتر میں جب کوئی رپورٹر یا سب ایڈیٹر داخل ہوتا ہے تو 100 سالہ تجربے اور روایات کا اثاثہ اس کی دسترس میں آ جاتا ہے۔ دفتر کا ماحول اس کے لئے درسگاہ بن جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنی اہلیت اور ذہانت کے مطابق جتنا کچھ چاہے‘ سیکھ سکتا ہے۔ جو نہیں بھی سیکھ سکتے‘ ان کے سینئرز‘ ترمیم و اصلاح کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ ہر شعبے کا ایک انچارج ہوتا ہے۔ جب تک وہ کسی مضمون‘ ڈائری‘ رپورٹ‘ کالم یا خبر کواچھی طرح دیکھ نہیں لیتا‘ وہ کاپی تک جا ہی نہیں سکتی۔ گویا اخبار میں نگرانی اور چھان بین کا عمل‘ ہر درجے پر جاری رہتا ہے اور قارئین کے سامنے جو تحریر آتی ہے‘ وہ پیشہ ورانہ چھان بین کے مراحل سے گزر چکی ہوتی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو وجود میں آئے‘ دس بارہ سال کا عرصہ ہوا ہے۔ معدودے چند صحافیوں کو چھوڑ کر‘ باقی سب کے سب براہ راست کیمروں کے سامنے آ بیٹھتے ہیں۔ خبریں لکھنے اور بنانے والوں کو سینئرز سے رہنمائی لینے اور خود سوچنے سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن جو براہ راست مائیک پر بول رہے ہوتے ہیں‘ ان کے پاس غوروفکر اور چھان بین کا وقت نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں‘ کسی سنجیدہ یا حساس ٹاک شو کی میزبانی‘ اعلیٰ تربیت یافتہ‘ تجربہ کار اورپڑھے لکھے اینکرز کے سپرد کی جاتی ہے۔ امریکہ میں ہزاروں ٹی وی چینلز ہیں مگر وہاں سیاسی ٹاک شوز کے اینکرز کی تعداد پاکستان بلکہ اسلام آباد سے بھی کم ہے۔ امریکہ میں برسوں کے بعد ایک قابل ذکر اینکر سامنے آتا ہے اور پاکستان میں ہر مہینے‘ کسی نہ کسی چینل پر ایک نیا اینکر اپنے بارے میں‘ اتنے بڑے بڑے دعوے کرتا دکھائی دیتا ہے‘ جو کبھی حامدمیر‘ کامران خان‘ طلعت حسین‘ ارشد شریف‘ کامران شاہد‘ معید پیرزادہ‘ مبشر لقمان‘اعجاز حیدر‘ نسیم زہرہ‘ عاصمہ شیرازی جیسے سینئر اینکرز نے بھی نہیں کئے ہوتے۔ پاکستان کے ہر نیوزچینل کوچھاتہ برداروں کی کارستانیاں بھگتنا پڑتی ہیں۔ 
''جنگ‘‘ اور ''جیو‘‘ میری اس رائے کو پرکھنے کے لئے عمدہ مثال ہیں۔ ''جنگ‘‘ پرنٹ میڈیاکی پراڈکٹ ہے اور ''جیو‘‘ الیکٹرانک میڈیا کی۔انتظامیہ ایک ہے۔ پالیسیاں تشکیل دینے والی اتھارٹی بھی مشترک ہے۔ ''جنگ‘‘ نے آزادی سے پہلے اور بعد‘ قریباً 70 سال کے دوران اتنے بحران نہیں دیکھے ہوں گے‘ جتنے ''جیو‘‘ نے 12 سال میں پیدا کر دکھائے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان دنوں جو ٹرانسمشن زیربحث ہے‘ وہ کسی بھی اخلاقی‘ فنی اورتکنیکی معیار کے مطابق نہیں۔ نیوز چینل پر‘ ایک ہی تصویر ‘ ایک ہی الزام کے ساتھ مسلسل 8گھنٹے دکھانا اول درجے کی بے ہنری‘ نااہلی‘ پیشہ ورانہ نالائقی‘ بدذوقی اور کسی نہ کسی کی بدنیتی ہے۔ جیسا میں نے شروع میں عرض کیا کہ فوج ایک حساس اور سخت ترین قوانین کا پابند ادارہ ہے۔ اسے منتخب حکومتی عہدیداروں کی طرح میڈیا میں آنے کی اجازت نہیں۔ پارلیمنٹ کی طرح میڈیا کو بھی‘ یہ احتیاط کرنا پڑتی ہے کہ جس کے پاس جواب دینے کا موقع نہ ہو‘ اس پر الزام لگانے سے گریزکرنا چاہیے۔ فوج کے بارے میں کوئی خبر شائع یا نشر کرنا ضروری ہو‘ تو آئی ایس پی آر کا ادارہ موجود ہے۔ اس سے مشاورت کی جا سکتی ہے اور خبر چھاپنا ضروری سمجھا جائے‘ تو آئی ایس پی آر کا موقف ساتھ ہی شائع یا نشر ہو جانا چاہیے۔ ان ساری پیشہ ورانہ ضرورتوں کی روشنی میں‘ متنازع فٹیج‘ کسی معیار پر پوری نہیں اترتی۔ یہ صریحاً مجرمانہ غلطی ہے۔ جس کا کوئی جواز نہیں۔ غلطی تب تک غلطی رہتی ہے‘ جب تک ذمہ دار ادارہ‘ اس پر کسی واضح موقف کے ساتھ سامنے نہ آئے۔اگر بروقت غلطی کا اعتراف کر کے معذرت کر لی جائے‘ توعموماً اسے تسلیم کرکے بلاتامل یا وارننگ کے ساتھ ‘ نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن غلطی کو عزت و وقار کا سوال بنا کر‘ جوازپیش کئے جانے لگیں‘ تو اس کا مطلب یا تو ہٹ دھرمی ہوتا ہے یا جو کچھ کیا گیا‘ سوچی سمجھی پالیسی کے تحت کیا گیا اقدام ہوتا ہے۔ غلطی کے اعتراف کا وقت گزر گیا۔ ادارے نے اس غلطی کو اپنی دیرینہ پالیسیوں اور ریکارڈ کے ساتھ منسلک کر کے‘ ایسی ذمہ داری قبول کر لی ہے‘ جس کے نتائج سے راہ فرار اختیار کرنا آسان نہیں رہ گیا۔
آئی ایس آئی کا حق تھا کہ حکومت ‘ اپنے ایک اعلیٰ افسر کی کردار کشی پر فوری ردعمل ظاہر کر کے‘ نیوزچینل کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع دیتی۔ حکومت نے تونیوزچینل کے ساتھ ہی اظہاریکجہتی کر ڈالا۔ وزیراعظم بجا طور سے حامد میر کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ یہ میڈیا کے لئے اعزاز کی بات تھی۔ متاثرہ فریق اور اپنے ماتحت ادارے یعنی آئی ایس آئی میں‘ نہیں گئے۔ یہ آئی ایس آئی کے لئے توہین‘ تحقیراور خفت کی بات تھی۔ چیف آف آرمی سٹاف‘ جنرل راحیل شریف اپنی فورسز کی عزت و وقار کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں‘ فوری طور پر اپنے افسروں اور جوانوں کے حوصلے بڑھانے کے لئے آئی ایس آئی کے ہیڈکوارٹر گئے۔ ضرور انہوں نے تسلی دیتے ہوئے تلافی کی امید دلائی ہو گی۔ تلافی تو کیا ہونا تھی؟ آئی ایس آئی نے قانون کا راستہ اختیار کرتے ہوئے‘ اپنی شکایت‘ مجاز ادارے پیمرا میں پیش کر دی۔ پیمرا میں جو کچھ ہوا‘ وہ ہم سب کے لئے باعث شرم ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے ‘ ہمارے ملک اور ہمارے اداروں کے مابین ہے۔ غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح اور تلافی ہوتی رہے‘ تو یہ معمول کی بات ہے۔ لیکن جب کسی نجی ادارے کی زیادتی کے سوال پر‘ دو حکومتی اداروں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہو جائے‘ تو یہ انتہائی خطرناک چیز ہوتی ہے۔ پیمرا نے وزیراعظم کے ماتحت ادارے کی شکایت کا ازالہ کرنے کے لئے جو طرز عمل اختیار کیا‘ وہ ہمارے معاشرے کی ناپسندیدہ روایت کے مطابق‘ صرف بے سہارا اورکمزوروں کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے۔ پیمرا نے یہ تمیز بھی روا نہیں رکھی کہ درخواست گزار کون ہے؟ درخواست گزار وہ ادارہ ہے‘ جس کی عزت کرنا ہی کافی نہیں ہوتا‘ اس کی دھاک بھی ضروری ہے۔ ملک کے لئے جانیں قربان کرنے والوں اور سفارشیوں اور کرپشن میں بدنام عناصر کے درمیان‘ کوئی فرق ضرور ہونا چاہیے۔ کرپٹ ادارے بے وقار بھی ہو جائیں‘ تو معاملات چل جاتے ہیں۔ فوج کی عزت پر حرف آئے‘ تو اس کی سیدھی ضرب ملک کی سلامتی اور دفاع پر لگتی ہے۔ جو توہین برداشت کر گیا‘ وہ سپاہی نہیں۔ وزیراعظم پر‘ بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ انہیں میڈیا کے حقوق کا بھی خیال رکھنا پڑے گا اور فوج کی عزت و وقار کا بھی۔ نہ جانے‘ اس بار میاں صاحب فیصلے کرنے میں ہچکچانے کیوں لگے ہیں؟ بعض فیصلے فوری اقدام کے متقاضی ہوتے ہیں۔ وقت پر کر لئے جائیں‘ تو درپیش مسئلہ کینچوے کی طرح ہوتا ہے۔ تاخیر کی جائے‘ تو سانپ بن جاتا ہے۔تاخیر اور زیادہ ہو جائے تو وہی مسئلہ جو شروع میں کینچوا تھا‘ اژدھا بن جاتا ہے۔ اس بار میاں صاحب نے کئی کینچوئوں کو سانپ اوراژدھے بننے کے مواقع دیئے ہیں۔ پرویزمشرف کی مثال ہی لے لیں۔ انہیں الیکشن لڑ کے‘ اپنے سیاسی انجام تک پہنچنے دیا جاتا‘ تو وہ کچھ نہ ہوتے۔ اب وہ بہت کچھ ہیں۔ کینچوا سانپ بن گیا ہے۔نکل جانے دیا‘ تو غائب ہو جائے گا۔ روکا گیا‘ تو اژدھا بن جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں