مدت کے بعد آج قارئین سے مکالمے کا وقت نکالا ہے۔ چین سے خریدے گئے ریلوے انجنوں کی جو درگت پاکستانی ڈرائیوروں اور مستریوں نے بنائی‘ اس کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ میرے ایک پرانے قاری محمد امیر‘ چین کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوکوموٹو انجن خرید کر‘ پاکستان سمیت ‘عالمی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں''چین کے ساتھ کاروبار کے طویل تجربے کی روشنی میں بتا سکتا ہوں کہ ہم چین سے ہر وہ چیز خرید سکتے ہیں‘ جس کی ہمیں ضرورت ہے۔‘‘ چین ‘ خریداروں کو حسب ضرورت معیار اور قیمت کی اشیاء مہیا کر دیتا ہے۔ اگر آپ معیاری چیز کی قیمت اداکریں‘ تو مال آپ کی خواہش کے مطابق تیار کر دیا جاتا ہے۔ اگر رعایت چاہیں‘ تو جس قدر سستی مشینری بنائی جا سکتی ہے‘ چینی تیار کر دیتے ہیں۔ چین اعلیٰ ترین معیار کی مصنوعات بھی بناتا ہے۔ جیسے آپ جانتے ہیں‘ دنیا کی تیزترین ٹرین‘ چین میں چلتی ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ چینی صنعت کار‘ اشیاء کے معیار کے معاملے میں بے حد محتاط ہیں۔ وہ کسی بھی پروڈکٹ کی قیمت بتانے سے پہلے‘ آپ کو ہر معیار کے نرخ بتا کر‘ پوچھ لیتے ہیں کہ آپ کتنی قیمت دینا چاہیں گے؟ اسی نسبت سے آپ کے لئے تیار ہونے والی مصنوعات کا معیار‘ رکھ دیا جاتا ہے۔ چین کے ریلوے انجنوں کے بارے میں پاکستان کے اندر جو پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے‘ وہ سازش کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک بات ذہن میں رکھیے کہ چینی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار امریکہ ہے۔ ترقی یافتہ یورپی ممالک بھی‘ چینی مصنوعات کے خریدار ہیں۔‘‘یہ میرا نکتہ نظر ہے۔ اس خط سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ریل کے جو انجن چین سے منگوائے گئے ہیں‘ وہ طے شدہ قیمت کے مطابق تیار کیے گئے ہوں گے۔ ہمارے بیوروکریٹ اور سیاستدان‘ خریداریوں میں جو کرتب دکھاتے ہیں‘ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یقینی طور پر انہوں نے سب سے سستے انجن مانگے ہوں گے اور پھر ان میں سے اپنا چائے پانی بھی نکالا ہو گا۔ انتہائی کم قیمت پر بنائی گئی چیز کی قیمت میں سے ''چائے پانی‘‘ نکال لیا جائے‘ تو صنعت کار کے پاس جو قیمت بچے گی‘ اس میں تو وہی انجن بن سکتے ہیں جو کراچی پہنچنے سے پہلے خراب ہو جائیں۔ اس میں چینیوں کا قصور نہیں‘ خریداروں کی ہنرمندی ہے۔ پوری قیمت ادا کر کے‘ معیاری انجن خریدلیں۔ وہ انجن کراچی تو کیا‘برسلز تک بغیر کسی خرابی کے پہنچ جائے گا۔ اپنے کالم کی تحسین پر عزیزم تنویرقیصر شاہدکا شکر گزار ہوں۔
ایک خط نے پرانی یادیں تازہ کر دیں۔ان یادوں سے آپ بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ لکھنے والے مہربان سید ذوالقرنین قادری ہیں‘ جو فروغ گیلانی کے نام سے بھی معروف ہیں۔ لکھتے ہیں''آپ میرے لئے اجنبی نہیں۔ میں آپ کو 1970ء سے جانتا ہوں‘ جب آپ صحافی کی حیثیت سے پورے پاکستان میں اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔ آپ جس دور میں کرشن نگر رہتے تھے
‘ میں بھی وہیں تھا۔ اس وقت میں گریجوایشن کر رہا تھا۔ تب کرشن نگر بہت ہی پرسکون آبادی تھی۔ اس دور کا کرشن نگر اور اس سے ملحق سنت نگر میں‘ پاکستان کے نامور صحافی‘ ادیب‘ شاعر اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے۔ آپ کے علاوہ کشور ناہید اور ان کے شوہر یوسف کامران‘ احمدبشیر‘ صبا حمید اور ان کے والد حمید اختر‘ ناصر کاظمی‘ رضی ترمذی‘ مشہور پلے بیک سنگر احمد رشدی اور ان کے بھائی ارسلان‘ مشہور فلمی ادا کار یوسف خان‘ حبیب جالب‘ صوفی تبسم‘ عطااللہ شاہ ہاشمی اور بہت سے نامور لوگ ‘ جن کے نام بھول چکا ہوں‘ انہی دو محلوں میں رہتے تھے۔‘‘قادری صاحب جو نام بھولے ہیں‘ ان میں مشہور فلمی شاعر مسرور انور‘منوبھائی‘ سہیل ظفر مرحوم‘ مرزا ادیب‘ پروفیسر مبارک احمد‘ زاہد ڈار‘ عباس اطہر ‘ پروفیسر شفیق جالندھری اور احمد مشتاق شامل ہیں۔ ان کا ایک شعر بھی پڑھ لیجئے ؎
امن ملے تیرے بچوں کو اور انصاف ملے
دودھ ملے چاندی سا اجلا‘ پانی صاف ملے
قادری صاحب‘ اس زمانے کے کرشن نگر کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں''اس دور کا کرشن نگر انتہائی پرسکون آبادی تھی۔ کرشن نگر کے آخری بس سٹاپ سے اومنی بس اور ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ جن کا کرایہ ایک آنہ اور دو آنے ہوا کرتا تھا۔ یہ ہنگامہ خیز دور تھا۔ مگر لوگوں میں شرم و حیا باقی تھی۔ دولت کو ابھی خدا نہیں مانا گیا تھا۔ تمام سبزیوں کے ریٹ ‘ آنے‘ دونی‘ چونی میں ہوا کرتے تھے۔ آج تو سبزی کے ریٹ بھی سینکڑوں میں بتائے جاتے ہیں۔ یہ سیاسی ہنگاموں کا دور تھا۔ میں بھی شعر‘ افسانے‘ غزلیں اور مضامین لکھتا تھا۔ اپنی تحریروں کے ساتھ چھپوانے کے لئے میں نے اپنی تصویر مشہور فوٹو گرافر رولو سے بنوائی تھی‘ جو 10روپے میں تیار ہوئی۔ یہ اس زمانے میں بڑی رقم تھی۔ ‘‘ میں بھی عرض کر دوں کہ منیر نیازی‘ ظفر اقبال‘ شہزاداحمد‘ شکیب جلالی اور میں ‘ سب کو نظم یا غزل شائع ہونے پر 10 روپے معاوضہ ملا کرتا تھا اور مضامین ‘ فیتے سے ناپے جاتے تھے۔ ریٹ یاد نہیں رہ گیا۔ غالباً 10 روپے فی کالم کے لگ بھگ ہوتا۔ قادری صاحب لکھتے ہیں ''احمد رشدی نے مجھے جناب ناصر کاظمی سے ملایا۔ انہوں نے میری ابتدائی غزلوں کی نوک پلک بھی درست کی۔‘‘ مزید چند یادیں دہرانے کے بعد انہوں نے روزنامہ ''دنیا‘‘ کے بارے میں جو کچھ لکھا‘ اس پر میںمیاں عامر محمود‘ سلمان غنی اور ہارون الرشیدکی طرف سے‘ شکریہ اداکرتاہوں۔ قادری صاحب جو لکھنا چاہتے ہیں‘ اس کے لئے میں نے میگزین ایڈیٹر عامر خاکوانی صاحب سے درخواست کر دی ہے۔ وہ ان سے رابطہ کر لیں گے۔
ابھی ابھی شجاع آباد سے ایک محترم قاری کا ٹیلیفون آیا۔ وہ استفسار کر رہے تھے کہ روزنامہ ''دنیا‘‘ ملتان سے کب شائع ہو گا؟ جہاں تک ادارے کا تعلق ہے‘ اس کی طرف سے تمام تیاریاں مکمل ہیں۔ لیکن ملتان ایڈیشن مرتب کرنے کے لئے ‘ تجربہ کار ساتھی نہیں مل رہے۔ جیسے ہی ٹیم مکمل ہوئی‘ ہم ملتان ایڈیشن شروع کرنے کے لئے 60 دن سے زیادہ کا وقت نہیں لیں گے۔ انشاء اللہ۔ ایک زمانے میں ہم سوچا کرتے تھے کہ اخباروں میں تنخواہیں اچھی ہو جائیں‘ تو لائق اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات اس پیشے میں آنے لگیں گے۔ اب اللہ کے فضل و کرم سے صحافیوں کومعقول بلکہ زیادہ ہی معقول تنخواہیں اور مراعات ملنے لگی ہیں‘تو مطلوبہ اہلیت کے لوگ ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ فیض‘ سبط حسن‘ احمد ندیم قاسمی‘ شوکت صدیقی‘ طفیل احمد جمالی‘ اشفاق احمد اور انہی جیسے دیگر سرکردہ اور نامور صحافیوں کی تنخواہیں ہزاروں میں ہوا کرتی تھیں۔ 10ہزار تک شاید کوئی ہی گیا ہو؟ آج اپرنٹس کی تنخواہ 25 ہزار ہے۔ لیکن میں نے کسی نوجوان کو کتاب خریدتے یا پڑھتے ہوئے بہت کم دیکھا ہے۔ شاید یہ لوگ سوچتے ہوں کہ وہ کام زیادہ کرتے ہیں‘ یا اخراجات پورے نہیں ہوتے‘ یا مہنگائی زیادہ ہے۔ لیکن مجھے یہ عذر متاثر نہیںکرتے۔ زندگی کیسی بھی ہو اور کسی بھی دور کی ہو‘ تفکرات سے آزاد نہیں ہوتی۔ مشکلیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں۔ زمانہ کسی کو فرصت نہیں دیتا۔ ہر خوشی‘ ہر لطف‘ ہر سرور‘ ہر مستی‘ خود پیدا کرنا پڑتی ہے۔ مجھے یاد ہے‘ جب ہم فٹ پاتھوں پر کھانے کھایا کرتے تھے‘ تو اپنی غریبی پر رونے دھونے کی بجائے‘ سستے کھانوں سے بھرپور لطف اٹھایا کرتے۔ جیسے میں نے بتایا کہ مجھے نظم یا غزل شائع ہونے پر 10 روپے ملتے تھے۔ میں ان میں خوب عیاشی کرتا۔ پاک ٹی ہائوس میں دوستوں کو چائے پلاتا۔ سینما دیکھتا۔ تانگے کی سیر کرتا۔ شام ہونے تک 10 میں سے چھ سات روپے خرچ کر چکا ہوتا۔ رات آتی‘ تو 4آنے کے نان کباب کھانے کے بعد ‘ ایک آنے کی فرنی یعنی سویٹ ڈش کھاتا اور اللہ کا شکر ادا کر کے ‘ اس کمرے میں سونے کے لئے روانہ ہو جاتا جو رائل پارک میں میرے پاس تھا۔ جو دو اڑھائی روپے جیب میں بچے ہوتے‘ راستے میں جو بھی ہاتھ پھیلاتا‘ ''ساری پونجی‘‘ اس کے حوالے کر کے سونے چلا جاتا۔ اگلی صبح اللہ تعالیٰ پھر کوئی نہ کوئی انتظام کر دیتا۔ دوستوں میں پیسوں کا لین دین ہوتا رہتا تھا‘ لیکن یہ صرف محاورۃً لکھا ہے۔ اصل میں صرف لین ہوا کرتا۔ دین کی نوبت نہیں آتی تھی۔ سب جانتے تھے کہ قرض واپس کرنے کے لئے نہیںہوتا۔ اس پر ایک واقعہ یاد آ گیا ۔ ابراہیم جلیس مرحوم ایک روز شورش کاشمیری کے دفتر میں داخل ہوئے‘ تو بڑے زور سے قہقہے لگا رہے تھے۔ شورش صاحب نے پوچھا کہ'' اتنی ہنسی کس بات پر پھوٹ رہی ہے؟‘‘ جلیس نے ہنستے ہوئے جواب دیا ''ہاہاہا! آج ایک آدمی نے مجھ سے قرض مانگا۔‘‘ زندگی بہت پیاری چیز ہے۔ کیسی بھی ہو؟ اچھی لگتی ہے۔ اچھی نہ لگتی‘ تو اس عہد خرابی میں‘ جب کسی بھی لمحے بم آپ کے پرخچے اڑا سکتا ہے‘ ہم زندہ کیسے رہیں؟ دل چاہا تھا‘ آج ہلکی پھلکی باتیں کروں۔ اچھی لگیں‘ تو لطف اٹھا لیں۔ ورنہ برداشت کر لیں۔