"NNC" (space) message & send to 7575

مجھے کیا فرق پڑا؟

ڈاکٹر بابر اعوان واقعہ سناتے ہیں کہ جب محترمہ بے نظیر کو شہید کیا گیا‘ تیسرے دن‘ ان کے گھر میں سوئم پر قرآن خوانی ہو رہی تھی۔ اڑھائی تین سو خواتین جمع تھیں‘ جو روتی جا رہی تھیں اور درود شریف اور قل شریف پڑھتی جا رہی تھیں۔ بابر اعوان‘ اسلام آباد سے گھر پہنچ کر والدہ محترمہ سے ملے‘ تو وہ بھی رو رہی تھیں۔ انہوں نے روتے روتے اپنے بیٹے سے کہا ''یہ مردانہ آمریت والا معاشرہ ہے۔ ایک عورت لیڈر بنی‘ اس سے وہ بھی برداشت نہ ہو سکی۔ کر دیا ناں شہید بے چاری کو؟‘‘ بابر اعوان نے یہ واقعہ سناتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ''والدہ‘ یہ بات مجھ سے کہہ رہی تھیں‘ جو خود بھی ایک مرد ہے‘‘۔ میں نے جواب دیا ''ڈاکٹر صاحب! ماں پہلے عورت ہوتی ہے‘ بعد میں ماں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے زن و مرد دونوں کو برابر کی حیثیت میں پیدا کیا‘ لیکن مردوں نے فطرت کی عطا کردہ جسمانی صلاحیتوں کو عورتوں کے خلاف ہزاروں سال‘ اتنی بے رحمی سے استعمال کیا کہ آج وہ دنیا بھر میں بچوں کے بعد‘ مظلوم ترین نوع ہے۔ میں نے کسی ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ ''دنیا میں ہر طاقتور کا غصہ کمزوروں پر اترتا ہے اور بچے سے زیادہ کمزور کون ہوتا ہے؟‘‘ ''دنیا‘‘ نیوز نے سوشل میڈیا سے ایک ویڈیو نکال کر دکھائی۔ گھر کا ایک بیڈ روم تھا۔ اس میں ایک عورت تھی۔ ایک آٹھ دس ماہ کا بچہ تھا۔ عورت گھریلو ملازمہ تھی۔ جب جب بچہ روتا‘ تو وہ اسے اٹھا اٹھا کر پٹخ دیتی۔ زور زور سے جھنجھوڑتی۔ چپ نہ ہوتا‘ تو دوبارہ پٹخ دیتی۔ یہ سب کچھ وہ‘ اتنی بے رحمی سے کر رہی تھی کہ دیکھنے والوں کے دل تڑپ اٹھے۔ 
یہ منظر دیکھ کر میں نے سوچا کہ پاکستان جیسے ملک میں‘ ایک گھریلو ملازمہ سے زیادہ مظلوم شاید ہی کوئی ہو۔ ان بیچاریوں سے دن رات کام لیا جاتا ہے۔ بے رحمی سے مار پٹائی کی جاتی ہے۔ بچا ہوا باسی کھانا دیا جاتا ہے۔ فرش پر سلایا جاتا ہے اور ہر وقت اسے جھڑکیاں دے دے کر‘ اس کی مسلسل توہین کی جاتی ہے۔ یہ فٹیج دکھانے والوں نے‘ اس منظر سے یہ سماجی سبق نکالا کہ اس اذیت ناک منظر کو دیکھ کر‘ لوگوں کو سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے معصوم بچے کو گھریلو ملازمائوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے۔ ایسا عموماً وہ ماں باپ کرتے ہیں‘ جو دونوں ہی صبح اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔ بچہ ملازمہ کے رحم وکرم پر ہوتا ہے اور وہ اس کے ساتھ جو سلوک چاہے کرتی ہے۔ میں نے یہی منظر دوسری طرح دیکھا۔ ہرچند عورت کمزور ہوتی ہے اور جب گھریلو ملازمہ بھی ہو‘ تو اس سے زیادہ کمزور کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن جب اسے کوئی خود سے بھی زیادہ کمزور ملتا ہے‘ تو وہ اس کے لئے ظالم بن جاتی ہے۔ گھریلو ملازمہ کے پاس تو معقول جواز بھی موجود تھا۔ وہ بھی کسی کی بیٹی تھی۔ گھرکے مالک اس سے زیادہ طاقتور تھے۔ ان کے سامنے وہ‘ بے بسی کی آخری حد تک کمزور تھی۔ اس کی مسلسل توہین ہوتی تھی۔ ہر وقت مارپیٹ کی جاتی۔ اسے کھانے کے لئے بچا بچایا سالن اور باسی روٹی ملتی۔ وہ مہینوں دال روٹی کے سوا کسی دوسری چیز کا ذائقہ چکھنے کی مجاز نہیں تھی۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کا بدلہ کس سے لیتی؟ اسے کسی خود سے زیادہ کمزور کی ضرورت تھی اور گھریلو ملازمہ سے زیادہ کمزور‘ ایک کمسن بچہ ہی ہو سکتا ہے۔ جو اپنے والدین کے ظلم و زیادتی کا نتیجہ اپنی کمزوری اور بے بسی سے بھگتتا ہے۔ بچے کے ساتھ یہ ظلم عام طور پر خالی گھروں میں خادمائیں کرتی ہیں۔ آٹھ دس ماہ کے بچے کو ملازمہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کے‘ والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ گھریلو ملازمہ کے ساتھ ان کا اپنا سلوک کیا ہے؟ 
مجھے بہت سے قارئین نے کہا ہے کہ میں نے سنگسار ہونے والی حاملہ ماں اور اس کے بچے کی موت پر کالم کیوں نہیں لکھا؟ سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس سانحہ کے مختلف دردناک پہلوئوں پر غور کرتے کرتے‘ کچھ لکھنے کے قابل ہی نہیں رہ گیا تھا۔ میں ان تماشائیوں کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ سنگساری کے اس دردناک منظر میں‘ اگر آگے بڑھ کر ایک نامولود بچے اور اس کی ماں کو سنگسار ہونے سے نہیں روک سکتے تھے‘ تو وہاں کھڑے ہو کر کیا دیکھ رہے تھے؟ کیا وہاں کسی مجرم کو سزا دی جا رہی تھی؟ کیا کسی ظالم سے حساب لیا جا رہا تھا؟ کیا کسی قاتل کو پکڑ کر اس کے بھیانک جرم پر زدوکوب کیا جا رہا تھا؟ اگر یہ سب کچھ نہیں تھا‘ تو تماشائی کیا دیکھ رہے تھے؟ 
فرزانہ کے شوہر نے‘ جس کے ساتھ اس نے محبت کی شادی کی تھی‘ تماشہ دیکھنے والے پولیس کانسٹیبلوں اور شہریوں کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے التجائیں کیں‘ کوئی اس کی بیوی اور بچے کو بچا لے۔ وہ دہائیاں دیتے ہوئے پوچھ رہا تھا کہ ہمارے اس بچے کا کیا قصور ہے؟ جو ابھی دنیا میں ہی نہیں آیا؟ کم از کم اس کی خاطر ہی میری بیوی کو بچا لو۔ جب التجائیں کرتے ہوئے اس شخص نے تماشہ دیکھنے والے کانسٹیبل کے پیر پکڑ کر مدد کی التجا کی‘ تو جواب ملا ''یہ میری ڈیوٹی نہیں۔‘‘ اس حواس باختہ شخص کو اپنی بے چارگی اور مظلومیت ثابت کرنے کے لئے کچھ اور نہ سوجھا تو اپنی قمیض اتار کر لوگوں کے پیروں میں رکھتے ہوئے رو رو کر کہنے لگا ''میرے پاس یہی ایک چیز ہے۔ میں کیا کر سکتا ہوں؟ مجھ پر رحم کرو۔ مجھ پر رحم کرو۔‘‘ پتھر برسانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ اکیلا انہیں روک نہیں سکتا تھا۔ لڑکی کا باپ تھا۔ اس کے دو بھائی تھے۔ ان کے رشتے دار تھے۔ یہ سارے مل کر ایک نہتی‘ کمزور اور حاملہ لڑکی کو مکوں‘ ٹھڈوں اور ڈنڈوں سے پیٹ رہے تھے۔ مگر ان ہتھیاروں سے اسے موت نہیں آ رہی تھی۔ 20 کے لگ بھگ درندے‘ نہتی لڑکی کو ہر طریقے سے مار دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کی جان نہیں نکل رہی تھی۔ آخر کار اس کے کسی سگے نے کہیں سے اینٹ ڈھونڈ نکالی اور اس کے سر پر مسلسل ضربیں لگانے لگا۔ یہ ترکیب کامیاب رہی۔ اس کا سر کچلا گیا۔ وہ دم توڑ گئی۔ تماشا ختم ہو گیا۔ تماشائی گھروں کو چلے گئے۔ قاتل خون میں لت پت مقتولہ کو سڑک پہ چھوڑ کر اس اطمینان کے ساتھ گھروں کو لوٹ گئے کہ انہوں نے اپنی عزت کا تحفظ کر لیا۔ مگر ان کی عزت‘ یعنی ان کی بیٹی کھلی سڑک پر پڑی تھی۔ زندہ نہیں تھی۔ لیکن تھی تو بیٹی۔ عزت کہاں بچی؟ 
ہم ایک عجیب و غریب معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کی شکلیں اور صورتیں‘ جسمانی ساخت اور حرکات و سکنات‘ سب انسانوں جیسی ہیں۔ ان میں انسانیت نہیں۔ یہ انسانیت کہاں سے لیں؟ اپنے مولویوں سے؟ جو معصوم بچوں کو اذیتیں پہنچا کر مار دیتے ہیں۔ مسجد میں پانی پینے کے لئے گئے‘ ایک 7 سالہ بچے کو امام مسجد دور سے تالا مار کے‘ اس کی آنکھ پھوڑ دیتا ہے۔ کیا وہ انسانیت لینے کے لئے ایسی مسجد میں جائے؟ کوئی ایسا کالج یا یونیورسٹی رہ گئی ہے‘ جہاں جا کرکوئی انسانیت لے سکتا ہو؟ اس کے لیڈر‘ انسانیت دے سکتے ہیں؟ جس کا اپنا دامن خالی ہو‘ وہ کسی کو کیا دے سکتا ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں‘ جو پنچایت کے حکم سے‘ درجن بھر کی تعداد میں ایک نہتی اور مظلوم عورت پر جھپٹ کر‘ اسے نوچتے اور آبروریزی کرتے ہیں۔ کوئی اس کی مدد کرنا چاہے تو اس کی تذلیل کرتے ہیں اور اگر دنیا اس کی مدد کر دے‘ تو اسے بھی برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ دولت کے یہ حریص‘ جن کی رال ہر وقت ٹپکتی رہتی ہے۔ ایک مظلوم عورت کو دنیا سے مالی امداد ملتے ہوئے دیکھ کر حسد سے جل اٹھتے ہیں اور تلملا کر پورے ملک کی عورتوں کی تذلیل کرنے پر اتر آتے ہیں۔ یہی وہ ملک ہے‘ جس کے حکمران نے بیرون ملک جا کر کہا تھا ''بیرونی شہریت لینے کے لئے عورتیں ریپ کرا لیتی ہیں۔‘‘ یہ فرمان ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کا تھا۔ وہی شخص‘ جو وطن عزیز کے دفاع کا ذمہ دار تھا۔ جو ہماری عزتوں کا رکھوالا تھا۔ مختاراں مائی کی عزت لوٹنے والے‘ اب ان چار پیسوں کے پیچھے ہیں‘ جو اس مظلوم عورت کو ظلم کا نشانہ بننے پر دنیا نے رحم کھا کر دیے تھے۔ 
عورتوں اور بچوں پر ظلم و تشدد کے ان گنت واقعات ہوتے ہیں۔ ایسا عموماً چھپ چھپا کر کیا جاتا ہے۔ لاہور جیسا تماشہ ہر جگہ نہیں لگتا۔ غیرت کے نام پر بیٹیوں کو قتل کرنا‘ ہمارے ہاں فخر کی بات سمجھا جاتا ہے۔ کیا کوئی یقین کرے گا؟ کہ زیادہ دبائو پڑنے پر بیٹیوں اور بہوئوں کے جو قاتل‘ پکڑے جاتے ہیں‘ انہیں تھانوں میں عزت و آبرو سے رکھا جاتا ہے۔ ان کی خاطر مدارت کی جاتی ہے۔ آنے جانے والوں کو‘ ان کے قصے سنائے جاتے ہیں کہ یہ کتنے غیرت مند ہیں؟ انہوں نے خون کے رشتے کی پروا نہیں کی اور بیٹی کی بوٹیاں کر کے پھینک دیں۔ اسے زندہ دفن کر دیا۔ بے عزت کر کے اس کی لاش درخت سے لٹکا دی۔ محبت کی شادی کرنے والے‘ بیٹوں بیٹیوں کو قتل کرنے کے احکامات دینے والے‘ ہماری اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ قانون سازی کرتے ہیں۔ ان مظالم کے خلاف میں کیسے لکھوں؟ کس کے لئے لکھوں؟ ان کے لئے لکھوں؟ جو میرے کالم میں ظلم اور بربریت کی مذمت کے لئے لکھے گئے الفاظ‘ پڑھ کے ظلم کا نشانہ بننے والوں کی اذیتوں کے تصور سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جس طرح ہتھوڑے چلانے والے ہاتھوں کی جلد‘ پتھر کی طرح بے حس ہو جاتی ہے‘ میرا وجود اسی طرح بے حس ہو چکا ہے۔ ہر انسان کے اندر سہن کی ایک انتہا ہوتی ہے۔ اس کے بعد بے حسی چھا جاتی ہے۔ اس کیفیت کو میں نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔
مجھے آواز دینے والا بچہ
کہیں لاشوں کے پیچھے چھپ گیا ہے
میں لاشوں کے نیچے دبا ہوا ہوں۔ مجھ پر لدی ہوئی لاشوں میں‘ فرزانہ اور اس کے نامولود بچے کی لاش بھی شامل ہو گئی ہے۔ مجھے کیا فرق پڑا؟
--------------------

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں