آخرکار پاکستان نے اپنی سرزمین پر قائم دہشت گردوں کے مراکز ختم کرنے کا مشکل فیصلہ کر ہی لیا۔ مشکل اس لئے کہ دہشت گرد اسلام کا نام لے کر‘ عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ اسلام کے نام پر سیاسی اور مالی فوائد حاصل کرنے والے عناصر ‘ دہشت گردوں کو برسرعمل رکھنے کے خواہش مند ہیں تاکہ دہشت گردوں کی خونریزی سے بچنے کے لئے حکومت ‘ ان سے مدد کی طلب گار ہو اور یہ سودے بازی کر کے‘مفادات حاصل کرتے رہیں۔ ان میں جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت نمایاں ہیں۔ ان دونوں جماعتوں نے تحریک پاکستان کی حمایت نہیں کی۔ اب وہ پاکستان دشمن دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ہماری حمایت کیسے کریں گے؟ان کی مخالفت نہ قیام پاکستان کو روک پائی اور نہ انشاء اللہ پاکستانی افواج کو فتح سے روک پائے گی۔ آپریشن عضب‘ مکمل فوجی تیاریوں کے بعد شروع کیا گیا ہے۔فوج کے اندر مدت سے اضطراب تھا کہ اسے بے گناہ پاکستانیوں کے قاتلوں سے نمٹنے کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا؟ لیکن قیادت کی سطح پر کوئی نہ کوئی رکاوٹ پڑتی رہی اور اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں نے گھات لگا لگا کر ہمارے شہریوں اور فوج کے افسروںاور جوانوں کو شدید نقصانات پہنچائے۔ سیاستدان ‘ آپریشن شروع ہونے کے بعد بھی یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کر پائے۔ جماعت اسلامی اور جے یو آئی نے تحفظات کا اظہار کیا۔ تحریک انصاف فوری حمایت کرنے سے محروم رہی۔ سوچ بچار کے بعد حمایت کر بھی دی‘ تو یہ فوری اور غیرمشروط حمایت کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ فوری اور بروقت حمایت کا اعزاز‘ الطاف حسین نے حاصل کیا۔ ان کے بعد پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ نے کھل کر حمایت کی۔ اے این پی کے حاجی عدیل بھی پیچھے نہیں رہے۔ وزرا نے اس اقدام کے حق میں بیانات ضرور جاری کئے۔
1965ء کی جنگ شروع ہوتے ہی‘ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ‘بے ساختہ اور جوش و جذبے کے ساتھ‘ پاک فوج کی حمایت کرتے ہوئے اس کے حوصلے بڑھائے‘ وہ منظر اب دیکھنے میں نہیں آیا، لیکن عوام کا جوش و جذبہ قابل تعریف ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ دہشت گرد جوابی کارروائیوں میں‘ انہی کو اپنا نشانہ بنائیں گے۔ عوام کو ‘ دہشت گردوں نے معاف ہی کب کیا ہے؟ جب حکومت ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی تھی‘ دہشت گردوں نے تو اس وقت بھی نہتے عوام پر حملے کئے۔ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے امن حاصل کرنے کی کوشش کی‘ تو دہشت گردوں کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔ ان کا طرزعمل ایسا تھا جیسے وہ فاتحین ہوں اور حکومت پاکستان ان سے مراعات مانگ رہی ہو۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں‘ وزیراعظم نے مذاکرات کا فیصلہ نیک دلی سے کیا تھا۔ حالانکہ یہ مقبول فیصلہ نہیں تھا۔ وزیراعظم چاہتے تھے کہ امن حاصل کرنے کے لئے‘ دہشت گردوں کو تحفظ اور پرامن زندگی کے مواقع مہیا کر کے‘ ان کو نارمل زندگی گزارنے کے لئے مدد دی جائے، لیکن انہوں نے مراعات لینے کی بجائے شرطیں رکھنا شروع کر دیں۔ حکومت کو مجبوراً یہ سلسلہ ختم کرنا پڑا۔ مذاکرات سے نقصان یہ پہنچا کہ دہشت گردوں نے ان کی آڑ میں‘ اپنی طاقت ان علاقوں سے باہر منتقل کر دی‘ جو ان کے مضبوط مراکز کے حوالے سے معروف تھے۔ اب آپریشن شروع ہوا ہے‘ تو دہشت گردوں کے تمام لیڈر اور بڑے گروپ ‘ سرحد پار افغانستان میں جا چھپے ہیں یا منتشر ہو کر پاکستان میں پھیل گئے ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ پاک فوج نے انہیں جان بوجھ کر موقع دیا کہ وہ خود ہی تتربتر ہو جائیں تاکہ ان کے محفوظ تربیتی اور منصوبہ بندی کے مراکز ختم ہوجائیں۔ منتشر ہونے کے بعد انہیں منظم کارروائیوں کے منصوبے بنانے میں مشکلات پیش آئیں گی۔ آپریشن عضب توقعات کے مطابق کامیاب ہو رہا ہے۔ یہ سابقہ آپریشنز سے مختلف ہے۔ وہ محدود مقاصد کے لئے کئے گئے تھے۔ آپریشن المیزان ‘ جنوبی وزیرستان تک محدود تھا۔ آپریشن شیر دل ‘ کا دائرہ حرب باجوڑ تک تھا۔ آپریشن زلزلہ‘ صرف جنوبی وزیرستان میں ہوا۔ آپریشن راہ حق‘ مالاکنڈ ڈویژن اور سوات میں ہوا اور آپریشن راہ نجات پھر جنوبی وزیرستان میں کیا گیا۔ ان میں باجوڑ ‘ مالاکنڈ ڈویژن اور سوات کے آپریشنز بڑی حد تک کامیاب رہے۔ ان آپریشنز کے ساتھ ساتھ بات چیت کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ جن کے نتیجے میں امن کے پانچ معاہدے کئے گئے۔ ان میں صرف دو کسی حد تک کامیاب رہے۔ ایک حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ‘ شمالی وزیرستان کے لئے اور دوسرا ملا نذیر گروپ کے ساتھ‘ وانا میں۔ تین معاہدے دہشت گردوں کی طرف سے توڑ دیئے گئے۔نیک محمد وزیر کے ساتھ شکئی معاہدہ۔ بیت اللہ محسود کے ساتھ سراروغہ معاہدہ۔ صوفی محمد اور فضل اللہ کے ساتھ سوات کا معاہدہ۔ باجوڑ ایجنسی میں ایک وسیع معاہدے پر مذاکرات کامیاب رہے تھے لیکن عملدرآمد شروع ہونے سے پہلے ہی‘ امریکہ نے ڈرون حملہ کر کے 83 افراد کو ہلاک کر دیا۔ معاہدہ وہیں کا وہیں دھرا رہ گیا۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ فوج ہمیشہ‘ ایک ہی کارروائی تک محدود نہیں رہتی۔ ایک کارروائی جاری رہتی ہے اور 10 مختلف آپشنز پر غور و فکر ہوتا رہتا ہے۔ دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں باربار مذاکرات بھی ہوئے۔ معاہدے بھی ہوئے۔ جب کوئی دہشت گرد گروپ معاہدے سے منحرف ہوا‘ تو فوج کے پاس متبادل انتظامات بھی موجود تھے۔ مذکورہ سارے معاہدے‘ مقامی سطح پر بااختیار افسروں نے کئے تھے۔ مذاکرات کا آخری دور‘ وفاقی حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ہوا۔ ان مذاکرات کے دوران بھی‘ فوج نے متبادل منصوبے بنانے کا کام جاری رکھا اور کئی ایک کی جزئیات طے کر کے کارروائی کرنے کی تیاریاں بھی جاری رکھیں۔ ان تیاریوں کے دوران جو قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہوئیں‘ ان میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد‘ جانشینی کے سوال پر پیدا ہونے والے اختلافات سے فائدہ اٹھانا تھا۔ یہ کوشش بے حد کامیاب رہی۔ حکیم اللہ کے انتہاپسند حامیوں کو باقی شدت پسندوں سے علیحدہ کر دیا گیا۔ ان کے اختلافات میں شدت آتی گئی۔ یہاں تک کہ وہ آپس میں برسرپیکار ہو گئے۔ مذاکرات کو طول دے کر‘ شمالی وزیرستان سے نکل جانے کے خواہش مندوں کو موقع دیا گیاکہ و ہ چاہیں تو اپنے مراکز کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غیرملکی دہشت گردوں کی بڑی تعداد‘ افغانستان کی طرف بھاگ گئی اور باقی تتربتر ہو کے پاکستان کے اندر پھیل گئے یا دوسرے ملکوں میں جا کر اپنے ہم خیال دہشت گردوں سے مل گئے۔ اس ترکیب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ آپریشن عضب میں‘جو خونریزی ہو سکتی تھی‘ اس میں قابل قدر حد تک کمی آ گئی۔
دشمن کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے کے ساتھ‘ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اپنوں کی صفوں میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کی جائے۔ اس مقصد کے لئے فوج نے اپنی پیشہ ورانہ حدود میں رہتے ہوئے‘ حکومت کو سیاسی جماعتوں سے رابطے کر کے‘ انہیں دہشت گردوں کے خلاف ہم خیال بنانے کے مشورے دیئے۔ اس سلسلے میں جو کوششیں منظرعام پر آئیں‘ وہ سب کے سامنے ہیں۔ جیسے کل جماعتی کانفرنسیں اور پارلیمانی کارروائی۔ لیکن کچھ کوششیں ایسی ہیں‘ جو منظر عام پر نہیں آئیں۔ یہ کوششیں وزیراعظم کے ساتھیوں اور مشیروں نے کیں۔ وہ نجی طور پر مختلف سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں کر کے‘ انہیں آئندہ کارروائی کے منصوبوں پر‘ اعتماد میں لیتے رہے۔ جو قابل ذکر سیاستدان یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا‘ پتہ نہیں وہ اپنی کونسی سیاسی ضرورتیں پوری کر رہے ہیں؟ حقیقت میں انہیں سب کچھ بتایا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں عرفان صدیقی اور میجر عامرکے کردار کے بارے میں‘ مناسب وقت پر بات کروں گا۔
آخر میں تمام اہل وطن سے بلا استثنیٰ درخواست ہے کہ ہم اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس باہمی اختلافات کی قطعی گنجائش نہیں رہ گئی۔ جنگ میں پلک جھپکنے پر بھی ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ جو شہری‘ جہاں پر ہے‘ اسے وہیں پر اپنے آپ کو برسرجنگ سمجھ کر‘ ہمہ وقت ہوشیار رہنا چاہیے۔ اگر عوام محتاط اور چوکنے رہیں‘ تو کوئی اجنبی ان کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ دہشت گرد اپنی ناکامیوں کا بدلہ پرامن شہریوں سے لینے کی کوشش کریں گے۔ ان کوششوں کو شہریوں کی چشم نگراں سے ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف حکومت سے درخواست کروں گا کہ جس طرح فوج نے میدان جنگ میں ہتھیار پھینکنے والوں کے لئے مقامات کا تعین کر دیا ہے‘ جہاں وہ اپنے ہتھیار پھینک کرمعافی لے سکتے ہیں۔ اسی طرح شہروں کے اندر بھی ایسے مقامات کا تعین کر دیا جائے‘ جہاں چھپے ہوئے سلیپر‘ خاموشی سے ہتھیار پھینک کر پناہ حاصل کر لیں۔ جیسے جیسے میدان جنگ میں‘ ان کی تنظیمیں کمزور ہوں گی‘ سلیپرز کے حوصلے بھی پست ہوں گے۔ ایسے دہشت گردوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ بھی ہتھیار پھینک کر پرامن زندگی گزارنے کا موقع حاصل کر سکیں۔