گزشتہ دوچار دن کی خبروں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ عمران خان اور حکومت کے مابین سمجھوتہ ہو جائے گا۔اسی امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے ‘میں نے آٹھ اگست کو ایک کالم لکھا۔ شام کو عمران خان کی پریس کانفرنس آگئی۔ جس میں وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ میں نے اس کالم کی اشاعت روک دی۔دوپہر کے آغاز پر‘ حکومت کی طرف سے یہ بیان آگیا کہ ہم نے عمران خان کو دس نشستوں پر گنتی کی دوبارہ پیش کش کر دی ہے۔میں نے سیاست کو جتنا دیکھا اور سمجھا ہے‘ اس کے مطابق ایک ایسی حکومت کی طرف سے‘ جو چار نشستوں پر گنتی کا مطالبہ تک سننے کو تیار نہ تھی‘ اس نے دس نشستوں پر دوبارہ گنتی کی پیش کش کر دی تو میرے نزدیک یہ عمران خان کی فتح تھی۔ میں سمجھا کہ وہ قدم بقدم آگے بڑھنے کے اصول کے تحت‘ یہ پیش کش قبول کر لیںگے اور اگلی کامیابی کے لئے کوئی نیا آئیڈیا لے کر‘ کام شروع کر دیں گے۔ سیاسی فتوحات‘ میدان جنگ کی طرح نہیں ہوتیں کہ ایک فریق ہتھیار پھینک کر دوسرے کی فتح قبول کر لے۔ سیاست کی ہر کش مکش یا جنگ کا بہترین انجام عموماً وہی ہوتا ہے‘ جس میں ایک فریق کی فتح ہو جائے اور دوسرے کو شکست نہ ہو۔سچ بات یہ ہے کہ عمران پر‘ میرا ہر فارمولا ردی ثابت ہوا ۔ میں نے سوچا تھا کہ عمران خان چار نشستوں پر‘ دس گیارہ مہینے سے لڑائی لڑتے آرہے ہیں اور یہ مطالبہ نہیں مانا جا رہا تھا۔ وہ دبائو بڑھاتے چلے گئے جو یقیناً صحیح حکمت عملی تھی۔ اس کا نتیجہ بھی نکلا۔ حکومت دبائو میں آگئی اور خان صاحب کی خوش قسمتی کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنا میلہ لگا کر‘ حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر دیں۔ غور کیا جائے تو اصل دبائو علامہ صاحب کی طرف سے آیا تھا۔ اس پر حکومت اتنا گھبرائی کہ
اس نے ہڑبڑاہٹ میں‘ چار کے بجائے ‘دس نشستوں پر یہ سوچ کر گنتی کی دوبارہ پیش کر دی کہ'' خان صاحب سے پیچھا چھڑائو اور علامہ صاحب سے ٹکرائو‘‘۔ لیکن خان صاحب ایک اپنی ہی سیاسی سائنس ایجاد کر رہے ہیں۔ سیاست دان آخر تک'' تخت یا تختہ‘‘ کی صورت حال پیدا نہیں کرتا مگر خان صاحب کی سیاست کے اپنے انداز ہیں۔ وہ ہر موڑ پر ''تخت یا تختہ‘‘ کی حالت میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ بات ‘دوسرے فریق پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ اپنے لئے راستہ نکالے۔
میں ایک بار پہلے بھی اپنے کالم میں یہ قصہ لکھ چکا ہوں۔ مائوز ے دنگ جب کال کوٹھڑی میں تھے تو ایک دن بلی کا چھوٹا سا بچہ ان کے سیل میں آگیا۔مائو کو جو خوراک ملتی‘ وہ اس میںسے تھوڑا سا حصہ نکال کر‘بلی کے بچے کو دے دیتے۔بچے اور قیدی کے درمیان انسیت پیدا ہو گئی۔ جب بھی موڈ ہوتا دونوں ایک دوسرے سے کھیلنے لگتے۔ قیدی تھک جاتا تو وہ دیوار سے لگ کر بیٹھ جاتا اور بلی کا بچہ تھکتا تو وہ کونے میں جا کر اونگھنے لگتا۔ وقت کے ساتھ‘ بلی کا بچہ بڑا ہو گیا۔ کھیل میں بھی تبدیلی آتی گئی۔ اب بچہ بڑی بڑی چھلانگیں لگاتا اور قیدی آگے سے بڑھ کر‘ اسے روکتا۔ بچہ اور بڑا ہوا تواس کا دل کال کوٹھڑی سے باہر جانے کو چاہا۔ جب وہ چھوٹا تھا تو سلاخوں میں سے نکل کے پوری جیل میں گھومتا اور واپس آجاتا لیکن جب بڑا ہو گیا تو سلاخوں میں جگہ کم پڑ گئی۔ اس کا باہر جانا بند ہو گیا۔ اب وہ باہر نکلنے کے لئے مختلف راستے تلاش کرنے لگا۔آخر کار اس کی نظر‘ روشن دان پر گئی اور اس نے چھلانگ لگا کر‘ وہاں سے باہر نکلنے کی کوشش کی۔وہ چھلانگ لگاتا‘ قیدی آگے بڑھ کر اسے بازئووں میں لے لیتا۔اب قیدی اور بلی کے ٹارگٹ بدل گئے۔ بلی چاہتی تھی کہ وہ روشن دان تک پہنچ کر باہر نکل جائے اور قیدی اس خیال میں تھا کہ وہ مجھ سے کھیل رہی ہے۔ بلی سمجھنے لگی کہ یہ مجھے روکنے لگا ہے۔اس کے سامنے باہر نکلنے کی ایک ہی جگہ تھی۔ قیدی اسے وہاں پہنچنے سے روکتا تھا۔ یہ مشق جاری تھی۔ بلی چھلانگ لگاتی۔ قیدی آگے بڑھ کے اسے روکتا اور پھر وہی ہوا‘ جو ایسے حالات میں ہوا کرتا ہے۔ بلی چھلانگ لگانے کو تیار ہوئی۔ قیدی آگے کھڑا ہو گیا۔ اس بار بلی نے روشن دان کی طرف‘ چھلانگ لگانے کے بجائے ‘سیدھا قیدی پر جمپ لگایا اور اس کے سینے پر پنجے پھنسا کے‘ گردن میں دانت گاڑ دئیے اور اس وقت تک نہیں چھوڑا‘ جب تک قیدی کا شور سن کر‘پہرے داروں نے آکر اسے بچا نہ لیا۔ یہ قصہ بیان کر کے‘ مائوزے دنگ نے جو سیاسی نتیجہ نکالا وہ یہ تھاکہ بلی کا بچہ ہویا انسان‘ جب وہ گھیرے میں آجائے تو اس کے لئے نکل بھاگنے کی کوئی نہ کوئی جگہ ضرور چھوڑ دینی چاہئے۔جگہ ملے گی تو وہ آپ کے راستے سے ہٹ جائے گا لیکن اگر آپ اس کے نکل بھاگنے کا راستہ روکیں گے تو پھر وہ آپ کی گردن دبوچے گا۔
عمران خان نے انتھک محنت‘ عوامی رابطوں کے لئے مسلسل جدوجہد اور حکومتی کمزوریوں کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے گھیرے میں لے لیا۔ اتفاق سے علامہ طاہر القادری کے بے معنی انقلاب کے ہنگاموں نے حکومت کے اوسان خطا کر دئیے۔جو حکومت چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ نہیں مان رہی تھی‘ وہ دس حلقوں میں مان گئی۔ گویا بلی باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہی تھی اور میرا خیال تھا کہ خان صاحب اسے راستہ دے کر‘ڈاکٹر
طاہر القادری کو حکومت کے پسینے چھڑانے پر لگے رہنے دیں گے اور اپنے لئے کوئی اگلا معرکہ چنیں گے مگر لگتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ وہ شو ڈائون کی پوزیشن لیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیںاور نوازشریف کے لئے اس کے سوا کوئی چوائس نہیں چھوڑ رہے کہ ''یا تم نہیں یا ہم نہیں‘‘۔ خان صاحب تو وزیراعظم کو گھیر کے رنگ میں لے آئے۔ ہو سکتا ہے وہ نوازشریف کو شکست دے دیں یا ان سے شکست کھا لیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہو گا کہ فتح یاب کھلاڑی دونوں ہاتھ بلند کر کے‘ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے گا لیکن انہیں شاید یہ خیال نہیں رہا کہ مقابلہ ریسلنگ کا نہیں‘ سیاست کا ہے۔اس میں اگر مخالف کو گھیر گھار کے رنگ میں آنے پر مجبور بھی کر دیا جائے تو دونوں فریق‘ ایک ساتھ فتح حاصل کرنے کی ترکیب نکال لیتے ہیں لیکن خان صاحب تو کسی بھی ترکیب کی گنجائش چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔وہ تو صاف کہہ رہے ہیں''یا نوازشریف نہیں یا میں نہیں‘‘۔سنا ہے خان صاحب کے کچھ سمجھدار مشیر انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ کوفتح کا نعرہ بلند کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھائیے اور اپنی کامیابی کا اعلان کر کے‘ اگلے معرکے کی تیاریاں شروع کر دیجئے۔ سیاست بھی زندگی کی طرح قدم بقدم اور مہم بہ مہم آگے بڑھتی ہے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ پہلے ہی مقابلے میں فتح یا شکست تک پہنچ جائیں۔معرکوں کا مسلسل جاری رہنا ہی زندگی ہے‘ اور یہی سیاست بھی ہے۔ خان صاحب کااپنا طرز سیاست ہے اور سیاست میں میرا تصور ان سے مختلف ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ نوازشریف کے ساتھ'' تخت یا تختہ‘‘ کی صورت حال پیدا کرنا خود خان صاحب کے لئے بھی خطرناک ہے۔بہتر یہی ہے کہ اس تنازعے میں دونوں فریقوں میں سے ‘نہ کسی کی فتح ہو نہ شکست۔دونوں ہی میدان سیاست میں رہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے سے مقابلہ کریں۔ دونوں ہر مقابلے میں کامیاب ہوں۔بعض لوگ‘ میری آخری بات کو شاید غلط سمجھیں مگر میں غلط نہیں لکھ رہا۔ سیاست میں ہار جیت ہو جائے تو وہ سیاست نہیں اور دونوں طرف جیت ہو، اسے سیاست کہتے ہیں۔ میںاپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لئے ایک مفروضہ قائم کروں گا۔فرض کریں نوازشریف اور خان صاحب کے باہمی مقابلے میں‘کوئی ایک ہارتا اور دوسرا جیت جاتا ہے تو کیا جیتنے والا کامیاب رہے گا؟ان دونوں میں ہار جیت کا فیصلہ ہو جائے تو جیتنے والے کے اندر وہ طاقت نہیں رہ جائے گی جو بعد کی صورت حال میں اقتدار پر گرفت قائم رکھ سکے۔ پاکستان میں اقتدار کے ہر دنگل کا نتیجہ دیکھنے کے لئے‘ کچھ اور لوگ بھی ہوتے ہیں۔جب دو طاقت ور سیاسی حریف‘ ایک دوسرے سے فیصلہ کن مقابلے پر اتر آئیں تو ایک جیت جاتا ہے تو دوسرا کمزور پڑ جاتا ہے اور جو باہر گیلری میں بیٹھا ہوتا ہے‘ جیت اس کی ہو جاتی ہے۔